دوزخ میں اسٹیفن ہاکنگ کی پہلی ملاقات


پروفیسر ہاکنگ نے آخری سانس لیا۔ آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں اور روح جسم سے پرواز کر گئی۔ انہیں خود کچھ خاص حیرانی نہ ہوئی۔ ان کی یادداشت بحال تھی لیکن اردگرد کا سب کچھ مانوس ہونے کے باوجود نیا نیا سا محسوس ہو رہا تھا۔ ایک لمحہ کےلیے انہیں لگا کہ شاید ان کا کوئی پیچیدہ آپریشن کیا گیا ہے اورطویل عرصہ بے ہوش رہنے کے بعد وہ اب جاگے ہیں۔ جسم ٹھیک ہو چکا تھا اور کمرے میں ٹہلتے ہوئے وہ ایک ہاتھ سے اپنا گال یوں ہلاتے رہے کہ جیسا دیکھنا چاہتے ہوں کہ کہیں داڑھی تو نہیں بڑھ آئی۔ لیکن انہیں اپنا وزن بالکل محسوس نہیں ہو رہا تھا۔ اسے وہ آپریشن کی کوئی پیچیدگی سمجھ رہے تھے۔

انہیں یاد تھا کہ معذوری کے دور میں ایک دفعہ وہ ایسی تجربہ گاہ میں لائے گئے تھے جہاں کشش ثقل کا اثر نہیں تھا۔ وہ ایسے پہلے معذور انسان بن گئے تھے جسے بے وزنی کا تجربہ ہوا تھا۔ سامنے وہیل چئیر پر ان کا ہوبہو مشابہ بٹھایا گیا تھا۔ شایدان کی صحت یابی کی خوشی میں یہ خصوصی شبیہ ان کے پرستاروں کی طرف سے بنوائی گئی ہو تاکہ بیماری کے خلاف ان کی تاریخی مزاحمت کی یادگار رہے۔ دیکھنے میں یہ بالکل انسان لگتی تھی۔ ہاکنگ ابھی اس کی طرف جانا چاہتے تھے کہ یکایک ان کی آنکھوں کے گرد اندھیرا چھا گیا اور ذہن ماؤف ہوگیا۔

ہوش آیا تو دیکھا کہ قیدی ڈھونے والی ایک بڑی گاڑی میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ کسی عجیب سے رنگ کا لباس پہنا دیا گیا ہے۔ گاڑی مکمل طور پر بھری ہوئی ہے اور اکثر لوگوں کا لباس یہی ہے۔ بعض اور لوگ کسی اور رنگ کے لباس میں ہیں لیکن ان کی تعداد کافی کم ہے۔ ہاتھ ہلانے چاہے تو معلوم ہوا کہ جکڑے ہوئے ہیں۔ کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا آخر ماجرا کیا ہے۔ پاس ہی بیٹھا ایک شخص جس کے لباس کا رنگ مختلف تھا ہاکنگ کی بے چینی دیکھ رہا تھا۔ اس کے گلے میں صلیب لٹک رہی تھی جسے وہ ایک ہاتھ سے مس کیے جارہا تھا۔

ہاکنگ کو ضطرب پا کر اس سے رہا نہ گیا۔ پاس آیا اور کہا کہ پروفیسر ہاکنگ میں جنوبی فرانس کے ایک شہر میں پادری تھا۔ کل شام ہی ایک ٹریفک حادثہ میں میرا انتقال ہو گیا۔ آپ کو اچھی طرح جانتا ہوں اورآپ کی علمی خدمات کا معترف رہا ہوں۔ لیکن ابھی آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ آپ کا انتقال ہو چکا ہے۔ اس چھکڑے کے سب لوگوں فوت شدگان ہیں اور اب ان کی روحیں اپنے آخری مقام کی طرف لے جائی جارہی ہیں۔ ہاکنگ تصویر بنے یہ باتیں سن رہا تھا۔

