ہم ایسے تو نہیں ہیں!



\"php\"جمعرات 24 مارچ کو رات گئے اسکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگو میں ایک انجان شخص نے دوسرے انجان شخص کو چاقو کے پے در پے وار کر کے قتل کر دیا۔ اب ان دونوں کو دنیا 40 سالہ مقتول اسد شاہ اور 32 سالہ قاتل تنویر احمد کے نام سے جانتی ہے۔ اسد شاہ نے مرنے سے چار گھنٹے پہلے فیس بک پر لانگ فرائیڈے کے حوالے سے عیسائیوں کو خیر سگالی کا پیغام دیا تھا۔ اس لئے شروع میں یہ قیاس کیا گیا تھا کہ کسی مذہبی انتہا پسند نے عیسائیوں کے ساتھ دوستی اور محبت کا اظہار کرنے کی وجہ سے اسے قتل کیا تھا۔ لیکن دو ہفتے بعد جمعرات 7 اپریل کو قاتل تنویر احمد نے عدالت میں پیشی کے بعد اپنے وکیل کے ذریعے ایک بیان جاری کیا۔ اس بیان نے پوری دنیا کو حیران کیا ہے اور خاص طور سے مسلمانوں کے لئے سوچنے کے کئی دروازے کھولے ہیں۔ اس بیان میں تنویر احمد نے اعتراف جرم کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس نے ایسٹر کے پیغام کی وجہ سے اسد شاہ کو نہیں مارا بلکہ اس کے عقیدہ کی وجہ سے بہیمانہ طریقے سے اسے قتل کیا تھا۔

تنویر احمد کے بیان میں واضح کیا گیا ہے کہ اسد شاہ احمدی عقیدے سے تعلق رکھتا تھا۔ اس نے توہین رسالت کی تھی۔ وہ پیغمبری کا دعویدار بھی تھا جبکہ میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو نبی آخر الزمان مانتا ہوں۔ اسی لئے میں نے حب رسول میں اسے قتل کیا تھا۔ اس بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ اگر میں اسے نہ مارتا تو کوئی دوسرا اسے ہلاک کر دیتا۔ اس طرح دنیا میں مزید قتل و غارت اور تشدد ہوتا۔ تنویر احمد نے اپنے بیان میں واضح کیا ہے کہ میں نے اسے عیسائیوں کو ایسٹر کی مبارکباد دینے پر قتل نہیں کیا۔ میں اگرچہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ماننے والا ہوں لیکن حضرت عیسیٰ سے بھی محبت کرتا ہوں۔ میں نے اسے پیغمبری کا دعویٰ کرنے کی وجہ سے قتل کیا ہے۔

تنویر احمد کا یہ بیان عدالت میں اعتراف جرم کرتے ہوئے نہیں دیا گیا۔ بلکہ اس نے اپنے وکیل کے ذریعے اس بیان کو جاری کروایا ہے۔ اس کے دو مقصد ہو سکتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ دنیا میں شہرت حاصل کی جائے۔ دوسرے یہ کہ مسلمانوں کو پیغام دیا جائے کہ اس نے اسلام کی سربلندی کے لئے ایک بے گناہ کو قتل کیا ہے لہٰذا اسے مناسب احترام اور عزت دی جائے۔ اس اقدام کے دونوں مقاصد بھی ہو سکتے ہیں۔ وہ کسی حد تک دونوں مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب بھی ہوا۔ دنیا بھر کے اخبارات میں اس خبر کو شائع کیا گیا اور الیکٹرانک و سوشل میڈیا پر اس بیان کی تشہیر ہوئی۔ کیونکہ ایک انسان کو قتل کرنے والا نہایت سفاکی کے ساتھ اپنے جرم کا اعتراف کرتے ہوئے، اسے اپنے لئے باعث شرف و سعادت سمجھ رہا ہے۔ یہ بات دنیا بھر کے لوگوں کو حیران و ششدر کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان کے بعض اردو اخبارات اور سوشل میڈیا میں اس اقبالی بیان کو جس طرح ایک حقیقی مسلمان کے نعرہ حق کے طور پر پیش کیا گیا ہے، اس کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ تنویر احمد مسلمانوں کو متاثر کرنے کے مقصد میں بھی کامیاب ہوا ہے۔ یعنی ممتاز قادری کے بعد ایک نئے غازی نے مسلمانوں کا خون گرمانے کے لئے ایک انسان کا خون بہایا ہے۔

عقیدہ کے نام پر قتل کی روایت قرون وسطیٰ سے ضرور تعلق رکھتی ہے کہ عہد حاضر میں اس طریقہ کو ترک کر دیا گیا ہے۔ درحقیقت رسول پاک حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مدینہ میں جو ریاست قائم کی تھی اور اس کے لئے جو قواعد و ضوابط وضع کئے تھے اس میں معاشرتی اور سماجی مسائل پر انفرادی فیصلے کرنے کا حق واپس لیتے ہوئے قاضی اور عدالت کا نظام متعارف کروایا گیا تھا۔ عدالت ہی اس بات کا تعین کرنے کی مجاز ٹھہری تھی کہ کسی قتل کی صورت میں سزا یا قصاص کا تعین کیسے کیا جائے۔ تاہم انتہا پسندی اور اسلامی احکامات کی من مانی توجیہہ و تشریح کے اس دور میں اب اس طریقہ کو ترک کرنے کی روایت ڈالی گئی ہے جو رسول پاک نے آسمانی وحی اور اللہ کے احکامات کی روشنی میں وضع کیا تھا۔ اسلام کی سربلندی کے نام پر لاقانونیت کا پرچار کرنا، اسی مزاج اور رویہ کا حصہ ہے۔ اس طرز عمل کو طالبان ، القاعدہ اور داعش کے علاوہ متعدد دہشت گرد گروہوں نے اختیار کیا ہے۔ لیکن بات صرف قانون اور نظام کے باغی چند گروہوں تک محدود نہیں رہی ہے بلکہ اب اس افسوسناک رویہ کو عام زندگی گزارنے والے مسلمانوں کے دل و دماغ میں راسخ کیا جا رہا ہے کہ بطور فرد وہ فیصلے کرنے اور اسلام اور رسول کی حرمت کی نام پر سارے اصول مسترد کرنے کے روادار ہو سکتے ہیں۔ تنویر احمد کا عمل اور اس کا بیان اس زہر ناک صورتحال کی عکاسی کرتا ہے۔ اسی لئے مسلمانوں کو باالخصوص اس پر غور کرنے اور خود اپنی اصلاح کرنے کے عمل سے گزرنے کی ضرورت ہے۔

تنویر احمد بریڈ فورڈ کا رہنے والا ہے جہاں وہ ٹیکسی چلا کر اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالتا تھا۔ اسد شاہ بریڈ فورڈ سے ساڑھے تین سو کلو میٹر دور اسکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگو میں رہتا تھا اور ایک چھوٹی سے دکان چلا کر گزر بسر کرتا تھا۔ یہ دونوں زندگی میں کبھی نہیں ملے تھے اور نہ ہی وہ ایک دوسرے کو جانتے تھے۔ اگرچہ مقتول اور قاتل دونوں کا تعلق پاکستان سے ہی تھا۔ اسد شاہ 1988 میں اسکاٹ لینڈ گیا تھا اور اپنے محلے میں سب اس کا نام محبت اور عزت سے لیتے ہیں۔ وہ بے ضرر اور ہمدرد انسان تھا جو لوگوں کے کام آ کر خوشی محسوس کرتا تھا۔ پھر تنویر احمد کو کیسے یہ خیال پیدا ہوا کہ اس سے کئی سو کلو میٹر کے فاصلے پر ایک شخص توہین رسالت کا مرتکب ہو رہا ہے؟ برطانیہ کے اخباروں نے اس کا سراغ لگانے کی کوشش کی ہے۔ اس طرح یہ بات سامنے آئی ہے کہ ”ختم نبوت“ نامی کسی تنظیم نے اپنی ویب سائٹ پر اسد شاہ کو جھوٹا پیغمبر اور گمراہ قرار دیا تھا۔ قتل کے بعد اسی ویب سائٹ پر مسلمانوں کو مبارکباد بھی دی گئی تھی۔ معاملہ چونکہ پولیس اور عدالت کے پاس ہے، اس لئے یہ کہنا مشکل ہے کہ تنویر احمد کیوں کر اس تنظیم سے متاثر ہوا اور وہ کون سے لوگ تھے جنہوں نے اسے قتل کرنے کے اقدام پر آمادہ کیا۔ پولیس اور عدالت یہ سراغ لگانے کی کوشش کرتے رہیں گے۔ لیکن عام مسلمانوں کے لئے اور خاص طور سے پاکستانی مسلمانوں کے لئے یہ لمحہ فکریہ ضرور ہے کہ کس طرح بعض مذہبی عناصر محبت، تفہیم، عبادت، رضائے الٰہی کے لئے ہمدردی اور وسیع المشربی اختیار کرنے کی بجائے مار دھاڑ اور قتل و غارتگری کی تبلیغ کر رہے ہیں۔

