تین ولی، تین انسان


پہلے تین ولیوں کا قصہ۔

بچے کی آنکھ سے تب نہ وہ تینوں ولی لگتے تھے بلکہ ان کی زندگی اور ان کے رویوں میں پراسراریت محسوس ہوتی تھی اور نہ ہی یہ تینوں عام انسان لگتے تھے کیونکہ وہ عجیب و غریب حد تک حیران کن تھے۔ وہ ویسے کیوں تھے اور تین انسان ایسے کیوں؟ کبھی سوچتا تو کوئی نکتہ مل جاتا اور پھر بھول جاتا تھا۔ اگرچہ آج بھی میں کسی کی ولایت کی سند کا جواز نہیں ہوں اور کسی کو بس انسان کہہ دینا بھی ایسے ہے جیسے باقی ساری دنیا کے لوگ انسان ہی نہ ہوں۔ مگر پھر بھی مجھے وہ تینوں ولی لگتے تھے اور یہ تینوں انسان۔ وہ تینوں گم اپنی ذات میں یا اس کی ذات میں، تینوں ہی صبرو شکر کے پیکر اور تینوں ہی دوسروں کے لیے وسیلے۔ یہ تینوں بھڑکیلے اور نمائشی، بے چین اور مضطرب، تبدیلی کے خواہاں اور غیر مطمئن۔

چھوٹا قصبہ ویسے بھی مختصر ہوتا ہے۔ تقریباً سب ہی سبھوں کو یا کم از کم جانے جائے والے لوگوں کو ضرور جانتے ہیں۔ میرے بچپن میں وہاں کی آبادی پندرہ بیس ہزار نفوس سے زیادہ نہیں ہوگی اور میرے نزدیک ولی کہلائے جانے والے پہلے شخص کو لامحالہ سبھی جانتے ہوں گے مگر پھر ایسا ہوا کہ لگتا تھا جیسے سب ہی اسے بھول گئے ہوں۔ یہ شخصیت پہلوان جی عبدالغفور تھے۔

ساڑھے چھ فٹ قد، گول چہرہ، سیاہی مائل گندمی رنگت، گٹھا ہوا سر، آنکھوں پہ بالکل ہی گول فریم کی چھوٹے شیشوں والی عینک، سفید تہمد اور سفید کرتا، پاؤں میں موچی کے بنائے ہوئے عام دیہاتی کھسے کا جوڑا۔ اللہ نے پہلوان جی کو بہت دیا تھا۔ بے حد سادہ طبیعت کے درویش منش انسان تھے۔ ان کے کاروبار کا حساب یا تو ملّاں جی رکھتے تھے یا پھر ان کے شریک کار حکیم جی یعنی میرے والد محترم۔

پہلوان جی کے نام کی آج بھی علی پور میں دو مساجد ہیں، جو انہوں نے اپنی دیانتداری کی کمائی سے تعمیر کروائی تھیں۔ پہلوان جی کا گھر اسی حویلی میں تھا جو ملّاں جی کے گھر سے متصل تھی۔ اس کی راہداری سے گزر کر پتلی ٹائل سے چنی، اونچی تین منزلہ دو رویہ عمارتوں کے بیچ ایک تنگ صحن تھا جسے ایک دیوار دوسرے وسیع صحن سے الگ کرتی تھی۔ دیوار میں ایک دروازہ تھا۔

دروازے میں داخل ہوتے ہی بائیں طرف کی ایک منزلہ عمارت کے ایک حصے میں پہلوان جی کا بھتیجا یا بھانجا حبیب بمعہ اپنے بچوں کے رہائش پذیر تھا اور دوسرے حصے میں پہلوان جی کا ایک بیٹا اپنے بیوی بچوں کے ساتھ رہتا تھا۔ پہلوان جی کا بیٹا گونگا تھا۔ دوسرا بیٹا نسبتاً تنگ صحن والی عمارت کے ایک حصے میں اپنے کنبے کے ساتھ رہتا تھا، یہ بیٹا بھی گونگا تھا۔ دونوں کی بیویاں بول سکتی تھیں۔ ان دونوں گونگوں کے نام مجھے نہیں اتے تھے کیونکہ انہیں گونگا ہی کہا جاتا تھا۔ یہ دونوں گونگے بیٹے پہلوان جی کی پہلی بیوی سے تھے۔ تنگ صحن والے مکان کے گونگے کی ایک بیٹی کو ننھی کہتے تھے اور حبیب کی ایک بیٹی کو بولاں یعنی مقبولاں اور متصل گھر میں مقیم گونگے کی بیٹی کا نام تنّاں یعنی خاتون تھا اور یہ تینوں میری ماں سے قرآن اور بہشتی زیور پڑھنے، ہمارے ہاں ایا کرتی تھیں۔

