مجھے میرے دوستوں سے ملاؤ


\"S  دسویں جماعت کی اردو کی کتاب میں ”مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ“ کے عنوان سے سجاد حیدر یلدرم کا ایک مضمون ہوا کرتا تھا۔ ماسٹر حزقی ایل نہال داس صاحب نے کیا مزے لے لے کر پڑھایا تھا۔ ماسٹر حزقی ایل منشی فاضل تھے۔ فارسی اور اردو پر کمال دسترس رکھتے تھے۔ سبق پڑھاتے پڑھاتے، موضوع سے متعلق دنیا بھر کا علم اُ گل د یا کرتے تھے۔ سبق سے پہلے مصنف کے بارے بتانے سے قبل کتاب بند کر دیتے۔ پھر تفصیل سے مصنف کے بارے بیان کرتے کہ ایک ایک بات ذہن میں نقش ہو جاتی۔ جو وہ زبانی بتاتے کتاب اور امدادی کتب میں کبھی نہیں ملا۔ سنٹرل میتھوڈسٹ ہائی سکول سٹونزآباد (میاں چنوں) کے اساتذہ بھی کیا لوگ تھے۔ ایک سے بڑھ کر ایک۔ علم و ادب کی محفلیں، مشاعرے، مباحثے اور دیگر سرگرمیاں سکول اور گاؤں کا چلن تھا۔

 سکول میں ثقیل ادبی موضوعات پر مباحث اور اساتذہ کی نوک جھونک ہماری تربیت کا حصہ تھی۔ کیا عجب طرز کے اساتذہ تھے۔ امتحانی نقطہ نظر کے لفظ سے بھی نا آشنا تھے۔ ہاں مگر علم فراہم کرنا اور تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنا ان کا مقصد حیات تھا۔ چنانچہ ہم لوگوں کو بلیک بورڈ پر مضمون نہیں لکھ کر دیا جاتا تھا بلکہ خود طبع آزمائی کرنی پڑتی تھی۔ ارے بھئی یہ مشن اسکول کے اساتذہ تھے۔ استاد کیا تھے، مشنری تھے۔

ہاں تو جب یہ مضمون ”مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ\” پڑھا تو دوستوں کی جملہ قباحتوں کے بارے میں ہم عملاً بے خبر تھے۔ خیر اِس مضمون سے ہم پہ انکشاف ہوا کہ کرہ ار ض پر عام انسان کی زندگی، مصروفیت اور کام میں حائل بد ترین رکاوٹ کا نام دوست ہے۔ سکول کا زمانہ تھا اِس مضمون کے خیال کی صداقت پر کبھی غور کرنے کا یارا نہیں ہوا۔

 2002 ء تک گاؤں میں رہے تویہ مضمون کبھی یاد بھی نہیں آیا تھا۔ احباب تھے اور سنگت بھی گاڑھی تھی۔ مگر کبھی یہ تاثر نہیں ملا کہ وہ ہمارے کام، گھریلو مصروفیت یا دیگر کسی سرگرمی میں مخل ہوں بلکہ بقول ”ج“ وہ تو الٹا ہماری ہر جائز و ناجائز اور نامعقول سرگرمی میں باقاعدہ سہولت کار رہے۔ خیر پچھلے چند برس سے ہم جنوبی پنجاب کے گاؤں ”سٹونزآباد“ (جہاں ہماری روح پیوست ہے) سے نقل مکانی کر کے لاہور وارد ہوئے تو خوش گمانی تھی کہ بچپن کے کچھ سنگی یہاں قیا م پذیر ہیں جس کے باعث گاؤں سے دوری کا احساس تک نہیں ہو گا۔ خیر کوئی ایک آدھ بر س میں ہماری ساری خوش گمانیاں کافور ہو گئیں بلکہ گا ہے گاہے ہمیں اِس مضمون کی صداقت پر شک بھی ہونے لگا اور اب یہ عالم ہے کہ کہیں اندر سے ہم قائل ہو چکے ہیں کہ یہ مضمون محض تخیل پر مبنی ہے اور اِس کا حقیقت سے کہیں دور کا واسطہ بھی نہیں۔ چنانچہ بندہ ِ ناچیز نے درج ذیل وجوہات کی بنا پر سجاد حیدر یلدرم صاحب سے استدلال سے اختلاف کر نے کی جسارت کی ہے۔