پادری اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے بولا کہ مجھے افسوس ہے کہ زمین کے انسان آپ کی تحقیق سے ان گنت فائدے اٹھاتے رہیں گے لیکن آپ خود مکمل خسارے میں ہیں۔ آپ کا لباس بتا رہا ہے کہ آپ کو دوزخ میں بھیجا جارہا ہے۔ ہاکنگ نے غور سے دیکھا کہ پادری کا لباس مختلف تھا۔ پادری نے اس بات کو محسوس کر لیا اور فخریہ انداز میں بولا کہ میں تو بہشت میں جا رہا ہوں۔ خدا مجھ سے بہت خوش ہے اور اس نے میری عبادات کو قبول کرلیا ہے۔

ہاکنگ نے یہ سنا تو پہلی بار بولا؛ مہاری عبادات کیا تھیں؟
پادری : میں نے کلام مقدس کے کل حروف کی تعداد گن کر معلوم کی تھی اور ہر ملنے والے کو اس بارے میں عقیدت سے بتایا کرتا تھا۔

ہاکنگ یہ سن کر اس کی طرف دیکھتا رہ گیا۔ پادری کچھ دیر ہاکنگ کو کلام مقدس کے کل حروف کی تعداد کے بارے میں مزید بتاتا رہا۔ جب اس نے دیکھا کہ ہاکنگ کوئی دلچسپی نہیں لے رہا تو وہ رک گیا اور یہ کہتے ہوئے اپنی نشست پر واپس چلا گیا کہ اب کیا فرق پڑتا ہے۔

تھوڑی ہی دیر میں چھکڑے میں اندھیرا چھا گیا اور جب روشنی ہوئی تو ہاکنگ اور دیگر ہم لباس افراد ایک عظیم فصیل کے صدر دروازہ کے پا س کھڑے ہیں۔ فصیل کی اینٹیں لال گرم اور دہک رہی ہیں۔ بھیڑ لگی ہوئی ہے اور ایک ایک شخص کو چھانٹ کر اندر بھیجا جا رہا ہے۔ ذرا ذرا دیر بعد فصیل کی دوسری طرف سے ایک کریہہ چیخ سنائی دیتی ہے۔ کبھی ایسا شور آنے لگتا ہے کہ جیسے پہاڑ ایک دوسرے پر گر رہے ہیں۔ کھلے ہوئے دروازے سے اندر کا کچھ منظر دکھائی دیتا ہے۔ دور اک جنگل سا ہے جہاں شاید ابھی شدید طوفان کے ساتھ آگ پھیل گئی ہے۔

ان گنت لوگ جلتے درختوں کے اندر سے گزر کر باہر نکلنا چاہتے ہیں لیکن کامیاب نہیں ہو پاتے۔ اس نے دیکھا کہ مسلسل جلنے کے باوجود بھی کوئی درخت یا انسان گر کر ختم نہیں ہورہا بلکہ اپنی جگہ پر قائم عذاب جھیل رہا ہے۔ دوزخ میں ایسا ہی ہوتا تھا۔ باہر کے لوگ دھڑا دھڑ اندر بھیجے جا رہے تھے لیکن بھیڑ ایسی تھی کہ ابھی ہاکنگ دور ہی تھا۔ ابھی یہ سب جاری تھا کہ دوزخ کے اندر سے ایک کمزور لیکن طویل قامت شخص پاجامہ کرتہ اور آتشیں واسکٹ پہنے دروازہ پر نمودار ہوا۔

اس کے لمبے بال الجھے ہوئے تھے اور ذرا سی دیر بعد وہ انہیں کھجانے لگتا سر میں ہاتھ پھیرتا تو کچھ کوشش کے بعد ایک مکوڑا سا پکڑ کر باہر گرا دیتا۔ مکوڑا نیچے گرتے ہی شعلہ بن کر بجھ جاتا۔ وہ کسی بات پر دربان سے تکرار کر رہا تھا جو بڑھتی ہی جارہی تھی۔ اس کی آواز بھی بلند ہوتی جارہی تھی اور اب ہاکنگ کو کچھ سنائی دینے لگا تھا ؛

