فرسودہ رسموں سے جان چھڑائیے…. کورٹ میرج کیجیے


کہتے ہیں کہ نکاح دو افراد نہیں بلکہ دو خاندانوں کے درمیان بننے والے رشتے کا کا نام ہے۔ اس رشتے کو نسبت طے ہوجانے سے لے کر شادی کے جھمیلوں اور بعد تک، بری طرح بھگتنا پڑتا ہے۔ خاندان کے روٹھے افراد کو منانا تو ایک قدیم روایت بن ہی چکی ہے لیکن پورے خاندان کو ساتھ لے کر چلنے اور دل کے سبھی ارمان پورے کرنے کی چاہت میں بھی لاتعداد سماجی امراض جنم لے رہے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ماں باپ لڑکے لڑکی کو قاضی کے سامنے بٹھا کر ایجاب و قبول کروا لیں اور ان کو زندگی گزارنے کے لیے آزاد چھوڑ دیں، لیکن ”خاندان والے کیا کہیں گے” کے نام پر کیے جانے والے بے تحاشا اخراجات ہمیں نہ صرف بے اطمینانی بلکہ معاشرتی اور معاشی پستی کی جس انتہا تک لے جا چکے ہیں اس کا ہمیں اب تک ادراک ہی نہیں ہو رہا۔

گلی میں تنبو لگا کر کی جانے والی شادیاں ہال سے لان تک، پھر بینکوئٹ اور اب کلبوں تک پہنچ چکی ہیں، مہمانوں کی تواضع کے لیے زردہ اور قورمے سے شکم سیری کا شروع کیا جانے والا رواج اب اتنے کھانوں تک پہنچ چکا ہے جن کے نام یاد ہونا تو کجا گنتی کرنا بھی مشکل ہوجاتا ہے۔ عروسی ملبوسات اب درزی نہیں ڈیزائنر تیار کرتے ہیں، دلہن کو دیے جانے والے زیورات میں خاندانی تماش بین آنکھیں ہیروں کی کوئی انگوٹھی کھوج رہی ہوتی ہیں۔ رسموں کے نام پر روپیہ پانی کی طرح بہایا جاتا ہے۔ شاہانہ انداز اپناتے ہوئے دلہا دلہن کو بگھی میں لانے کی رسم عام ہوتی جارہی ہے۔ افسوس تو یہ ہے کہ یہ ساری عیاشیاں متوسط طبقے میں بھی شروع ہوچکی ہیں۔

اس کے باوجود یہ غیریقینی اپنی جگہ موجود ہے کہ شادی سلامت رہے گی بھی یا شاہ زادیوں کی طرح رخصت ہونے والی کو زندگی کے کسی بھی حصے میں نکال باہر کیا جائے گا۔ یہی سوچ کر تو اب حق مہر زیادہ سے زیادہ باندھا جاتا ہے تاکہ لڑکا نکاح کا بندھن توڑنے سے پہلے ہزار بار اپنی جیب کا جائزہ لے۔ دوسری طرف لڑ کا بھی حق مہر کے معاملے میں اس لیے کوئی حجت نہیں کرتا کہ اس کو کون سا ادا کرنا ہوتا ہے؟ بے دریغ اخراجات کے ذریعے نکاح کو اتنا مشکل بنا دیا گیا ہے کہ اب لڑکے شادی کے نام سے دور بھاگنے لگے ہیں اور لڑکیاں نکاح کی آس کی ڈور چھوڑ کر خود کو دیگر مشاغل یا نوکری کے جھمیلوں میں گم کر لیتی ہیں، جس سے معاشرتی بگاڑ میں اضافے کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں ہو رہا۔

یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ ہم جس سماجی شعور کا دعویٰ کرتے ہیں اس کی تعریف تک سے واقف نہیں ہیں۔ نئے رشتے روپے پیسے کی بنیاد پر استوار کیے جاتے ہیں۔ اس روپے کے حصول کی تگ ودو میں کئی بیٹیوں والا باپ تو اپنے نصیب کو کوستا ہوا کسی مرض کا شکار ہوکر بستر سے لگ جاتا ہے، رسمیں اور دنیا داری نبھاتے نبھاتے بھائیوں کی گردن قرض میں جکڑ جاتی ہے، شادی ہال کی آخری بتی گُل ہوجانے تک گھر والے الگ بولائے بولائے گھوم رہے ہوتے ہیں، اپنی ساری جان اور سرمایہ شادی میں لگانے کے بعد بھی خاندان کی عورتیں کوئی نہ کوئی کمی تلاش کرکے ایک دوسرے کو کہنیاں مارتی ہی رہ جاتی ہیں۔ پھر شادی کے ہنگاموں کے بعد، دعوتوں کے نام پر گھر والوں کی جان کئی مہینوں تک امان میں نہیں آتی۔ شادی کی حقیقی خوشی کیا ہوتی ہے؟ یہ یا تو دلہن دولہا جانتے ہیں یا پھر شرکت کرنے والے۔ گھر والے اس خوشی سے یکسر محروم ہوتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2