 اپنے بچپن اور پچپن کے احباب میں ملول صاحب بہت خاص ہیں۔ گاؤں کی گلیوں میں ساتھ پلے بڑھے ہیں۔ دوستی کا دائرہ ہمارے والدین، بہن بھائیوں، عز یز و اقارب اور بچوں کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ صاحب عالم یہ ہوا کرتا تھا کہ ہم لوگ (بندہ  ناچیز، ملول اور جونی) صبح سکول میں ایک ساتھ وقت گزارتے۔ چھٹی کے بعد تینوں گھروں سے کھانا کھاتے، شام کو گراؤنڈ میں بیڈمنٹن، فٹ بال یا کرکٹ ہوتی اور رات کو سونے کے لئے اپنے اپنے گھروں کو سدھارتے۔ کالج تک یہ معمول جاری رہا۔ پھر یوں ہوا کہ غم ِ روزگار نے کسی کو کہیں تو کسی کو کہیں جما دیا۔ لاہور منتقل ہوئے تو دل میں پرانے وقتوں کی رفاقتوں کے تازہ ہونے کے خواب زندہ ہونے لگے۔ تاہم جلد ہی احساس ہوا کہ اب وہ زما نہ نہیں رہا تھا۔

کیا بتائیں صاحب ہفتوں ملاقات نہیں ہوتی۔ کئی کئی روز تک رابطہ نہیں ہو پاتا۔ اُدھر فون پر رابطہ کی کوشش کریں تو چھوٹتے ہی بولتے ہیں، ’کتھے آں، کدی ملدا ای نئیں ‘ (کہاں ہو، کبھی ملتے ہی نہیں ہو۔ ) پھر فرمائیں گے۔ یار بس پانچ منٹ میں کال بیک کرتا ہوں۔ ہم نہایت سعادت مندی سے فون بند کر کے اپنے کام میں مشغول ہو جا تے ہیں کیونکہ اگلے کئی روز تک ملول صاحب سے فون پر بھی رابطہ نہیں ہونے والا۔ ایک روز بہت اداس ہوئے تو سوچا دفتر جانے سے قبل ان کے دفتر جا کر شرفِ دیدار حاصل کیا جائے۔ وہاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ صاحب بس آنے ہی والے ہیں۔ کوئی آدھ پون گھنٹہ ا نتظار کیا لیکن صاحب نہ پہنچے۔ ایسے موقع پر وہ اپنا فون بند کرنا نہیں بھولتے۔ نا چار اپنے دفتر کا رُخ کیا۔ کوئی 11 بجے اُن کا فون آیا۔ بہت ناراض ہوئے۔ کہنے لگے، ابھی تُم نکلے کہ میں آ گیا تھا۔ دو منٹ رُک جاتے تو قیامت آ جاتی کیا۔ بس ہوا کے گھوڑے پرسوار رہتے ہو۔ مجھے پتاہے تم آج کل کیا کرتے پھرتے ہو۔ کہاں رہتے ہو۔ بس آج 6 بجے میرے گھر آؤ۔ کوئی بہانہ نہیں چلے گا۔ نہیں آئے تو۔۔۔ اِس کے بعد کچھ ایسی دھمکیاں ا گلیں کہ ہم جن کو رقم کر کے کا فساد خلق کا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔

تو صاحب ! ہم کوئی پونے چھ بجے دفتر سے نکل کھڑے ہوئے۔ راستہ میں کنفرم کرنے کی غرض سے فون کیا تو اچانک حیران ہو کر فرمانے لگے۔ او مائی گاڈ۔ یار میں تو بھول ہی گیا کہ تم آنے والے ہو۔ داخلہ کے سلسلہ میں یونیورسٹی آ یا ہوں۔ تمہارے پہنچنے تک بس آ یا کہ آیا سمجھو۔ ہم نے اپنی رفتار کم کر لی اور 10منٹ کا سفر 20 منٹ میں طے کر کے ملول صاحب کے گھر کے سامنے کھڑے ہو گئے۔ فون کر کے مطلع کیا تو جواب ملا بس آ رہا ہوں تم گھر میں بیٹھ کر گپ شپ لگاؤ۔ خیر ہم نے باہر کھڑے ہو کر ہی انتظار کرنا مناسب سمجھا۔ کوئی آدھ گھنٹہ مزید انتظار کر کے ہم اپنے گھر روانہ ہوئے۔ چھوٹے موٹے کام نمٹا کر کوئی پون گھنٹہ میں اپنے گھر کے قریب پہنچے ہوں گے کہ ملول صاحب کا فون آ یا۔ ہم نے ہیلو کہا تو دوسری طرف سے آواز آئی۔ کتھے آں۔ ملدا ای نئیں۔

جونی بھی ہمارے بچپن کے سنگی ہیں۔ بہت نستعلیق آدمی ہیں۔ نہایت اصول پسند واقع ہوئے ہیں۔ چھوٹے موٹے دو تین کاروبار کرتے ہیں۔ اہلیہ محترمہ کو اُن کی جائے ملازمت پر چھوڑنا، واپسی کے لئے لینا، بیٹی کو یونیوررسٹی چھوڑنا، واپس لینا، اور سالن تیار کرنے کے علاوہ باہر کے دیگر تمام امور کی بجا طور پر انجام دہی اُن کے فرائض منصبی میں شامل ہے۔ ملنے کے لئے کئی دن مسلسل تقاضا کرنا پڑتا ہے۔ نہایت وضع دار ہیں چنانچہ جنازہ وغیرہ پر اِن سے ملاقات یقینی ہوتی ہے۔ کوئی فوتگی ہو جائے تو فون کر کے تمام احباب کو جنازے کے وقت اور جگہ کے بارے مطلع کرتے ہیں اور مرحوم کے ساتھ جڑی یادوں کا ذکر کر کے احباب کو غمگین اور جنازے میں شریک ہونے کے لئے مائل و قائل کرتے ہیں۔ چنانچہ جنازہ کسی کا بھی ہو ہم اُ ن کا ہی منہ دیکھنے کے لئے جاتے ہیں۔ ایک روز ہمارا مزاج کچھ برہم پا کر کہنے لگے، اچھا آج چھ بجے کے بعد گھر میں رہنا (ہمارا دفتر کے بعد گھر کے علاوہ کوئی دیگر ٹھکانہ نہیں) میں ملول کو ساتھ لے کر آؤں گا۔ دفتر سے آدھ گھنٹہ پہلے نکل آئے کہ صاحبان کو گھر میں ہمارا انتظار نہ کرنا پڑے۔ کوئی 15منٹ انتظار کے بعد سوچا نہا دھو لیں۔ ساڑھے چھ بجے ہم دوبارہ اُن کا انتظار کر رہے تھے۔ اِس دوران ہمیں فارغ بیٹھا پا کر ہماری نصف بہترین نے موقع پا کر ڈیڑھ کلو بھنڈی اور دو کلو کریلے اور آدھ کلو پیاز کٹوا لئے۔ درمیان میں ہم فون پر رابطہ کرنے کی کوشش کرتے رہے مگر جواب ندارد۔ کوئی ساڑھے آٹھ بجے ملول صاحب کا فون آیا۔ ہم نے دریافت کیا کہاں ہو۔ جواب ملا، یار تمہارے پاس آنے کے لئے تیار تھے کہ مہمان آ گئے۔ بس ابھی آتے ہیں۔ رات نو بجے تک انتظار کرنے کے بعد ہم بالا آخر اِس بات پر قائل ہو گئے کہ فرشتگان ( ملول اور جونی) کا دیدار نہیں ہو گا۔

پطرس صاحب اپنی ذہانت، فہم و ادراک اور اپنی جملہ وا ضح اور غیر واضح صلاحیتوں کے باعث ہم احباب میں نہایت محترم ہیں۔ گو اُن کی بڑی ہمشیرہ مجھے اور پطرس کو بچپن میں ایک ساتھ کھلایا کرتی تھیں مگر دوست ہم لڑکپن کے ہیں۔ اردو اور انگریزی میں یکساں مہارت رکھتے ہیں چنانچہ متعدد کتابیں اپنے نام کر رکھی ہیں۔ شعر بھی کمال مہارت سے کہتے ہیں۔ دو چار مرتبہ فون کاٹ کر آ خر کار سُن بھی لیتے ہیں۔ ایسی شائستہ آواز میں ملنے کے لئے تڑپ کا اظہار کریں گے کہ گمان ہو گا کہ ابھی ملنے کی کو ئی تدبیر نکالیں گے تاہم ساتھ ہی تنگی دامانی ِ وقت کا ذکر کرتے ہوئے کم از کم اگلے دو ہفتوں کی مصروفیت کا احوال کچھ اِس درمندی سے بیان کریں گے کہ آپ کو خوامخواہ اُن سے ہمدردی ہونے لگے گی۔ ایک روز فون پر SMSکر کے نوید سنائی کہ شام کو کوئی ایک آدھ گھنٹہ ملاقات کے لئے بیگم کے ہمراہ تشریف لا ئیں گے۔ نہال ہو گئے ہم تو۔ ہم نے بچوں کو بتایا کہ پطرس صاحب مع اہلیہ تشریف لا رہے ہیں۔ اُن کا دل بہلانے کے حسب توفیق سامان کئے۔ شا م کو فون کر کے مطلع کیا کہ وہ پیغام غلطی سے ہمیں بھےجا گیا تھا۔ کیونکہ صاحب جہاں پہنچے تو اُن کے میزبان بے خبر تھے۔ بعد میں دیکھا تو وہ SMS ہمیں غلطی سے ارسال ہو گیا تھا۔

اکی پہلوان ہمارے بچپن سے پچپن کے ساتھی ہیں۔ نہایت اصول پسند اور نفیس انسان ہیں۔ اپنی اہلیہ سے بھی بغیر اپوائنٹ منٹ لئے نہیں ملتے۔ اپنے دفتر کے علاوہ شہر لاہور میں کوئی راستہ انہیں معلوم نہیں۔ چنانچہ جہاں جائیں رہنمائی کے لئے ہماری بھابھی کو ساتھ لیتے ہیں۔ بھابھی ( اب یہ تو خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ گاڑی میں احتراماً اُن کے برابر نہیں بیٹھتیں یا اُن کے برابر بیٹھنا کسر شان سمجھتی ہیں ) ہمیشہ پیچھے والی نشست پر براجمان ہوتی ہیں اور پھر وہاں سے بیٹھے بیٹھے اعلان فرماتی ہیں، اکی دائیں، اکی بائیں، اکی اب پیچھے لو غلط آ گئے ہو۔ اِس مشق کے دوران صاحب 20 منٹ کا سفر کوئی ڈیڑھ گھنٹہ میں طے کر کے پہنچتے ہیں۔ انہیں کہیں اکیلے جانا ہو تو گاڑی سیدھی دفتر پہنچ جاتی ہے۔ وہاں سے فون کر کے بھابھی سے یا میزبان سے منزل کا پتہ پوچھتے ہیں۔ ہمارے احباب میں واحد اکی پہلوان ہیں جو کسی نہ کسی طور ملنے کی کوئی تدبیر نکال لیتے ہیں۔ گو اِس کے لئے بھی کوئی مہینہ بھر تو لگ جاتا ہے تاہم ایک با ر اگر وعدہ کر لیں تو پھر ملاقات پکی ٹھہر جاتی ہے۔

سوچتا ہوں سید سجاد حیدر بھی کیا نصیب والے آدمی تھے۔ تب احباب کو ملنے کے لئے وقت میسر تھا بس بہانہ درکار ہوتا تھا۔ مجھے یقین ہے کہ آج کے دور میں اُن کے احساسات ہم ایسے لوگوں سے مختلف نہ ہوتے۔

 وقت کچھ اس طرح بدلا ہے کہ بہانہ اور وقت دونوں ناقابل گرفت ہیں۔ کسی کو بچوں کوچھوڑنے اور واپس گھر لانے کی ذمہ داری ہے تو کوئی صبح سے شام تک کئی جگہوں پر کام میں مصروف ہے۔ صبح اٹھنے سے قبل کام شروع ہو تا ہے جو رات گئے سونے تک جاری رہتا ہے۔ خدا کی پناہ، چائے کا کپ ٹھنڈا ہوئے بھی ایک آد ھ گھنٹہ گزر جاتا ہے کہ اُس طرف دھیان ہی نہیں جاتا۔ اُدھر کوئی آ کر بتاتا ہے، صاحب سات بج گئے آفس بند کرنا ہے۔

 سید سجاد حیدر صاحب ! یہی فرصت ڈھونڈتے تھے نا آپ۔ کوئی مخل نہ ہو۔ ہاں نا! اب ہمیں یہ سہولت تو ہے مگر ہم تو مرے جا رہے ہیں کہ کوئی ہمارے کام میں مخل ہو۔ کوئی جھٹ سے دروازہ کھولے اور کہے۔ ارے بس کرو کتنا کام کرو گے۔ اٹھو ذرا جونی کے ہاں چلتے ہیں کوئی گپ شپ ہو جائے۔ جی ہاں سید صاحب۔ نہ جانے کس وقت آپ نے دوستوں سے بچنے کی آہ بھری تھی کہ سیدھی بارگاہ الٰہی میں منظور ہو گئی اور اب ہم اس کے جملہ اثرات بھگت رہے ہیں۔ کاش کوئی سید سجاد حیدر ہو جو اُتنے ہی درد سے دوستوں سے ملاپ کا نوحہ رقم کرے جسے شرف قبولیت نصیب ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments