عمران خان کیلئے ”مرزا یار“ کی طرح گھومنے کو کھلا میدان


عمران خان صاحب سے ہزار ہا اختلافات رکھنے کے باوجود آپ کو یہ بات ماننا ہوگی کہ موصوف اپنے دل کی بات زبان پر لائے بغیر رہ نہیں سکتے۔اسی لئے بدھ کے روز جہلم میں ایک جیپ پر کھڑے ہوئے تو برملا کہہ دیا کہ نواز شریف پر جامعہ نعیمیہ میں جوتا اچھالا گیا تو وجہ اس کی لوگوں کے دلوں میں بھرا وہ غصہ ہے جو ان کی جماعت کی جانب سے مبینہ طورپر ایک قانون میں تبدیلی کی کوشش کرنے کی وجہ سے جمع ہوا ہے۔ یہ بات کہہ دینے کے بعد انہیں ہرگز یہ وضاحت فرمانے کی ضرورت نہ رہی کہ وہ مذکورہ حرکت کو کسی حد تک جائز سمجھ رہے ہیں۔ کسی واقعے کا ”سوادِ اعظم“ کے ”مذہبی جذبات“ کے ساتھ تعلق جوڑدیا جائے تو ایک فقرہ ہی کافی ہوتا ہے۔

مجھے یقین ہے کہ آپ میں سے بے شمار لوگوں نے سوشل میڈیا پروائرل ہوئی وہ ویڈیو بھی دیکھ لی ہوگی جس میں سرائیکی وسیب کے کسی مدرسے کے صحن میں کم سن بچوں کو اکٹھا کرکے سوال کیا جارہا ہے کہ وہ لاہور میں نواز شریف پر پھینکے جوتے کے بارے میں کیا محسوس کررہے ہیں۔ شرماتے مسکراتے بچوں نے جو باتیں کہیں وہ دہرانے کی ضرورت نہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ پنجاب کے قصبوں اور دیہات میں ”دینی تعلیم“ پاتے کم سن ذہنوں میں بہت پرکاری کےساتھ ایک خیال بٹھایا جارہا ہے ۔ اس ”ذہن سازی“ کے نتائج ہمیں آئندہ کئی سالوں تک بھگتنا ہوں گے۔

بدھ کی شام رائے ونڈ کے قریب لگائی ایک پولیس چیک پوسٹ پر خودکش حملہ بھی ہوگیا۔ میرے خدشات کو اس حملے نے ایک ٹھوس شہادت فراہم کر دی۔ 2013کے انتخابات میں اے این پی اور پیپلز پارٹی کی جانب سے کھڑے ہوئے امیدواروں کو طالبان کے خوف سے بھرپور انتخابی مہم چلانے کا موقعہ نہیں ملا تھا۔ اب کی بار نون کے لاحقے والی مسلم لیگ کے ٹکٹ کے ساتھ پنجاب کے قصبوںاور شہروں میں ”عوام سے گھل مل جانا“ بہت مشکل ہوجائے گا۔

قوی امید یہ بھی ہے کہ جون میں نگران حکومت کے قیام سے چند روز قبل احتساب عدالتوں سے نواز شریف کے خلاف فیصلے آنا شروع ہوجائیں گے۔ وہ جیل میں بیٹھ کر نون کے لاحقے والی لیگ کے امیدواروں کی انتخابی مہم کو گرمانہیں پائیں گے۔ان کی دُختر کو بھی جیل بھیج دیا گیا تو رہی سہی رونق کے امکانات بھی معدوم ہوجائیں گے۔ عمران خان صاحب کو اٹک سے رحیم یار خان تک پھیلے پاکستان کے آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑے صوبے میں ”مرزا یار“ کی طرح گھومنے کے لئے کھلامیدان مل جائے گا۔

عمران خان صاحب کے لئے رونما ہوتی آسانیوں کے تناظر میں میرے لئے یہ سمجھنا بہت مشکل ہورہا ہے کہ ہماری ریاست کی فیصلہ سازی پر اثر رکھنے والے کئی طاقت ور لوگ متوقع نگران حکومت کو ”کم از کم دو سال تک“ کیوں کھینچنا چاہ رہے ہیں۔ انتخابات کو ملتوی کروانا کیوں ضروری سمجھتے ہیں۔

موجودہ حالات میں انتخابات ہوتے ہیں تو سیاسی منظر سے نواز شریف کی عدم موجودگی تحریک انصاف کو اکثریتی نہ سہی تو واحد اکثریتی جماعت کی صورت ابھرنے میں بے تحاشہ مدد فراہم کرے گی۔ آصف علی زرداری کی جماعت سندھ کے علاوہ بلوچستان سے بھی چند نشستیں جیتنے کی امید لگائے بیٹھی ہے۔ سینٹ چیئرمین کے انتخاب نے ثابت کردیا ہے کہ ”وسیع تر قومی مفاد“ میں تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کو ایک مخلوط حکومت بنانے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئے گی۔

مائنس نواز فارمولے کے ساتھ عوام کے ووٹوں سے منتخب ایک مخلوط حکومت کا قیام دنیا کو یہ پیغام دے گا کہ پاکستان میں جمہوری نظام مستحکم ہورہا ہے۔ انتخابات یہاں بروقت ہوتے ہیں۔ 2008ءکے بعد سے جو بھی حکومت اسلام آباد میں آتی ہے تمام تر مشکلات کے باوجود اپنی آئینی مدت کے پانچ سال مکمل کرنے کے بعد ایک اور منتخب حکومت کو اقتدار منتقل کردیتی ہے۔

پاکستان کے بارے میں لہذا سیاسی عدم استحکام والی کہانیوں کا قصہ ختم ہونا چاہیے۔

نام نہاد ”عالمی برادری“ اب اسلام آباد میں بیٹھی حکومت کے ساتھ طویل المدتی معاہدات کرنے کے بارے میں کوئی جھجک محسوس نہ کرے۔ غیرملکی سرمایہ کاروں کو پالیسیوں کا تسلسل بھی نظر آنا چاہیے اور یہ امید بھی کہ پاکستان کے ساتھ کاروبار کرنے کے لئے انہیں حکومت میں بیٹھے لوگوں کو کمیشن اور کک بیکس دینے کی ضرورت نہیں رہی۔ احتساب کا عمل اس ملک میں بہت تگڑا ہوچکا ہے۔ میڈیا ہمارا بہت آزاد اور ہر شے پر کڑی نگاہ رکھتا ہے۔ وہ کسی معاملے کے بارے میں بے خبربھی رہے یا حکومتی اشتہاروں کے ذریعے خریدلیا جائے تو ہماری اعلیٰ ترین عدلیہ ازخود نوٹس لیتی ہے۔ عباسی حکومت کی آئینی مدت ختم ہوجانے کے بعد میری نظر میں لہذا نگران حکومت کو طوالت دینے کی ضرورت نہیں رہی۔

مذکورہ بالا دلائل میں نے ریاستی فیصلہ سازوں سے تعلق رکھنے والے کئی بااثر لوگوں کے سامنے رکھے تو مناسب جوابات نہ مل پائے۔ ان میں سے چند ایک نے البتہ اس خدشے کا اظہار کیا کہ پانامہ کے بعد سے معاملات جس انداز میں چلے ہیں انہوں نے ”درباری صحافیوں“ کی کاوشوں کی بدولت رائے عامہ کے ایک مو¿ثر حصے کو یہ سوچنے پر مجبور کیا ہے کہ ریاستی غضب کا نشانہ فقط شریف خاندان کو بنایا جارہا ہے۔ اگرچہ اسی خاندان کے شہباز شریف اور ان کے بچوں تک احتساب کی آگ ابھی تک نہیں پہنچی۔

اس تاثر کو ختم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ”بلاامتیاز اور کڑے احتساب“ کا ایک لمبا دور چلایا جائے۔ صرف نون کے لاحقے والی مسلم لیگ ہی نہیں دیگر سیاسی جماعتوں میں گھسے ”چوروں اور لٹیروں“ کی نشاندہی بھی ہو۔ان کے خلاف مقدمات قائم کرکے سرعت سے سزائیں دلوانے کی جانب بڑھا جائے۔ اس عمل کو مکمل کرنے کے لئے وقت درکار ہے۔ اس کے بعد جو انتخابات ہوں گے ان میں حصہ لینے کے لئے صرف صاف ستھرے لوگ ہی سامنے آئیں گے۔

مجھے یہ بھی سمجھایا گیا ہے کہ صفائی ستھرائی کا یہ عمل مکمل کرنے کےلئے کسی ”غیر آئینی اقدام“ کی ہرگز ضرورت نہیں۔ حلقہ بندیوں کا معاملہ عجلت میں مکمل ہوا ہے۔ کئی افراد کو اس سے پے پناہ شکایتیں ہیں۔ ان کا تدارک ضروری ہے۔ غیر ممالک میں مقیم اور دن رات محنت سے کمائی رقوم پاکستان بھیجنے والے پاکستانیوں کو بھی کئی برسوں سے ووٹ دینے کے بنیادی حق سے محروم رکھا گیا ہے۔ اس بنیادی حق کے حصول کو یقینی بنانا بھی اب لازمی ہوگیا ہے مگر ایک ایسے نظام کو وضع کرنے کے لئے وقت درکار ہے جو دنیا بھر میں پھیلے پاکستانیوں کو یہ حق لوٹا سکے۔

آئین کی تشریح فقط سپریم کورٹ کا حق ہے۔ وہ آئندہ انتخابات کو ہر صورت صاف وشفاف رکھنے کا عہد کئے ہوئے ہے۔ اس کے روبرو انتخابا ت کو ”محض چند ہفتوں“ تک ٹالنے کی درخواست مو¿ثر انداز میں پیش کی جائے تو وقت مل جانے کی قوی امید ہے۔ نگران حکومت کا دورانیہ بڑھانا لہذا ممکن ہی نہیں یقینی نظر آرہا ہے۔ اسی لئے تو ابھی سے ممکنہ نگران حکومت کے اراکین کی چھان پھٹک بہت منظم انداز میں شروع ہوگئی ہے اور اس بات کا انتظام ہوگیا ہے کہ شاہد خاقان عباسی اور خورشید شاہ نگران حکومت کے قیام کے حوالے سے غیر متعلق نظر آئیں۔

بشکریہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).