قائد اعظم کو سنسر کرنے کی کوشش کیسے ناکام ہوئی؟


\"jinnah-2.jpg-ns\"یہ حقیقت تاریخ کا حصہ ہے کہ قائد اعظم کے قریبی ساتھیوں نے ان کی اس تقریر کو سنسر کرنے کوشش کی تھی جو انہوں نے 11اگست 1947ءکو پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میں کی تھی۔ معروف صحافی ضمیر نیازی نے اپنی کتاب ’صحافت پابند سلاسل‘ میں تفصیل سے بیان کیا ہے کہ کس طرح پاکستان کے کچھ اعلیٰ سرکاری اہل کاروں اور سیاسی عہدیداروں نے اخبارات میں فون کر کے قائد اعظم کی اس تقریر کی اشاعت رکوانے کی کوشش کی۔ سربراہ مملکت اور ملک کے بانی کے افکار اور اختیارات پر نقب زنی کی یہ کوشش اس قدر شرمناک اور دور رس نتائج کی حامل تھی کہ اس موقع پر ضمیر نیازی کی مذکورہ تحقیق سے قدرے طویل اقتباسات دینے میں کوئی حرج نہیں تا کہ اس سازش کے تانے بانے ممکنہ حد تک واضح ہو سکیں۔

’یہ تاریخی تقریر کر کے جناح گورنمنٹ ہاﺅس روانہ ہو گئے ، لیکن جلد ہی کچھ خفیہ ہاتھ حرکت میں آگئے اور انہوں نے جناح کی تقریر کے مندرجہ بالا حصے میں تحریف کی کوششیں شروع کر دیں۔ حامد جلال کے مطابق، ”قائد کی یہ تقریر اس سرگرمی کا ہدف بن گئی جسے پاکستان میں پریس ایڈوائس کے اس سلسلے کی پہلی کڑی کہا جا سکتا ہے جو پاکستان کی دائمی انتظامیہ کی جانب سے جاری کی جاتی رہی ہیں…. بہر کیف ، اُس وقت تک یہ انتظامیہ محض ایک پرچھائیں کی حیثیت رکھتی تھی۔ اس کے کئی سرکردہ ارکان نے تقریر کے بعض حصوں کو اخباروں میں شائع ہونے سے روکنے کی کوشش کی۔ اس کام میں انہیں متعلقہ اختیار رکھنے والے افراد کی مدد حاصل تھی۔ تاہم ان سب کی بد قسمتی سے ان کی یہ کوشش الطاف حسین ، ایڈیٹر ’ڈان‘ کے علم میں آگئی …. انہوں (الطاف) نے دھمکی دی کہ اگر اس پریس ایڈوائس کو واپس نہ لیا گیا تو وہ قائد کے پاس چلے جائیں گے۔ آخر کار الطاف حسین کامیاب ہوئے اور قائد کی تقریر مجوزہ تحریف کے بغیر اخباروں میں شائع ہوئی۔ اس بات کا انکشاف الطاف حسین نے اسمبلی کی پریس گیلری میں اخبار نویسوں کے ایک گروپ کے سامنے کیا تھا۔ اس گروپ میں سے ’سول اینڈ ملٹری گزٹ‘ کے منظور الحق اور ’ڈان‘ کے محمد عاشر اب زندہ نہیں ہیں۔ لیکن ضمیر صدیقی ابھی حیات ہیں اور انہوں نے تصدیق کی ہے کہ ایسا ہی ہوا تھا“۔ (ہفت روزہ ویو پوائنٹ ، 22 جنوری 1981ئ)

حامد جلال کا مضمون پڑھنے کے بعد موجودہ کتاب کے منصف (ضمیر نیازی) نے اس معاملے کی مزید تحقیق کی۔ ضمیر صدیقی نے مندرجہ ذیل تحریری بیان دیا:

\"54c9e332bc72a\"”قائد کی اس دن (11اگست) کی مشہور تقریر انتظامیہ کے بعض اعلیٰ عہدے داروں کو پسند نہ آئی۔ انہوں نے چاہا کہ تقریر کا ایک حصہ اخباروں میں شائع نہ ہو ، کیونکہ ان کے خیال میں اس سے دو قومی نظریے کی نفی ہوتی تھی جو پاکستان کے قیام کی بنیاد تھا۔ تاہم الطاف حسین مرحوم نے ان سے اتفاق نہیں کیا اور اصرار کیا کہ تقریر کو کسی تحریف کے بغیر جوں کا توں شائع ہونا چاہیے۔ انہوں نے دھمکی دی کہ وہ قائد سے جا کر استفسار کریں گے کہ اس حصے کو چھپنا چاہیے یا نہیں۔ اس طرح تقریر کو اصل صورت میں اخباروں کے حوالے کیا جا سکا۔ “
ایم اے زبیری نے، جو اس وقت الطاف حسین کے قریبی ساتھی اور ”ڈان“ کے اسسٹنٹ ایڈیٹر تھے ، مصنف (ضمیر نیازی) کے نام اپنے خط میں اس واقعے کو اس طرح بیان کیا، ”اسی روز (11 اگست) شام کے وقت ایک فون آیا اور ہدایت کی گئی کہ تقریر کا ایک مخصوص حصہ شائع نہ کیا جائے۔ ایف ای براﺅن، محمد عاشر اور میں اس وقت دفتر میں موجود تھے۔ تقریر کا متن الطاف حسین کے سامنے رکھا تھا جس کی طرف براﺅن نے ان کی توجہ مبذول کرائی۔ الطاف حسین یہ جاننا چاہتے تھے کہ کون شخص یہ عبارت حذف کرانا چاہتا ہے۔ کیا یہ قائد کی ہدایات ہیں یا یہ خیال کسی اور شخص کے ذہن کی پیداوار ہے۔ اطلاع کے مطابق فون پر یہ ہدایت مجید ملک نے پہنچائی تھی جو اس وقت پرنسپل پی آر او تھے۔

جب ہم نے پریس انفارمیشن ڈپارٹمنٹ سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی تو صرف ایف ڈی ڈگلس سے بات ہو سکی جو آئیں بائیں شائیں کر کے رہ گئے۔ الطاف حسین نے ان سے کہا کہ اگر انہیں یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ عبارت کس کی ہدایات پر حذف کی جانا ہے تو وہ سیدھے قائد کے پاس چلے جائیں گے۔ اس پر مجھے مجید ملک کو تلاش کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ آخر کار میں نے انہیں ڈھونڈ نکالا اور الطاف حسین کا پیغام پہنچایا۔ ملک صاحب نے چودھری محمد علی کو فون کیا جو اس وقت کیبنٹ ڈویژن کے سیکرٹری جنرل تھے اور انہیں وہ بات من و عن بتا دی جو میں نے کہی تھی۔ ان سے گفتگو پوری کرنے کے بعد مجید ملک نے مجھ (ایم اے زبیری) سے کہا کہ ’یہ کوئی ایڈوائس نہیں بلکہ صرف ایک رائے ہے۔ قائد کی تقریر کو سنسر کرنے کا کوئی سوال نہیں…. یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا…. ایسا فیصلہ کون شخص کر سکتا ہے؟۔ “ جب میں دفتر واپس آیا اور یہ سب کچھ الطاف حسین کو بتایا تو یقین کیجئے کہ وہ میز پر ہاتھ مار مار کر ہنسنے لگے۔ ‘

\"quaid-e-azam1\"جسٹس منیر اور جسٹس ایم آر کیانی نے 1953ءکے قادیانی مخالف فسادات کی تحقیقات کے دوران اس تقریر کا حوالہ دیا تو انہیں مذہبی پیشواﺅں کے غیظ و غضب کا نشانہ بننا پڑا۔ مارچ 1976ءمیں تیسری سالانہ پاکستان کانفرنس برائے تاریخ و تہذیب منعقدہ لاہور سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس منیر نے کہا تھا کہ ”اس تاریخی تقریر کو دبانے کا رحجان موجود رہا ہے ، اور اس کے سات سال بعد بھی (1953ئ) میرے سامنے اسے کسی شیطانی خیال کا شاخسانہ قرار دیا گیا (بحوالہ امین مغل)۔ سپریم کورٹ میں بیان دیتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا کہ’ یحییٰ خان کے وزیر اطلاعات جنرل شیر علی خاں کی ہدایت پر قائد اعظم کی ا س تقریر کو جلا دینے یا ریکارڈ سے غائب کر دینے کی کوشش کی گئی تھی‘۔

روزنامہ ڈان کے مدیر الطاف حسین کو نئی مملکت کے سیاسی اور سرکاری حلقوں میں بڑا رسوخ حاصل تھا۔ وہ اپنے پیشہ وارانہ پس منظر کی بنا پر اس تقریر کی اہمیت سے بھی واقف تھے اور اس میں کسی تبدیلی کے اندرون ملک اور بیرونی دنیا میں مضمرات بھی سمجھتے تھے۔ انہوں نے دھمکی دی کہ وہ خود قائد اعظم سے بات کر کے اس تقریر کے بارے میں براہ راست احکامات حاصل کریں گے۔ اس پر قائد اعظم کے برخود غلط رفقا کو وقتی طور پر اپنی سازش لپیٹنا پڑی۔ تاہم اس سے یہ امر واضح ہو جاتا ہے کہ پاکستان میں روز اول ہی سے نظریاتی کشمکش کی بنیاد موجود تھی۔ آخر یہ اصحاب ذخیرہ اندوزی ، ملاوٹ اور اقربا پروری کے بارے میں قائد اعظم کے ارشادات کو تو حذف کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔ سامنے کی بات ہے کہ انہیں اس تقریر کے ان حصوں پر اعتراض تھا جہاں قائد اعظم نے پاکستان میں سیکولر ریاستی نظام کے خدوخال واضح کیے تھے۔ اگرچہ پاکستان میں سیکولرازم کے مخالف گروہ کو وقتی طور پر ہزیمت اٹھانا پڑی لیکن اس حلقے نے اپنی کوششیں ترک نہیں کیں۔ یہ گروہ قائد اعظم کی وفات کے بعد 12مارچ 1949ءکو اسی دستور ساز اسمبلی سے قرار داد مقاصد منظور کرانے میں کامیاب ہو گیا۔ قرار داد مقاصد جوہری طور پر قائد اعظم کی 11اگست 1947ءکی پالیسی تقریر سے عین متصادم دستاویز ہے۔ اس تناظر میں یہ جاننا مشکل نہیں کہ روزنامہ ڈان کے مدیر الطاف حسین کی روایت کے مطابق قائد اعظم کی 11اگست کی تقریر کو بعض مسلم لیگی رہنماﺅں نے سنسر کرنے کی کوشش کیوں کی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
16 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments