سینیٹ اور سینیٹری


اچھا جی سینیٹ کے انتخابات ہو گئے۔ کچھ دنوں میں فاٹا کے سینیٹرز بھی منتخب ہو جائیں گے۔ اور پھر نومنتخبوں کا ایک گروپ فوٹو بھی ہو گا۔ اس کا کیپشن ابھی سے بتا دیتا ہوں۔

”سینیٹر فلاں فلاں فلاں فلاں فلاں فلاں اور ایک عام آدمی ( دائیں سے بائیں تیسرا ) بھی نمایاں ہے۔ ‘‘
تین باتیں تو فوراً ہی ثابت ہو گئیں۔ اول یہ کہ ”اے کلے تے کنگلے دا کم نئیں‘‘۔

دوم یہ کہ جو الیکشن کمیشن اڑتالیس سیٹوں کے ایک سو بتیس امیدواروں کے لیے پانچ پولنگ اسٹیشنوں میں ہزار سے کم ووٹروں کو کنٹرول کرتے ہوئے لپاڈکی سے آزاد انتخابات نہ کروا سکے اور پولنگ کا وقت عام انتخابات کے روایتی اوقات سے بھی آگے نکل جائے اور پولنگ سے محض چند گھنٹے پہلے انتخابی قوانین میں تبدیلی سے بھی پیشگی آگاہ نہ کیا جاوے۔

اس بے چارگی کی تصویر کمیشن سے یہ توقع کرنا کہ وہ کسی بھی طرح کے عام انتخابات کہ جس میں کروڑوں ووٹ پڑتے ہیں، انھیں جدی پشتی لدے پھندے ڈشکروں، مقامی لگڑبگوں، علاقائی گھڑیالوں، منہ کو خون لگے نودولتیوں، مشکوک بریف کیسؤں، پراسرار چمتکار بازوں اور نیم سیاسی نوسر بازوں کے جبڑوں سے بچاتا ہوا صاف ستھرا نکال لے جائے؟ ایسی توقع دروغ دروغ۔

تیسری بات یہ ثابت ہوئی کہ ہر پارٹی کی بالائی قیادت نری فلمی ہے۔ ایکشن ایک سے ایک، ڈائیلاگ دل گداز، بڑھک ون سوونی، آواز چھت پھاڑ۔ لیکن کوئی اس قابل نہیں جو اپنی اپنی پارٹی میں جمع قسم ہائے اقسام مینڈکوں کو بوقتِ ضرورت پھسلنے کے خوف کے بغیر آنکھیں بند کر کے وقت آنے پر انتخابی ترازو میں تول سکے۔ جب لیڈر ہی اس بادشاہ کی طرح ہو جس نے ایک گاؤں سے گزرتے ہوئے مفت میں نمک مانگ لیا تو پھر اپنے لشکر کو بھی مویشیوں سمیت پورا گاؤں پھاڑ دینے سے کیسے روک پاتا؟

ہاں سب رہنماؤں نے اپنی اپنی پارٹی کے ارکانِ اسمبلی کو آنکھیں دکھائیں، دھمکیاں دیں، ان پر چیخے چلائے، واسطے دیے، اپیلیں کیں، قسمیں کھلوائیں، قرآن بیچ میں لائے، مستقبل کے مراعاتی سبز باغ دکھائے، جن عزیزوں دوستوں کا بس چل سکتا تھا ان سے اخلاقی دباؤ ڈلوایا۔ تب جا کے یہ ریوڑ کہیں قابو میں آیا، تب کہیں جا کے پارٹی قیادت کے لیے تسلی بخش نتائج برآمد ہونے کا یقین ہوا۔

پھر بھی فاٹا والوں پر آخرِشب قانونی کمند ڈالنا پڑ گئی۔ اگر قیادت اسی کو کہتے ہیں، اگر لیڈر کے وقار اور اس کے کہے کی حرمت یہی ہے تو چار حرف ایسی قیادت پر اور چار ضرب چار حرف قدم بڑھاؤ منور ظریف ہم تمہارے ساتھ ہیں کا نعرہ لگانے والوں پر، کرپشن فری پاکستان کا چھابہ لگانے والوں پر اور عوام کی سیاست عوام کے لیے کا پھٹا بانس بجانے والوں پر۔

