پھولوں جیسے بچے


بچے کبھی گورے چٹے کہیں سانولے سلونے، صحت مند یا کمزور ہوتے ہیں۔ نسل کے اعتبارسے کہیں کھڑی ناک والے ایرانی یا پھیسنی سی ناک لئے جاپانی ہوتے ہیں۔ بچہ جہاں کہیں بھی ہوں پیارا ہوتا ہے۔ ان میں ایک قدر مشترکہ ہوتی ہے۔ وہ ہے معصومیت، بڑا بھی اگر سیدھا سادہ ہو تو کہا جاتا ہے یہ تو بلکل بچہ ہی ہے بچے اپنے ماں باپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہوتے ہیں۔ بچے بہت ذہین ہوتے ہیں جب بڑے اپنے کام کاج میں گفتگو میں مصروف ہوتے ہیں تو بچے بظاہر اپنے کھیل کھلونے میں مصروف ہوتے ہیں اصل میں بڑوں کی باتیں غور سے سن رہے ہوتے ہیں۔ کافی سال پہلے کی بات ہے کہ میں نے اخبار میں پڑھا اور سائیڈ پہ رکھتے ہوئے بہن سے کہا کل سے دن چھوٹے ہونا شروع ہوجائیں گے دوسرے دن جب میں نے لسی پی کر دوپہر کی گھیری نیند سورہی تھی تو چھوٹے سے بھانجے نے آکے جگایا کہنے لگا آپ نے کل کہا تھا کہ کل سے دن چھوٹے ہونا شروع ہوجائیں گے پر کتنی دیر سے باہر کھڑا ہوں ابھی تک دن ہی چل رہا ہے۔ پہلے تو نیند سے جگانے پر بہت چڑی تھی پر پھر بے اختیار ہنسی آگئی تھی۔

یہ بھی کافی سال پہلے کی بات ہے کہ ہم لوگ ٹیوی پہ خبریں دیکھ رہے تھے جس میں بتایا جارہا ہے تھا کہ وزیراعظم نوازشریف کچے کی زمین ہاریوں میں بانٹنے جارہے ہیں۔ یہ سن کر تو گڑیا سی میری بھتیجی کہنے لگی وزیر اعظم نوازشریف ہاریوں کو کچی زمین کیوں دے رہے ہیں پکی کیوں نہیں دیتے شاید اس کے دماغ میں کچی پکی روٹی یا پھل آگئے تھے۔ ایک اور بچے کا واقع یاد آگیا جو مدرسے کے مولوی کی روز مارکھاتا تھا ایک دفعہ چھٹی ہونے لگی تو اس نے خود مولوی صاحب کویاد دلایا کہ آج آپ نے مجھے مارا نہیں ہے۔ ایسی باتوں سے ہی بچوں کی معصومیت جھلکی پڑتی ہے۔ کسی گھر میں بچہ ذرا سا بھی بیمار ہو تو پورا خاندان پریشان ہوجاتا ہے اور نفسیاتی دباؤ کا شکار ہوجاتا ہے۔ بچے زندگی میں رنگ کی طرح ہوتے ہیں اسے رنگین بناتے ہیں خدانخواستہ کوئی بچہ موت کے خونی پنجے کا شکار ہوجائے تو زندگی زہر بن جاتی ہے بچہ کتنا ہی چھوٹا ہو گھر والے اس سے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔

بچے چاہیں درجن بھر ہوں پر ہر ایک کی اپنی جگہ ہوتی ہے۔ کسی اور بچے کو اس جگہ نہیں رکھا جاسکتا ایک ایسا ہی حادثہ میرے خاندان سے بھی ہوگزرا ہے۔ میرا بھتیجا جانی جو صرف تین سال کا ہی تھا کہ روڈ حادثے کا شکار ہوگیا۔ یوں لگتا تھا کہ گھر میں قیامت آگئی ہے۔ اور گھر والوں کی تو چھوڑیں تین دھائیاں گزرنے کے باوجود بھی دنیا میں کہیں بھی چلی جاؤں جانی میرے دل دماغ میں ٹھپہ کی طرح لگا ہوتا ہے۔ وہ اپنے باپ کی کار کی چابی اٹھاکے نخرے سے گا تاتھا۔ سن سجناں سن میری چابی کی چھن اس کی معصوم ادائیں اور میٹھے بول میرا پیچھا کرتے ہیں۔ کچھ آوازوں کے سائے میری کھوج میں ہی ان سے بھاگ کے جاؤ ں کہاں اپنا آپ چھپاؤں کہاں۔ تھر کے بچوں کے موت کا سلسلہ کچھ عرصہ رک کے پھر وہیں سے شروع ہوجاتا ہے۔ جہاں سے ٹوٹاتھا۔ سینکڑوں ہزاروں بچے مکھیوں کی طرح مرنا شروع ہوجاتے ہیں۔ یہ سلسلہ تو رکنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ بچوں کے اموات کی شرح بہت زیادہ ہے وبائی بیماریاں گندہ پانی اور کمزور ماں اس کے علاوہ ہسپتالوں میں سہولتوں کی کمی ڈاکٹروں ادویات کا موجود نہ ہونا۔ یہ سب دیکھ سن کر ہم کسی کام میں معاشرے میں بے حسی عام ہوچکی ہے۔ اب تو تھر امیر ہونے جارہا ہے خدا تھری ماں باپ کی قسمت ہی بدلے اس لئے کہ باقی لوگ تو اس درد کو محسوس ہی نہیں کرتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).