زبان دراز حسینہ


محض دن بھر پڑوسنوں سے ساس نندوں کی برائیاں کرنے کی وجہ سے اسے زبان دراز نہیں سمجھا جاتا تھا بلکہ کچھ کا کہنا تھا کہ اس کی زبان درازی دیگر امور میں بھی کام آتی کہتے ہیں برائی کی عمر دراز ہوتی ہے سو اس کی بھی تھی سونے پر سہاگہ کہ وہ دراز قد بھی تھی۔ جب شادی ہو کر آئی تو میاں نے پہلی فرصت میں کمرے کی چھت سے پنکھا اتروا دیا کہ کبھی سر تو کبھی پیر کا گھومتے پروں سے ٹکرانے کا خدشہ لاحق تھا۔ اس کا کمرہ پہلی منزل پر تھا سو ٹھنڈا تھا مگر جسم کی گرمی زیادہ اس لیے ائر کنڈیشنر چلائے رکھتی۔ کبھی وہ حسن کا اعلی نمونہ تھی اور اب تو ایسی برکت پڑی کہ نسوانی پر غیر انسانی ہونے کا شبہ ہونے لگتا۔ لیکن پھر بھی بہت سی عورتوں میں کھڑی وہ عورت ہی دکھائی دیتی مگر جڑواں عورت۔ جیسے دو عورتوں کو جوڑ دیا گیا ہو۔

کہتے ہیں وقت کبھی نہیں رکتا مگر اس نے تو کمال مہارت سے اس فلسفے کو بھی غلط ثابت کیا۔ کیوں کہ جب بیاہی گئی تو پچیس کی تھی مگر شادی کے دس سال بعد بھی ستائیس سال کی کہلائی یوں اس نے دس سال میں آٹھ سال وقت کو روکے رکھا۔ شوہر کاروباری تھا دن چڑھے تک سوتا اور رات گئے لوٹتا وہ بھی ڈگمگاتا ڈولتا۔ اس کی ازدواجی محبت زبان و کلام میں کم اور عمل میں زیادہ تھی۔

چونکہ میاں بیوی گاڑی کے دو پہیے ہوتے ہیں اس لیے ان دونوں نے اس دو پہیوں والی گاڑی کو اس سپیڈ سے چلایا تھا کہ محض پہلے سات سالوں میں ہی اللہ نے نو بچوں سے نوازا جن میں سے دو مرتبہ جڑواں ہوئے۔ اس پر بھی خاندان بھر میں اتراتی پھرتی۔ کہتی ہم سا ہو تو سامنے آئے۔ یہ اور بات کہ اب ایک کی سائیکل کے پہیے کی طرح سپوکیں ٹوٹ چکی تھیں اور دوسرا پہیہ ٹریکٹر کے پرانے ٹائر کی طرح یوں گھومتا کہ ایک گول چکر لگانے میں دائیں بائیں دو مرتبہ ڈولتا۔ کبھی کبھی دکھی ہو جاتی کہ درجن پورے نہ کر سکی کہ نویں پیدائش پر ڈاکٹر نے کہ دیا تھا کہ یہ اس ٹیوب کا آخری پنکچر ہے۔ اور نئی ٹیوب ملنے سے رہی۔

وہ محفل میں ادب آداب کا بہت خیال رکھتی مگر دوسروں کے۔ مجال کہ کوئی ایسی ویسی بات کر جائے۔ اس کے خاموش ہونے پر۔ سہیلی سے کہتی مجھ سے بہتر بھلا مرد کو کون سمجھ سکتا ہے اسی وجہ سے سہیلی اپنے مرد سے کئی مرتبہ ایسی لڑی کہ بات علیحدگی تک جا پہنچی۔ پھر اسی نے جا کر صلح صفائی کروائی۔ صلح تو ہو گئی لیکن دل کی صفائی نہ ہو سکی۔ کہتی مرد کو ہمیشہ عورت کی نظر سے دیکھنے والی اکثر دھوکہ کھاتی ہے اس لیے کبھی کبھار مرد کو مرد ہی کی نظر سے دیکھو معصوم سے معصوم بھی کمینہ ہی دکھائی دے گا۔ اور ایسے مردوں کو تو ہر وہ عورت اخلاق سے گری ہوئی دکھائی دیتی ہے جو ان کی بجائے کسی اور سے ہنس بول رہی ہو۔

کھانے پینے کی ازحد شوقین تھی میاں کا کاروبار بھی خوب چلتا سو اس نے بھی کوئی کمی نہ چھوڑی۔ اس کی خوش خوراکی پہلے راحت آمیز تھی مگر جب سے راحت بیکری، تہذیب بیکری میں بدلی کہتی کہ انسان کو تہذیب کے دائرے میں ہی رہنا چاہیے۔ بولنے میں تو شروع سے تیز تھی مگر بنگالی ہمسائیوں سے میل جول بڑھا تو سننے کے انداز بھی بدل گئے اور ز کو ج سننے لگتی۔ ایسے میں جب ڈاکٹر کے پاس تیز بخار کے دوا دارو کو گئی تو اس نے کہا زبان دکھائیے تو جوبن دکھانے لگی۔ چونکہ ڈاکٹر تھا سو اپنی جگہ قائم رہا مگر دیگر مریض باہر کو بھاگے۔ بس اس دن کے بعد ڈاکٹر نے با امر ضرورت اس کا معائنہ تو بارہا کیا مگر فیس نہ لی اور نہ ہی زبان دیکھی کیوں کہ وہ خود اہل زبان تھا۔

عمر کے ساتھ ساتھ اس کا صرف ظاہر ہی نہیں باطن بھی گڈ مڈ ہو رہا تھا۔ اس کے ڈیل ڈول کی طرح اطوار بھی بدل بدل جاتے۔ خدا ترسی تو خیر شروع سے گھٹی میں شامل تھی۔ جب سڑک کنارے کسی کو بھوکا دیکھا تو جھٹ سے اپنا ادھ کھایا برگر اسے تھما کر دوسرا خرید لیا۔ اسے غریبوں پر بہت ترس آتا کہ وہ زندگی کے تمام تر لطف سے محروم دکھائی دیتے۔ پھر سوچتی کہ شاید لطف محض پیسے والوں کے لیے ہے؟ نہیں۔ اندر سے آواز آتی۔ اس نے بارہا ٹھیلے والوں میں زندگی کی رمق اور آنکھوں میں خوشی کی چمک اس وقت دیکھی تھی جب وہ فروٹ خریدنے کے بعد ان کو دس روپے اضافی دے دیتی۔

آج اس نے اپنے گھر بریانی کی نیاز دی تو نکڑ والے گھر سے کوئی لینے نہ آیا۔ تو خود ہی ٹرے بھر کر وہاں چل دی کہ محلے میں صرف ایک ہی غریب گھر تھا بیوہ درزن کا۔ دروازہ بجایا تو تو ایک نیکر پہنے بچے نے کھولا۔ بریانی بھری ٹرے دیکھ کر گو یا اچھل ہی پڑا۔ اس کے ہاتھوں سے ٹرے اچک کر شور مچاتا اندر کو بھاگا۔ بریانی آ گئی۔ وہ چند منٹ باہر ہی رکی پھر اندر داخل ہو گئی۔ پرانے ٹوٹے فرش پر ایک صاف دھلاکپڑا بچھا ہوا تھا اور پانچوں بچے بریانی پر ٹوٹے پڑے تھے۔ کچن کے باہر پلاسٹک کی پرانی رنگ اڑی ہوئی کرسی پر درزن بیٹھی تھی جس کا اپنا رنگ اسے دیکھ کر مزید اڑ گیا تھا۔ اوے تو نیاز لینے کیوں نہ آئی نہ بچوں کو بھیجا گھر کھانے کو نہیں اور نخرے آسمانوں پر؟ وہ غصے سے چلاتی ہوئی بولی۔ درزن کی آنکھیں نمکین ہو گئیں مگر رنگ پھیکا ہی رہا۔ بس بہن بچوں کو ضبط اور تقیہ سکھا رہی ہوں وہ آنکھیں نیچے کیے آہستگی اور شائستگی سے بولی۔ بچے ان دونوں سے بے خبر چھچھوروں کی طرح مٹھیاں بھر بھر کھاتے رہے ایک کے ہاتھ جو شیور مرغی کی ران لگی تو بے تابی سے اسے بھنبھوڑنے لگا۔ وہ غصے سے باہر نکل آئی۔ عجیب لوگ ہیں۔ ذرا خیال نہیں اپنے بچوں کا ان غریبوں کو۔ وہ بڑبڑاتی ہوئی گھر واپس پہنچی۔

اس کا بڑا بیٹا شوارما ہاتھ میں تھامے موبائیل پر مصروف تھا اس نے ماں کو آنکھ بھر کر نہ دیکھا۔ کافی بریانی بچ گئی۔ مگر مجال جو اس کے بچوں نے چکھی بھی ہو۔ کوئی برگر تو کوئی پیزے کا شوقین تھا۔ وہ سٹپٹائی۔ نیاز تو کھا لیا کرو جاؤ اب مدرسے دے آو۔ وہ چیخی۔ عجیب بچے ہیں میرے ان میں درزن کے بچوں سی بات کہاں۔ وہ سوچتے ہوئے بستر پر گر پڑی۔ جسم دکھ رہا تھا۔ ہڈیاں شاید اب جسم کا بوجھ اٹھاتے اٹھاتے چٹخنے لگیں تھیں۔ اور روح اپنی جگہ بیتاب۔ اسی ادھیڑ بن میں اس کی آنکھ لگ گئی۔

اللہ اکبر کی بلند آواز سے اچانک اس کی آنکھ کھل گئی۔ شاید فجر کی اذان تھی۔ ایک لمحے کو اسے غصہ آیا۔ محلے کی مسجد کا سپیکر ہمیشہ اسے بے وقت تنگ کرتا۔ بھئی جس نے نماز پڑھنی ہو گی وہ تو الارم بھی لگا لے گا سپیکر کی اتنی اونچی آواز کیوں؟ تلملاتے ہوئے سوچتی رہی۔ اذان مکمل ہوئی تو اسے کچھ کچھ سکون کا احساس ہونے لگا۔ شاید یہ اذان کی تاثیر ہے۔ وہ لمحے بھر کو سہم گئی۔ تھوڑی دیر بے حس و حرکت بستر پر پڑی رہی۔ پھر کچھ سوچ کر اٹھی اور غسل خانے میں وضو کرنے لگی۔ باہر نکل کر اس نے دوپٹے سے خود کو اچھی طرح لپیٹا۔ وہ سوچتی رہی کی کس سے خود کو چھپا رہی ہے۔ اللہ سے؟ وہ تو سب دیکھتا ہے۔ شاید بعض عورتیں اس وقت خود کو چھپانا شروع کرتی ہیں جب دکھانے کو کچھ نہیں رہتا؟ اس نے جھرجھری لی اور نکڑ میں جائے نماز کی جانب بڑھ گئی۔ اس پر برسوں سے پڑی گرد جھاڑی۔ اور نیت کر کے قیام کیا۔ نگاہیں عاجزی سے جھک گئیں اور وہ کچھ مزید سمٹ گئی۔ اسے نماز کچھ کچھ بھول رہی تھی مگر وہ پڑھتی ہی گئی۔ رکوع کے بعد سجدے میں گئی تو گویا چودہ طبق ہی روشن ہو گئے۔ سبحان ربی الاعلٰی۔ اس نے ایک بار پڑھا اور سوچ میں ڈوب گئی۔

اس کی آنکھوں کا نمک اس کے رندھے ہوئے حلق میں محسوس ہوا۔ وہ سوچ تھی کہ میں شیطان صفت ہوں؟ کیا مجھے فرشتہ ہونا چاہیے تھا؟ ادھیڑ بن میں تھی کہ بجلی سی کوندی۔ غیب سے آواز آئی تم نہ شیطان اور نہ فرشتہ ہو۔ محض انسان ہو۔ میری پیاری تخلیق انسان۔ اس کی ہچکی بند گئی۔ ضبط ٹوٹا آنسووں کی جھڑی لگی اور مصلیٰ تر ہوتا گیا۔ اور زبان دراز کا سجدہ بھی دراز ہو گیا۔

خرم بٹ
Latest posts by خرم بٹ (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

خرم بٹ

خرم بٹ(سابق سینئر جوائنٹ سیکریٹری نیشنل پریس کلب اسلام آباد)۔ بائیس سال سے فوٹو جرنلسٹ ہیں۔ مزاح نگار۔ کالم نگار۔ بلاگر۔ ون لائنر۔ بٹ گمانیاں کے نام سے طنز ومزاح لکھتے ہیں۔ ان کی غائب دماغی کی وجہ ان کی حاضر دماغی ہے

khurram-butt has 10 posts and counting.See all posts by khurram-butt