اپنے ہی منتخب ارکان پر جب اس قدر بے بھروسگی کہ انھیں آئینی ترامیم کی زنجیر سے باندھنے کا خیالِ خام ذہن پر سوار ہو جائے تو پھر کدو کا یقین خود پر اور اپنوں پر؟ اس سے تو بہتر ہے اجرتی اغیار کو کرائے پر لے کر خاندانی و یک شخصی قیادت کا ریڑھا کھچوا لیا جائے۔

شاید آپ کو یاد ہو کہ ہر انتخاب کی طرح سینیٹ کے انتخابات کے امیدواروں سے بھی درخواستیں مانگی گئی تھیں۔ کئی جماعتوں نے تو ناقابلِ واپسی پچاس پچاس ہزار سیکیورٹی ڈپازٹ تک درخواستوں کے ساتھ طلب کیا۔ ایک صاحب کو مجھ سمیت کئی دوست آخر وقت تک روکتے رہے کہ مت دے درخواست۔ تیرے لیے پچاس ہزار بہت بڑی رقم ہے۔

اگر تو بہت ہی تنگ ہے تو کسی سفید پوش کو دے دے، کسی یتیم بچی کا جہیز بنوا دے، کسی اسکول کی چار دیواری اٹھوا دے یا نلکہ لگوا دے یا ٹائلٹ ہی بنوا دے مگر ٹکٹ کے لیے مت درخواست دے تجھے نہیں ملے گا۔

دیکھ پارٹی کے لیے تیری قربانیاں اور پیٹھ پر کوڑوں کے قدیم نشان کیش نہیں ہوں گے۔ دیکھ یہ کوئی سن ساٹھ ستر کی پاکستانی اردو فلم نہیں ہے کہ سینیٹ نامی امیر لڑکی کا باپ صرف پیار کی دولت دیکھ کر تجھ ٹچے کے ہاتھ میں اپنی دختر کا ہاتھ دے دے گا۔ مت کر نادانی، چل اس پچاس ہزار کی کمیٹی ڈال دے۔ اپنے بچے کے لیے ان سے انویسٹمنٹ سرٹیفکیٹ ہی خرید لے۔

ابے اگر ہماری بات تیری سمجھ میں نہیں آ رہی تو یہ پچاس ہزار جوئے میں ہی لگا دے، مجرے میں لٹا دے، آگ لگا دے مگر خدا کے لیے سینیٹ کے ٹکٹ کی درخواست کے ساتھ نتھی مت کر۔ ہم تیرے پاؤں پڑتے ہیں۔

تجھے ٹکٹ نہیں ملے گا۔ ٹکٹ انھیں ملے گا جو خوش ہو کر بیرے کو پچاس ہزار ٹپ دینے کی پوزیشن میں ہیں، جو لیڈر کے چپراسی کی بیٹی کی شادی پر پچاس ہزار کا سونے کا ہار لیڈر کے ہاتھ سے چھوا کر چپراسی کو عطیہ کرنے کا ہنر جانتے ہیں اور پھر اس پچاس ہزار کی خدا ترسی کے عوض لیڈر سے پانچ کروڑ کا فائدہ لے سکتے ہیں اور اسے بیس کروڑ کا فائدہ دے سکتے ہیں۔ دیکھ مان جا مت درخواست دے۔

اچھا اگر تجھے ٹکٹ مل بھی گیا اور تو جیت بھی گیا تو تیری حیثیت اس کلب میں پھر بھی کیا ہو گی۔ تیرا لیڈر دوسروں کے سامنے تجھے بیوہ کی سلائی مشین کی طرح دکھا دکھا کے اپنی غریب پروری کی واہ واہ کرائے گا۔ تجھے سوائے سینیٹری کے بھلا کیا ملیگا۔ مان جا، مان جا، مان جا۔ پر وہ نہیں مانا۔ پچاس ہزار گنوانے سے پہلے بھی ہمارے ساتھ چائے پیتا تھا۔ آج بھی سڑکتا ہے۔ جانے اس کی درخواست کے ساتھ نتھی پچاس ہزار صاحب نے کس خوشامدی غلام کو بخش دیے ہوں گے۔ ۔ ۔

بھارت میں تو راجیہ سبھا کے چھ چیئرمین بعد میں راشٹر پتی بن گئے۔ امریکا میں تو تین سینیٹر صدر بن گئے۔ اور جو نہیں بھی بنے ان کے نام بھی حالاتِ حاضرہ کی تاریخ کا حصہ ہیں۔ سینیٹر جوزف میکھارتھی، ہیوبرٹ ہمفرے، بیری گولڈ واٹر، ایڈورڈ کینیڈی، فرینک چرچ، رچرڈ لوگر، لیری پریسلر، جوبائیڈن، ولیم فل برائٹ، جان وارنر، چارلس پرسی، والٹر مونڈیل، البرٹ گور، گیری ہارٹ، جان میکین، جان کیری۔ ایسا ممکن نہیں کہ آپ ان میں سے کم از کم کسی ایک نام سے واقف نہ ہوں۔

اب آئیے پاکستانی سینیٹروں کی طرف۔ غلام اسحاق خان، وسیم سجاد، محمد میاں سومرو، فاروق حامد نائیک، حبیب اللہ خان، نئیر حسین بخاری، عبدالمالک بلوچ، مخدوم سجاد حسین قریشی، ملک محمد علی خان، سید محمد فضل آغا، نور جہاں پانیزئی، میر عبدالجبار خان، ہمایوں خان مری، خلیل الرحمان، جان محمد جمالی، صابر علی بلوچ۔ بتائیے ان میں چیئرمین سینیٹ کون کون تھے اور ڈپٹی چیئر پرسن کون کون رہے؟ ان میں سے سینیٹ کا پہلا چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کون ہے؟ اور ان چیئرمینوں اور ڈپٹی چیئر پرسنسز کے علاوہ آپ کے ذہن میں اور کون کون سے معروف سینیٹرز ہیں؟ دس نہیں تو پانچ انگلیوں پر ہی گن دیجیے۔

ہاں یہ سینیٹ اس نیت سے وجود میں لائی گئی تھی کہ تمام وفاقی محمود و ایاز ایک ہی صف میں کھڑے ہو جائیں، نہ کوئی بندہ رہے نہ کوئی بندہ نواز تا کہ چھوٹے صوبے ایسے نمایندے بھیج سکیں جو اپنے علاقائی حقوق کا تحفظ کر سکیں، حقیقی مسائل اجاگر کر سکیں، ترقیاتی بجٹ کو مساویانہ انداز میں اپنی دہلیز تک پہنچوا سکیں، پارلیمانی و جمہوری سیاست کو پروان چڑھانے میں کلیدی کردار ادا کریں۔

ریاستی پالیسی سازی میں رہنمایانہ رول نبھا سکیں اور چونکہ ان کے منصب کی مدت رکنِ قومی اسمبلی کے پانچ برس کے مقابلے میں ایک برس زیادہ ہوتی ہے اور چونکہ کوئی بھی طالع آزما یا جمہوری مہم جُو قومی اسمبلی تو کسی بھی وقت لپیٹ کے گھر بھیج سکتا ہے مگر سینیٹ کو تو ضیا الحق بھی نہیں توڑ سکتا۔ لہذا توقع تھی کہ کسی بھی دورِ تاریک اور گھٹن کی فضا میں سینیٹ عوامی رہنمائی اور مزاحمت کا ایوانی استعارہ بنے گی۔

مگر ہوا کیا؟ جس نے کبھی لاہور اچھے سے نہیں دیکھا اس سندھ زادے کو پنجاب اسمبلی نے منتخب کر لیا۔ جس نے لاہور سے دبئی جاتے ہوئے حیدرآباد بس اوپر سے دیکھا اسے سندھ اسمبلی نے اپنا نمایندہ چن لیا۔ جو ص سے سیاست لکھتا ہے وہ سینیٹ میں بلوچستان کی نمایندگی کرے گا اور جسے پختون خوا کی پ بھی پے چیک دکھائی دیتی ہے اس سے توقع ہے کہ وہ خیبر پختون خوا کی محرومیوں پر بولے اور وہ بھی سینیٹ میں۔

بلاشبہہ سینیٹ میں پچھلے بیالیس برس کے دوران قابلِ قدر، پڑھے لکھے، ثابت قدم اور معاملہ فہم اصحاب بھی منتخب ہوتے آئے ہیں مگر کتنے؟ ذرا سب نئے پرانوں کے نام پڑھ کے مجھے بھی بتائیے گا کہ سینیٹ سے وابستہ وفاقی توقعات میں سے بھی کچھ توقعات پر کون سا سینیٹر پورا اترا یا اتر سکے گا۔ اور جواب نفی میں ہو تو،

پھر یہ سارا کھیل تماشہ کس کے لیے اور کیوں صاحب۔
ہفتہ 7 مارچ 2015


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).