اس کا مظاہرہ حال ہی میں سلمان تاثیر کے قاتل ممتاز قادری کو سزائے موت کے بعد رونما ہونے والے واقعات سے بھی ہوا ہے۔ ان علمائے دین نے جو ہمیشہ تشدد اور دہشت گردی کی مذمت میں پیش پیش رہتے تھے، قادری کے معاملہ کو لے کر نفرت، لاقانونیت اور ریاست سے بغاوت کے پیغام کو عام کرنے کی کوشش کی۔ گو کہ یہ سارے کام اسلام اور رسول کی عظمت کے نام پر کئے گئے لیکن ساری دنیا جانتی ہے کہ ان حرکتوں سے سب سے زیادہ نقصان اسلام کی شہرت اور مسلمانوں کی نیک نامی کو پہنچا ہے۔ دنیا کے وہ سارے اسلام دشمن جو کسی بھی ایسے موقع کی تلاش میں رہتے ہیں کہ انہیں کوئی مثال ہاتھ آئے اور وہ اسے بنیاد بنا کر یہ ثابت کریں کہ اسلام ایک خونی مذہب ہے جس کے ہاں انسانی جان اور قانون کا احترام کرنے کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے، ایسی خبروں سے خوش ہوتے ہیں۔ اب اسد شاہ کے قتل نے اس سوچ کو راسخ کیا ہے اور دنیا کے سنجیدہ اور متوازن لوگوں کو بھی یہ غور کرنے پر مجبور کر دیا ہے کہ اسلامی تعلیمات میں ایسی کون سی بات ہے جو مسلمانوں کو خونخوار اور وحشی بنا دیتی ہے۔

دہشت گردی کی بحث میں مسلمانوں کی طرف سے عام طور سے یہ دلیل دی جاتی ہے کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔ لیکن ان کا عمل اس کے متضاد تصویر پیش کرتا ہے۔ اسی لئے یورپ اور امریکہ کے مسلمان دشمن گروہوں نے یہ نعرہ ایجاد کیا ہے کہ دہشت گردی سے اسلام کا کوئی تعلق نہیں لیکن ہر دہشت گرد مسلمان ہوتا ہے۔ بدنصیبی کی بات یہ ہے کہ  اپنے کردار اور طرز عمل سے  اس قسم کی دلیل کو غلط ثابت کرنے کی بجائے ہم ممتاز قادری اور تنویر احمد کی صورت میں عام مسلمانوں کی مسخ شدہ تصویر پیش کرتے ہیں۔ اور دنیا اب اسلام اور مسلمانوں کی پہچان کے لئے ان مثالوں کو ہی پیش نظر رکھتی ہے۔ لیکن ایک احمدی کے قتل پر بغلیں بجانے اور مبادکبادیں دینے والے مسلمانوں کو کیا یہ خبر ہے کہ اس طرح وہ اسلام کی ایسی شکل پیش کرتے ہیں جو صرف آج کی غیر مسلم قوموں کے لئے ہی ناقابل قبول نہیں ہے بلکہ خود رحمت العالمین حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پیغام رحمت و سلامتی کے بھی خلاف ہے۔ بلاشبہ رسول پاک خود بھی اس خوں ریزی کو مسترد فرمائیں گے۔