”جانی میں بھاگ کر کہاں جاؤں گا اور اس سے بھی اہم کہ کیوں جاؤں گا۔ اگرچہ دوزخ کی جوؤں نے غضب تکلیف میں ڈال رکھا ہے لیکن ان کو نکالتے ہوئے وقت اچھا گزر جاتا ہے۔ یہاں آکر کلام میں بھی گویا آتشی تاثیر پیدا ہو گئی ہے۔ کل ہی علیم بتا رہا تھا کہ میری ایک طویل نظم اس نے چھال پر لکھ لی تھی۔ گذشتہ ہفتے جو تیزاب کی بارش ہوئی اس میں کچھ چھال خراب ہو گئی اور بعض بند ضائع ہو گئے۔ لیکن ضائع بھی کیا ہوئے۔ علیم کہتا ہے کہ کھال پر جہاں جہاں قطرے پڑے وہاں سنپولیے بن گئے اور رینگنے لگے۔ وہ سنپولیے اس نے اپنی کندھے پر بٹھا لیے جو اب بڑے ہو رہے ہیں۔ بدبخت کہتا ہے کہ تیری شاعری خون پی کر پھلتی پھولتی ہے۔ اس جھوٹ کا کیا جواب ہو۔ میں نے کہا کہ تو اپنے عذاب کا خانہ میرے شاعری سے پر کر لیا کر۔

مجھے اطلاع ہوئی ہے کہ یہاں ایک نووارد میرا مہمان ہے۔ میں اس کے خیر مقدم اور چند باتیں کہنے آیا ہوں۔ مجھے باہر نہیں جانے دیتے تو اس کو اندر بلا لو۔ قطار کا خیال مت کرو۔ اس چکر میں پڑو گے تو میرا مشاعرہ رہ جائے گا۔ سادات یوپی کی انجمن جوانانِ یزداں شکار کا سالانہ مشاعرہ ہے۔ جانی کچھ خیال کرو آخر میں سید جون ایلیا ہوں۔ ’
دربان نے یہ گفتگو سنی تو رجسٹر جون ایلیا کے سامنے بڑھا دیا اور کہا کہ اپنے مہمان کا نام ڈھونڈو۔ کچھ ہی دیر بعد جون نے رجسٹر اندراج واپس کیا۔ دفعتاً دربان نے آواز لگائی؛
‘پروفیسر اسٹیفن ہاکنگ حاضر ہو۔ “

یہ آواز سنتے ہی ہاکنگ دروزے کی طرف کھنچتا چلا گیا اور پاس پہنچ گیا۔ دربان نے اس کا ہاتھ کھینچا اور انگوٹھا پکڑ کر گرم لوہے کے ایک ٹکڑے پر دبا دیا۔ ہاکنگ کی چیخ بلند ہوئی لیکن ہل نہ سکا۔ پھر دربان نے ہاکنگ کا انگوٹھا رجسٹر پر اس کے نام کے سامنے دبایا۔ وہاں سے صفحہ اس انداز سے جل گیا کہ ہاکنگ کی تصویر بن گئی۔

اتنا ہوچکا تو جون بولے ؛ چلو جانی۔ اب اندر چلیں۔ یہاں سے آگے دوزخ کا علاقہ ہے جو چند کوس تک پھیلا ہے۔ اس کے بعد بھی دوزخ تو جاری رہے گی لیکن تم کو بھی یقین آچکا ہو گا۔ تشریف لائیے۔

جون ایلیا ہاکنگ کا ہاتھ پکڑے دوزخ میں داخل ہوئے۔ ایک چٹیل سا میدان پھیلا ہوا تھا۔ وہ جنگل اب کہیں نظر نہیں آرہا تھا۔ شاید دوزخ کا ماحول اور جغرافیہ بدلتا رہتا تھا۔ ذرا دور وہ تانگہ کھڑا تھا جس پر جون ایلیا آئے تھے۔ وہ دونوں تانگہ میں بیٹھے اور چل پڑے۔ جون نے ہاکنگ کو بتایا کہ ہر دوزخی جب پہلی بار داخل ہوتا ہے تو اسے تانگہ دیا جاتا ہے تاکہ وہ جس قدر علاقہ دیکھنا چاہے دیکھ لے۔ اس دوران اس کو عذاب نہیں دیا جاتا تاکہ وہ سارا منظر سکون سے دیکھ سکے اور محسوس کر سکے کہ وہ کہاں آگیا ہے۔ گھوڑے کی جلتی کھال میں کسی پرانے دوزخی کو قید کر کے اس کو جوت دیا جاتا ہے جو تانگہ کھینچتا ہے۔

اس کا ایک فائدہ یہ ہے کہ گائیڈ کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ یہ اب تمہارے تانگے میں جا رہے ہیں کیونکہ تم نئے آئے ہو۔ البتہ آتے ہوئے میں نے جو تانگہ لیا وہ اپنے ایک شاگرد کے حصے کا ہے جو ابھی زمین پر زندہ ہے لیکن اسے بھی یہیں آنا ہے۔ تمہاری موت کا علم کچھ دن قبل ہو چکا تھا اور میں اسی دن سے تمہارے استقبال کا انتظام کر رہا تھا۔ یہ تانگہ لیا تاکہ دروازے تک آسکوں۔ آج کل بہت کمزوری ہے۔ بالکل چلا نہیں جاتا۔ شاگرد کو کل خواب میں بتادیا ہے کہ تمہارا تانگہ میں لے چکا ہوں۔ آؤ تو بس پوچھتے پچھاتے ہی آجائیو۔

ہاکنگ کو اب تک سمجھ نہیں آرہی تھی یہ سب کیا چکر ہے۔ جون ایلیا نامی اس شخص کو وہ اب تک صرف اتنا جان سکا تھا کہ یہ دوزخی ہے۔ لیکن شاید دوزخ اس کے لیے آخری مسئلہ نہ تھا۔ کچھ تو تھا کہ وہ اسے لینے دروازے تک آیا تھا۔
اتنی دیر میں جون گھوڑے کے قریب ہو کر بولا؛
ارے میاں ببو ؛ یہ جو خونی دریا سے ذرا پہلے وراق کا زہریلا باغ ہے وہاں کچھ دیر رکیو۔ کچھ ضروری بات ہے۔

یہ سنتے ہی گھوڑے سے آواز آئی۔ اچھا استاد۔ ہاکنگ حیران ہوا جو جون نے بتایا کہ گھوڑے کی شکل میں یہ ایک دوزخی ہے۔ کراچی کا نوجوان تھا۔ زمین پر ان کی صحبت میں ملحد ہوگیا اور اب دوزخ میں ضروری کام کردیا کرتا ہے۔ آج اس کو ساتھ اس لیے لایا کہ کوئی اور آتا تو ہماری باتیں بھی سن لیتا اور اپنی ہاؤ ہو بھی کرتا رہتا۔ رازداری کا مسئلہ دوزخ میں آکر بھی ختم نہ ہوا۔ اماں امروہہ نے تباہ کردیا خدا کی قسم۔

ابھی کچھ ہفتہ پہلے پاکستان سے ایک ادیب یہاں آیا ہے۔ کم بخت نے آتے ہی خبر پھیلا دی کہ جون ایلیا کو بلاؤ۔ سنا ہے اسٹیفن اسے ہاکنگ خط لکھتا تھا۔ آج سچ جھوٹ ہوجانے دو۔ میاں ہاکنگ تم شاید نہیں جانتے لیکن اردو کے اکثر ادیب یہیں دوزخ میں ہوتے ہیں۔ ادبی جھگڑوں کے عذاب کا وقت الگ سے مقرر ہے۔ میں ان سے اس قدر تنگ ہوں کہ عذاب کے کوٹے میں منعقد ہوئی کسی ادبی نشست میں نہیں جاتا بلکہ کھولتی ہوئی جھیل میں ڈبکیاں لگا لیتا ہوں۔ میاں عجیب مسائل ہیں۔

