سید مجاہد علی سے ملاقات


ہم سب آن لائن میگزین کے ذریعے کئی قابل لکھاریوں‌ کی تحاریر پڑھنے کا موقع ملا جن میں‌ سید مجاہد علی شامل ہیں جو اب تک ہم سب کے لیے قریب آٹھ سو مضامین لکھ چکے ہیں۔ وہ جتنی تیزی سے لکھتے ہیں، اتنی تیزی سے ہم پڑھ بھی نہیں‌ سکتے ہیں۔ میری خوش قسمتی دیکھئیے کہ ناروے نہیں جانا پڑا بلکہ سید مجاہد علی خود اپنی اہلیہ سمیت امریکہ میں‌ اپنے رشتہ داروں سے ملنے آگئے۔ نہ صرف یہ بلکہ اتفاق سے اس ہفتے میری چھٹی بھی تھی۔ اس طرح‌ مجھے سید مجاہد علی اور ان کی بیگم یاسمین سے ملنے کا سنہری موقع ملا۔ ہم سب ساتھ میں‌ ڈیلاس کے ایک ریستوران میں‌ رات کا کھانا کھانے گئے جہاں‌ ہماری تفصیل سے گفتگو ہوئی۔

سید مجاہد علی صاحب کے مضامین معلوماتی ہوتے ہیں جن سے تمام دنیا کی سیاست اور حالات پتا چلتے ہیں لیکن ان کے پیچھے لکھاری کے بارے میں‌ زیادہ پتا نہیں چلتا۔ جب میں‌ نے یہ بات کہی تو سید مجاہد علی صاحب نے انکساری سے کام لیتے ہوئے کہا کہ میں‌ اتنا اہم نہیں ہوں کہ میرے مضامین میرے بارے میں ہوں۔ اس بات سے مجھے اختلاف ہے اور یقین ہے کہ میری طرح‌ اور بھی پڑھنے والے سید مجاہد علی صاحب کے بارے میں‌ مزید جاننا چاہتے ہوں گے اور اس مضمون سے ان کو ہم سب کے ایک اہم لکھاری کو جاننے کا موقع ملے گا۔

سید مجاہد علی ملتان میں‌ پیدا ہوئے، انہوں‌ نے یونیورسٹی آف پنجاب سے اردو اور پولیٹکل سائنس میں‌ ماسٹرز کیا اور 1969 میں‌ جسارت ملتان کے لیے سب ایڈیٹر کے طور پر کام کرنا شروع کیا۔ وہ 1970 میں‌ کراچی منتقل ہوگئے جہاں‌ انہوں‌ نے 1975 تک مشرق کراچی کے لیے کام کیا۔ 1975 میں‌ وہ ناروے منتقل ہوگئے جہاں‌ وہ اب بھی رہائش پذیر ہیں۔ اس دوران انہوں‌ نے نارویجین زبان بھی سیکھی اور 1978 سے 1981 تک نارویجین زبان میں‌ نکلنے والے اخبار میں‌ کالم لکھے۔ سید مجاہد علی صاحب نے 1984 سے لے کر 1998 تک این آر کے یعنی نارویجین براڈکاسٹنگ کارپوریشن کے اردو سیکشن کے لیے پروڈیوسر اور میزبان کے طور پر کام کیا۔ انہوں‌ نے ناروے سے پہلا اردو کا اخبار کاروان نکالا جو کاغذی شکل میں‌ 1981 سے 1998 تک چھپتارہا اور اب آن لائن نکلتا ہے۔ وہ کافی سال سے اردو، انگلش اور نارویجین میں‌ لکھ رہے ہیں۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ ہر زبان اپنے اندر ایک دنیا رکھتی ہے، بلاشک اس حقیقت سے ان کی دنیا کے بارے میں‌ گہری معلومات کا اندازہ ہوتا ہے۔ ہم سب سید مجاہد علی کو ہم سب آن لائن میگزین کے باقاعدہ لکھاری کے طور پر جانتے ہیں۔

سید مجاہد علی صاحب کے چار بچے ہیں جو اعلیٰ تعلیم یافتہ اور کامیاب افراد ہیں۔ سید مجاہد علی صاحب اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اپنے بچوں کو صرف الفاظ سے ہی نہیں‌ بلکہ اپنے رویے اور طور طریقے سے تعلیم اور تربیت دی جائے۔ جب انہوں نے شوقیہ طور پر اپنے ایک دوست کے ساتھ سگریٹ سلگایا اور ان کی بیٹی نے وہ ان سے مانگا تو انہوں‌ نے اس دن سے سگریٹ پینا بالکل ترک کردیا۔ ان کی بیگم کا نام یاسمین ہے جنہوں‌ نے فلسفے کے میدان میں‌ تعلیم حاصل کی۔ یاسمین صاحبہ کی ہنس مکھ اور دوستانہ طبعیت کے علاوہ میں‌ یہ جان کر کافی متاثر ہوئی کہ ان کا تھیسس مارکس کے بارے میں‌ تھا۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں فلسفے کی تعلیم سوچنا سکھاتی ہے، یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں‌ کہ ایک سوچنے والے انسان کی صحبت کسی بھی لکھاری پر اثر ڈالے گی۔ یہ ثابت ہوا کہ ایک کامیاب آدمی کے پیچھے ایک خاتون کا ہاتھ ہوتا ہے۔

سید مجاہد علی صاحب کے گہرے مشاہدے کی ایک مثال یہ ہے کہ امریکہ پہلی مرتبہ آنے کے باوجود صرف دو دن میں انہوں‌ نے یہ نوٹ کرلیا کہ ناروے کے برعکس لوگ دوستانہ ہیں، وہ ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکراتے ہیں، دروازہ کھولتے ہیں اور ہیلو ہائے کرتے ہیں، باہر پیدل چلتا کوئی دکھائی نہیں‌ دیتا اور امریکہ میں‌ لوگوں‌ میں‌ الیکٹرک گاڑیوں‌ کا استعمال انتہائی کم ہے۔ انہوں‌ نے بالکل درست کہا کہ واشنگٹن اور ایک عام امریکی کے سیاسی عزائم مختلف ہیں اور عام امریکی، امریکہ کے بین الاقوامی اثرات سے لاتعلق ہے۔

سید مجاہد علی صاحب کی گفتگو میں سننے والوں کے لیے کئی سبق ہیں۔ انہوں‌ نے کہا کہ جب ایک پڑھنے والا کسی مضمون کو پڑھے تو لکھنے والے کے نقطہء نظر کو اپنا نقطہء نظر بنانے کے لیے نہیں‌ بلکہ اس میں پیش کی گئی معلومات کو اپنے نتائج تک پہنچنے کے لیے استعمال کرے۔ انہوں‌ نے کہا کہ دنیا میں‌ کالے اور سفید کے علاوہ درمیان میں‌ بہت سارا سرمئی بھی ہے جس کو نظر انداز نہیں‌ کیا جاسکتا۔ سید مجاہد علی کے مطابق ہر انسان کو اپنے اندر اعتماد اور فخر پیدا کرنا چاہئیے۔ ہر انسان کو اپنی جنس، نسل، رنگ، زبان، مذہب اور شناخت کو پہلے خود قبول کرنا ہوگا۔ اس کے بغیر وہ دنیا کے دیگر انسانوں‌ کے سامنے کھڑے نہیں‌ ہوپائیں گے۔

میں‌ نے ان سے سوال کیا کہ 42 سال سے ناروے میں‌ رہنے کے باوجود وہ اتنی تفصیل اور گہرائی سے دنیا کے مختلف ممالک اور ان کی سیاسی شخصیات سے واقفیت کیسے رکھتے ہیں؟ وہ کون سی کتابیں، رسالے یا مضامین ہیں‌ جو ان کے لیے مددگار ہیں؟ انہوں‌ نے کہا کہ ساری زندگی جرنلزم سے تعلق ہونے کی وجہ سے وقت کے ساتھ ساتھ معلومات اور سمجھ بوجھ بڑھتے گئے۔ انہوں‌ نے کہا کہ کسی بھی مضمون کو لکھنے سے پہلے میں‌ یہ نہیں‌ دیکھتا کہ دوسرے لوگ اس موضوع پر کیا کہہ رہے ہیں۔ میں‌ خود معلومات حاصل کرکے اپنا نقطہء نظر تشکیل دینے پر توجہ دیتا ہوں۔ انہوں نے ایک اہم بات کی کہ جن صحافیوں کا لکھنا تنخواہ حاصل کرنے کی غرض سے نہیں ہے، ان کے خیالات تعصب سے نسبتاً پاک ہوتے ہیں۔ میں‌ سمجھتی ہوں‌ کہ ہم سب میگزین کی کامیابی کا یہ ایک بڑا حصہ ہے کہ دنیا بھر سے لوگ اپنے تعلیمی میدانوں اور زندگی کے تجربوں‌ سے دیگر افراد کی معلومات بڑھانے اور ان کی زندگیاں بہتر بنانے کی نیت سے بغیر معاوضے کے خلوص دل سے لکھ رہے ہیں۔ یہ بات سید مجاہد علی کی تحاریر میں‌ صاف جھلکتی ہے۔

یاسمین صاحبہ نے ناروے کی خوبصورتی کا اس طرح‌ نقشہ کھینچا کہ میرے دل میں‌ ناروے دیکھنے کا شوق اور بھی بڑھ گیا۔ انہوں‌ نے بتایا کہ جب ان کی امی ناروے ان لوگوں سے ملنے آئیں‌ اور وہ ان کو باہر گھمانے لے گئے تو اپنے چاروں طرف پھیلی ہوئی سبزے، پہاڑوں‌ اور آبشاروں‌ کی خوبصورتی دیکھ کر وہ بے اختیار بول پڑیں‌ کہ یہ سب کچھ صرف دو آنکھوں سے کیسے دیکھا جاسکتا ہے۔ میں‌ سید مجاہد علی صاحب اور ان کی بیگم کی مشکور ہوں‌ کہ انہوں‌ نے اپنی امریکہ کی قلیل چھٹیوں‌ میں‌ مجھ سے ملنے کی حامی بھری اور اپنے قیمتی وقت میں‌ سب سوالوں‌ کے جواب دیے۔ وہ ایک خوبصورت ملک میں‌ رہنے والے خوبصورت لوگ ہیں۔ سید مجاہد علی کی طرح‌ کے بے لوث افراد معاشرے کے افراد میں‌ معلومات بڑھاکر ان کی زندگیاں‌ بہتر بنانے کے لیے ایک اثاثہ ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).