احمدی تحریک یا عقیدہ کا بانی سو برس سے زائد عرصہ پہلے فوت ہو گیا تھا۔ اس ایک صدی میں احمدیوں کی پانچویں یا چھٹی نسل جوان ہو رہی ہے۔ ان لوگوں کا عقیدہ اکتسابی نہیں بلکہ نسبی ہے۔ اس لئے اس عقیدہ کے ماننے والوں کو مرتد قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یوں بھی کوئی مرتد ہو یا اہانت مذہب کا مرتکب ہونے والا بدبخت …. ملک کا قانون یا شریعت اسلامی کسی فرد کو اسے سزا دینے کا حق نہیں دیتی۔ کسی بھی ملک میں کسی بھی عقیدہ اور مذہب کو ماننا اور اس پر عمل کرنا بنیادی انسانی حق کا حصہ ہے۔ پاکستان بلاشبہ مسلمان اکثریت کا ملک ہے لیکن عددی برتری کی بنیاد پر دوسرے عقائد اور مذاہب کے خلاف نفرت پھیلانے، لوگوں کو تشدد پر اکسانے اور غلط بیانی کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ بدنصیبی سے متعدد مسلمان رہنما اس غلطی کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ اسد شاہ کو برطانیہ میں قتل کیا گیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہم اپنے گھروں، مدرسوں، استادوں اور علما سے نفرت اور مسترد کرنے کا جو پیغام سیکھتے ہیں، وہ ہر جگہ ہمارے ساتھ سفر کرتا ہے اور کسی بھی لمحے کسی بھیانک جرم کی صورت میں اس کا اظہار ہو سکتا ہے۔

مذہبی منافرت ایک لحاظ سے مذہب کے نام پر دہشت گردی سے بھی زیادہ خطرناک اور مہلک ہے۔ جو لوگ مذہبی تفہیم کی اس انتہا پر پہنچ جاتے ہیں کہ وہ ہم نفسوں کو مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں تو وہ دہشت گرد گروہوں کی پہچان پاتے ہیں۔ معاشرے انہیں مسترد بھی کرتے ہیں اور ان کا مقابلہ کرنے کے لئے صف آرا بھی ہوتے ہیں۔ لیکن جو نفرت دوسرے عقائد یا مسالک کے خلاف دلوں میں ڈال دی جاتی ہے اس سے پورے سماج کی شکل بگڑتی ہے اور بدامنی ، بداعتمادی ، جھنجلاہٹ اور منتشر الخیالی کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ اسی کیفیت میں بعض لوگ قتل جیسا بھیانک جرم کرتے ہیں اور بعض کو یہ عارضہ نفسیاتی مریض اور بدمزاج سماجی بوجھ بنا دیتا ہے۔ یہ نفرت معاشروں میں آباد کئی نسلوں کو تباہ کرنے کی قوت رکھتی ہے۔ اسی لئے اس کو مسترد کرنے اور اس کے خلاف دیواریں کھڑی کرنے کی ضرورت ہے۔

اسد شاہ کے مرنے پر اس کے محلے میں آباد مسلمانوں اور غیر مسلموں نے یکساں طور سے اس قتل کو مسترد کیا۔ اس موقع پر “ ہم ایسے تو نہیں ہیں “ THIS IS NOT WHO WE ARE # کا نعرہ ایجاد ہوا۔ مسلمانوں کو یہ ثابت کرنے کے لئے کہ تنویر احمد ان کا نمائندہ نہیں ہے آواز بلند کرنا ہو گی۔ یہ آواز صرف اسکاٹ لینڈ سے نہیں بلکہ ہر اس آبادی سے آنی چاہئے جہاں مسلمان آباد ہیں۔ کیونکہ اگر ہم نے اپنی پہچان کا حق، قتل کرنے اور کروانے والوں کے ہاتھ میں دے دیا تو دنیا بھی ہمیں دھتکارے گی اور بارگاہ الٰہی میں بھی ہماری پذیرائی نہ ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2766 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
9 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments