معذور نابغہ۔ کون؟ سٹیفن ہاکنگ!


فرض کریں آپ کی عمر اکیس برس ہے اور آپ دنیا کی اول درجے کی یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کے طالب علم ہیں۔ ایک دن کلاس میں جاتے ہوئے آپ پاؤں پھسلنے کی وجہ سے گر کر بے ہوش ہو جاتے ہیں۔ جب آپ کو ہوش آتا ہے تو آپ خود کو ایک ہسپتال کے بستر پر پڑا پاتے ہیں اور کمرہ آپ کے دوستوں اور گھر والوں سے بھرا ہوتا ہے۔ سب کی آنکھیں نم اور لب خاموش ہیں۔ کچھ لمحوں بعد ڈاکٹر آپ کے قریب آتاہے اور نہایت افسوس بھرے لہجے میں آپ کو بتاتا ہے کہ آپ ایک نہایت ہی خطرناک مرض میں مبتلا ہیں اور آپ کے پاس زندہ رہنے کے لیے زیادہ سے زیادہ دو سال ہیں۔ آپ یہ سن کر کیسا محسوس کریں گے؟ ہو سکتا ہے آپ خدا سے شکوہ کریں یا رونے لگ جائیں یا پھر ہو سکتے ہیں کہ آپ یہ دعا کریں کہ آپ ابھی مر جائیں تا کہ آپ کو اس احساس کے ساتھ نہ جینا پڑے کی ہر گزرتے دن کے ساتھ موت آپ کے قریب آ رہی ہے۔ آپ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ ۔ یا پھر یہ ہو سکتا ہے کہ آپ بسترِ مرگ سے اٹھیں اور موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہیں ” شکریہ، اب میں اپنی زندگی مکمل جوش سے جیوں گا کیوں کہ وقت کم ہے اور میں نے ابھی بہت سارے کام مکمل کرنے ہیں“۔ اگر آپ یہ کہتے ہیں تو آپ سٹیفن ہاکنگ ہیں۔

سٹیفن ہاکنگ 8 جنوری 1942 کو عظیم سائنسدان گلیلیو گلیلی کے موت کے پورے تین سو سال بعد پیدا ہوا۔ اس دن دنیا میں اور بھی بچے پیدا ہوئے لیکن شاید ہی کسی نے سٹیفن ہاکنگ جتنا نام کمایا ہو۔ ہاکنگ اپنی کتاب ”بلیک ہو ل اور طفل کائناتیں“ 1 میں لکھتا ہے
“ اس دن دنیا میں تقریباً دو لاکھ اور بچے بھی پیدا ہوئے لیکن میرا نہیں خیال کہ کسی اور نے کونیات کو بطور مضمون اپنایا ہو“

بائیس سال کی عمر میں ہاکنگ پر موٹر نیوران بیماری کا حملہ ہوا جس نے اسے بستر تک محدود کر دیا۔ 1974 تک وہ خود اٹھ بیٹھ سکتا تھا۔ لیکن اس کے بعد اس کی طبیعت بگڑتی گئی اور وہ کچھ سال بعد وہیل چیئر تک محدود ہو گیا۔ 1985 میں نمونیہ کی وجہ سے اسے ٹریکیوٹومی کے اپریشن 2 سے گزرنا پڑا جس کے بعد وہ بولنے سے بھی محروم ہو گیا۔ ہاکنگ کی اس مصیبت کا پتا جب کیلی فورنیا کے ایک ماہرِ کمپیوٹر والٹ وُلٹوز کو چلا تو اس نے ہاکنگ کو ایک کمپیوٹر پروگرام بنا کے دیا جس کی مدد سے وہ کمپیوٹر سکرین سے الفاظ کو منتخب کرتا اور پھر ایک سپیچ سینتھیسائزر کی مدد سے بولتا۔ اس کے بعد کیمبرج اڈاپٹو کمیونیکیشن کے ڈیوڈ میزن نے یہ سارا نظام ہاکنگ کی وہیل چیئر میں فٹ کر دیا جس کو وہ اپنی وفات تک استعمال کرتا رہا۔

قریب قریب چار دہائیاں وہیل چیئر پر گزارنے کے بعد بھی ہاکنگ نے اپنی بیماری کو کائنات کے اسراروں سے پردہ اٹھانے کی جستجو کی راہ میں روکاوٹ نہ بننے دیا۔ اس مختصر سے مضمون میں اس کی مکمل سائنسی خدمات کا احاطہ کرنا ایک ناممکن سا کام ہے لیکن ہم اس کا سطحی جائزہ ضرور لیں گے۔

1960 کی دہائی میں سٹیفن ہاکنگ نے راجر پین روز کے ساتھ مل کر واحدانیت تھیورم (Singularity Theorem) پیش کیا۔ آئن سٹائن کی عمومی اضافیت یہ بتاتی ہے کہ کائنات پھیل رہی ہے، یعنی کہکشائیں ایک دوسرے سے دور جا رہی ہیں۔ کہکشائیں اگر اب ایک دوسرے سے دور جا رہی ہیں تو ماضی میں ضرور یہ ایک دوسرے کے قریب قریب رہی ہوں گی اور ایک ایسا وقت بھی ہو گا جب یہ ایک ہی نقطے پر مرکوز ہوں گی۔ یہ نقطہ اب بگ بینگ واحدانیت کہلاتا ہے۔

عمومی نظریہ اجافیت یہ بھی بتاتا ہے کہ جب ستارے اپنا ایندھن ختم کر چکے ہوتے ہیں تو وہ اپنی کی کششِ ثقل کے تحت منہدم ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ ہاکنگ نے پین روز کے ساتھ مل کر یہ ثابت کیا کہ ستارے اس وقت تک انہدام پذیر رہتے ہیں جب تک ایک لامحدود کثافت کے نقطے پر نہ پنچ جائیں۔ اس نقطے پر پہنچ کر ان کی کثافت اتنی پڑھ جاتی ہے کہ وہاں سے روشنی یا مادہ باہر نہیں نکل پاتے۔ یہ خطی جہاں سے روشنی بھی فرار نہیں ہو سکتی بلیک ہول اور اس کی حد افقِ وقیعہ کہلاتی ہے۔

1974 میں ہاکنگ نے ایک مقالہ چھاپا جس میں اس نے ثابت کیا کہ بلیک ہول شعاعیں خارج کرتے ہیں۔ یہ شعاعیں اب ”ہاکنگ شعاعیں“ کے نام سے جانی جاتی ہیں۔ یہاں سے المشہور معلوماتی تناقضہ(Information Paradox) جنم لیتا ہے جو آج تک حل نہیں ہو پایا۔ اگر بلیک ہول شعاعیں خارج کرتے ہیں تو وقت گزرنے کے ساتھ وہ خلا میں تحلیل ہو جائیں گے، اگر ایسا ہو تو اس تمام معلومات کا کیا بنے گا جو بلیک ہول کے اندر موجود تھی؟ کیوں کہ جدید طبیعیات کے ایک اور ستون کوانٹم میکانیات کے مطابق معلومات ضائع نہیں ہوسکتی۔ لیکن افسوس کہ کہ اس تناقضے کے حل سے پہلے اس عظیم سائنسدان کی سانسیں تحلیل ہو گئیں۔

سائنس کو عوام میں مقبول بنانے کا سہرہ بھی ہاکنگ کے سر ہی جاتا ہے۔ 1988 میں چھپنے والی ہاکنگ کی کتاب ”وقت کی مختصر تاریخ“ نے کونیات جیسے مشکل مضمون کو عام فہم زبان میں سمجھایا۔ یہ کسی ریاضیاتی مضمون پر لکھی گئی پہلی کتاب تھی جس کو عوام میں اتنی زیادہ مقبولیت ملی۔ ایک اندازے کے مطابق اس کی ایک کروڑ سے زائد کاپیاں فروخت ہو چکی ہیں اور یہ سنڈے ٹائمز پر چار سال سات مہینے اور ایک ہفتے تک بہترین کتاب کے طور پر براجمان رہی۔

14 مارچ کا دن سائنسی برادری میں پائی ڈے کے نام سے منایا جاتا ہے۔ پائی (Pi) ایک ریاضیاتی عدد ہے جس کی قیمت (تین اہم اعداد تک) 3.14 ہے۔ 139 برس قبل آئن سٹائن بھی اسی دن پیدا ہوا تھا اور ہاکنگ نے بھی اسی دن وفات پائی۔ اپنی اس زندگی میں آدھے سے زیادہ وقت اس نے وہیل چئیر پر گزارہ۔ اس کے باوجود اس نے بے شمار تحقیقی مقالے چھاپے اور ایک درجن سے زیادہ کتابیں لکھیں۔ سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ وہ آئن سٹائن کے بعد ذہین ترین سائنسدان تھا۔

1۔ بلیک ہول اور طفل کائناتیں۔ سٹیفن ہاکنگ (Black holes and Baby Universes)
2۔ میری مختصر تاریخ۔ سٹیفن ہاکنگ(My Brief history)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).