یوں تو میں تمہیں نہ پوچھتا۔ قسم لے لو جو آج تک کسی انگریز کے استقبال کو گیا ہوں۔ تمہیں لینے اس لیے آگیا کہ جیسے ہی تمہارے یہاں آنے کی خبر عام ہوتی ہر دوسرا اردو دان تمہارے پاس پہنچا ہوتا کہ کیا واقعی تم جون کو خط لکھتے تھے۔ یہ خبر اتنی اہم ہے کہ ممکن ہے علامہ اقبال کے بعض پرستار جنت سے تمہاری ملاقات کو آتے اور باتوں باتوں میں یہ جاننے کی کوشش کرتے۔ زمین پر آج کل علامہ کے بعض مرید میرے دشمن بنے ہوئے ہیں۔ جو مرتا ہے اسکینڈل ساتھ لاتا ہے اور نئی بحث چھڑ جاتی ہے۔ حالانکہ علامہ اب بھی جنت سے مجھے خط لکھتے ہیں۔

اس جہان میں آکر انہوں نے ایک نئی نظم خاص میرے لیے کہی ہے اور عنوان اس کا بھی وہی ہے۔ فلسفہ زدہ سید زادے کے نام۔ خیر چھوڑو ان باتوں کو۔ ابھی کچھ دیر میں ہم باغ پہنچ جائیں گے۔ تمہارے استقبال میں کچھ خاص سامان آنکھ بچا کر منگوایا ہے۔ وہاں بند فوارے کے پاس راکھ کے قالین بچھا کر بیٹھ جائیں گے۔ تم کچھ شعر سن لینا، ہم کچھ سر پیٹ لیں گے۔ اس سے پہلے یہ بات سمجھ لو کہ کوئی شخص تم سے پوچھے کہ کیا تم مجھے ”ٹو جون ود لو“ والے خط لکھتے تھے تو کہنا کہ ہاں لکھتا تھا۔

بلکہ یہ بھی کہہ دینا کہ اگر میں معذور نہ ہوجاتا تو جون کی طرح لمبے بال رکھتا۔ ہم دونوں ایک دوسرے کو اسقدر چاہتے تھے۔ کوئی زیادہ بحث کرے تو میرے ناف پیالے والے اشعار سنا کر بلیک ہولز کا قصہ چھیڑ دینا۔ یار جانی زندگی بس یہی کچھ ہے۔ زندگی کا مسئلہ زمین کی حد سے بھی آگے ہے۔ کیا ہم دونوں پر اس بات پر مسرت نہ رکھیں کہ ہم اس جستجو میں کسی سرحد کے قائل نہ تھے۔ خیر پتہ نہیں میں کیا بکواس کر رہا ہوں۔ اب تم کچھ بولو میاں!

ہاکنگ جو کسی کسی وقت گردوپیش کی طرف دیکھ لیتا تھا اور خاموشی سے سب سن رہا تھا۔ وہ بولا؛
جون! اس بات سے کیا فرق پڑتا ہے کہ میں نے تمہیں خط لکھے یا نہیں۔ میں جانتا ہوں تمہیں بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کیا تم سے پیار کرنے کے لیے یہ بات کافی نہیں کہ تم مجھے لینے آئے ہو۔ اب میں کچھ دن یہاں تمہارے ساتھ شعر و ادب میں گزاروں گا اور ساتھ ساتھ تمہیں علم کونیات سکھاؤں گا۔ مجھے یقین ہے کہ ان کی سچائی ایک ہے۔
Mar 15, 2018 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).