تنّاں تیز، سیانی اور سگھڑ تھی اور باقی دونوں پھسڈی۔ بولاں تو پھر بھی پڑھائی میں میری ماں سے کم مار کھاتی تھی مگر بیچاری ننھی کا سر تو اماں نے دستی پنکھے کی ڈنڈی مار مار کے پلپلا کر دیا تھا۔ بولاں اور تنّاں کے گھروں کے سامنے صحن کے دوسری جانب دو بڑے بڑے کمرے تھے جن کے آگے ستونوں اور سیمنٹ کے فرش والا برآمدہ تھا۔ دونوں کمروں کا فرش بھی شفاف سیمنٹ والا تھا۔ ایک کمرے اور اس کی کوٹھڑیوں میں لحیم شحیم خاتون سونے کے کڑے، کانٹے اور ناک کا بڑے سا لونگ پہنے، چارپائی پر پسر کر بیٹھنے والی پہلوان جی کی بیوی اپنی بیٹی کے ساتھ رہتی تھیں۔ بائیں طرف کے بڑے سے کمرے میں جس کی لوہے کے سریوں والی کھڑکیاں گلی میں کھلتی تھیں اور جو کمرے کے باہر کھلنے والے دروازے سمیت عموماً کھلی رہتی تھیں، میں پہلوان جی ایک بڑے سے پلنگ پر آلتی پالتی مارے بیٹھے ہوتے تھے اور وہیں سو بھی جایا کرتے تھے۔ ویسے تو وہ کام کے سلسلے میں اکثر قصبے سے باہر ہی ہوتے تھے۔

پہلوان جی بنیادی طور پر جنگل کی لکڑی کو ” کپّ ” کے ذریعے کوئلے میں ڈھلوا کر اسے بیچنے کا کاروبار کرتے تھے۔ اس کاروبار میں میرے والد صاحب کے علاوہ پہلوان جی کے دو بھتیجے بھی شریک تھے۔ پہلوان جی کے بھتیجے ایک منڈی میں بیٹھا کرتے تھے جسے پہلوان جی کی منڈی کہا جاتا تھا۔ یہ اس زمانے میں علی پور سب سے بڑا تعمیر شدہ احاطہ تھا۔ اس کے بعد اس منڈی کے نزدیک ہی مگر سڑک کے دوسری جانب اندر کی طرف ”مرزائیوں کی منڈی“ تھی، وہاں کبھی کوئی کاروبار ہوتا نہیں دیکھا۔ ہاں البتہ کبھی کبھار وہاں ”دنگل“ ضرور ہوتے تھے۔ پہلوان جی کی منڈی میں لکڑیاں اور کوئلہ بکتا تھا۔ تیسرے نمبر کی منڈی جتوئی دروازے سے اندر داخل ہو کر بائیں جانب ایک گلی میں ”شیخ یعقوب کی منڈی“ تھی جو بنیادی طور پر سبزی منڈی تھی اور وہاں سبزی اور پھل ہر صبح بولی لگا کر تھوک میں بکا کرتے تھے۔

پہلوان جی کی محنت اور دیانتداری کا ہی صلہ تھا کہ پیسے کی ریل پیل تھی۔ مجھے تو اتنا ہی یاد ہے کہ والدہ کو جب بھی ضرورت پڑتی وہ اندھیرا ہونے کے بعد ہم میں سے کسی کو ساتھ لے کر چلی جاتی تھیں اور ملاں جی کو جتنا کہہ دیتیں وہ دے دیتے تھے۔ عموماً تو کہلوا دیا جاتا تھا اور کوئی نہ کوئی گھر آ کر پیسے دے جاتا تھا۔ پہلوان جی کے دونوں بیٹے بھی منڈی میں بیٹھے رہتے یا کام میں ہاتھ بٹا دیتے تھے۔ ان کی دوسری بیوی جنہیں ہم ماسی کہتے تھے، سے فتح نام کا بیٹا، پہلوان جی کے ساتھ فیلڈ میں ہوتا تھا۔ فتح کے چہرے پر چیچک کے گہرے داغ تھے۔

پہلوان جی نے جہاں دو مسجدیں تعمیر کروائی تھیں وہاں وہ غریبوں، یتیموں اور بیواؤن کی بھی بلا نمائش مدد کیا کرتے تھے۔ پہلوان جی کا نام جس کی بھی زبان پر ہوتا تھا، اس کے ساتھ ” جی ” کا سابقہ ان کی ثروت کی دلیل نہیں بلکہ ان کی تعظیم کی دستار تھا۔ سادہ لوح، منکسرالمزاج اور مدھم بولنے والے پہلوان جی، سنا ہے کسی زمانے میں واقعی پہلوان ہوا کرتے تھے۔ ایک بار کسی سکھ پہلوان سے ہارنے کے بعد وہ پھر اکھاڑے میں نہیں اترے تھے۔ تسبیح ہمیشہ ان کے ہاتھ میں ہوتی تھی جس کے دانوں پر، فارغ وقت میں وہ کچھ نہ کچھ پڑھتے رہتے تھے۔ انہوں نے اپنے بیٹوں کے گونگے پن پر کبھی تردد ظاہر نہیں کیا تھا۔ ہمیشہ ہی اسے رضائے الٰہی جانا۔ ان کے بیاہ اچھی عورتوں کے ساتھ کیے۔ تنّاں کی ماں قریشی تو بہت ہی سگھڑ اور رکھ رکھاؤ والی عورت تھی۔ ننھی کی ماں عام سی گھریلو سادہ عورت تھی۔ پہلوان جی کے گھر، ہنسنے والی ایک ہی ہستی تھی یعنی ان کی بیٹی۔ پہلوان جی کے یہ دونوں بیٹے اگرچہ گونگے تھے مگر تھے گنی۔ غالبا“ ان میں سے ایک درزی کا کام بھی سیکھا ہوا تھا۔ فتح ان پڑھ تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).