اور اک پھول گیا۔۔۔


\"husnainاحمدی، شیعہ اور مسیحی اس ملک میں اندھی موت کی بے رحم تلوار سر پر لٹکائے پیدا ہوتے ہیں اور یہ سچ ہے!

اگر کہا جائے کہ یہ سچ آپ کا نہیں، یا اس سچ سے آپ کا تعلق نہیں، یا آپ اسے جھوٹ مانتے ہیں یا آپ اہل سیاست کی طرح تاویل پیش کرتے ہیں کہ طالبان کے نام پر دوسرے فرقوں کے بھی اتنے آدمی مارے گئے، تو صاحب، یہ دلیل نہیں، یہ آدمی قتل کرنے کی تاویل ہے۔ اور معاملات کے پس منظر میں بھی بہت زیادہ فرق ہے۔

موت کیا ہوتی ہے، اس بچے سے پوچھیے جو محرم کے ایک جلوس میں شامل تھا۔ اسے نہیں معلوم تھا کہ گولی کیا ہوتی ہے، وہ نہیں جانتا تھا کہ لوگ گولی کھا کر کیسے مرتے ہیں، اور نہ ہی اس نے کبھی آنسو گیس سونگھی تھی۔ تو وہ بچہ بالکل ایسا تھا جیسے آپ میں سے کئی ہیں جنہوں نے اب تک ان چیزوں کا سنا بہت ہے، ٹی وی اور فلموں میں دیکھا بہت ہے لیکن آپ نہیں جانتے کہ آنسو گیس کی بو کیسی ہوتی ہے، گولی جب کسی کو لگتی ہے تو بدن میں کہیں پر ایک جلن سی کیسے محسوس ہوتی ہے، ایک دم تازہ تازہ لہو کیسے بھل بھل بہتا ہے، بھگدڑ کسے کہتے ہیں اور کچل کر مرنا کیسا ہوتا ہے۔

اس کے بڑے ہر سال محرم میں مولا حسین کا غم مناتے تھے، مجلسیں سنتے تھے، جلوسوں میں جاتے تھے، نذر نیاز کرتے تھے، سبیلیں لگاتے تھے، علم تھامے گرمیوں کی دوپہروں میں ننگے پاوں چلا کرتے تھے، تو اس جیسے بچے بھی وہی سب کیا کرتے۔

سبز اور کالی قمیصوں میں ملبوس وہ لوگ بازاروں میں، امام باڑوں میں، تنگ گلیوں میں اور کھلی سڑکوں پر ادھر سے ادھر آتے جاتے رہتے۔ ایک ان دیکھا حصار ہوتا کہ اپنا علاقہ یہ ہے اور اسی کے اندر رہنا ہے۔ اس حلقے میں جتنے جلوس، مجلسیں، سبیلیں ہوں گی، بس وہاں جائیں گے، اس سے باہر نہیں نکلنا۔ وہاں کے سب بزرگ بھی پہچانتے تھے کہ کون کس کی اولاد ہے اور گھر سے دور پائے جانے پر پیار بھری سرزنش کے ساتھ واپسی کی راہ دکھا دی جاتی تھی۔ ان میں کئی دوسرے مسالک سے بھی ہوتے لیکن کیا مجال کہ بچوں کو احساس بھی ہو جائےکہ فلاں چاچا یا فلاں ماما اپنا بندہ نہیں ہے، مہربان چہرے ایک جیسے دکھتے تھے۔

\"??????????\"

مجلس سے پہلے سب بچے امام باڑوں میں جا کر بیٹھ جاتے، کبھی جو مائیک ہاتھ لگتا تو اس پر نوحے پڑھنے شروع کر دیے جاتے۔ اسی طرح ایک دفعہ دس بارہ بچے ایک پرانے امام باڑے میں گئے، منبر کے طور پر ایک تخت ہوتا تھا، وہاں چڑھ گئے، اپنی طرف سے ہر کوئی مجلس سے خطاب کرنے کے چکروں میں تھا، منبر کہاں ہاتھ آتا ہے آسانی سے۔ ان میں کا ایک گول مٹول سا بچہ، سبز کرتا پہنے، گورا رنگ، سنہرے سے بال، تو وہ مائیک پر جا کر کھڑا ہوا اور نوحہ پڑھنے کے لیے اسے اپنے لیول پر لاتے ہوئے اس کے پیچ کھول بیٹھا۔ اب مائیک پورا دھڑام سے نیچے آ گیا۔ بڑا کوئی آس پاس نہیں تھا لیکن پکڑے جانے کے خوف سے ساتھ والے سب کے سب فرار ہو گئے، ایک دو ساتھی رہ گئے۔ ایسے میں انہی کو پکار کر کہنے لگا، \”پرزے تے دئیو نا کتیو\” ۔۔۔ کتے بھی مدد کرنے کے بجائے گالی سن کر دوڑ گئے۔ منبر کو بچوں کی ویسی پہنچ پھر حاصل نہ ہو سکی۔

زنجیروں کا ماتم ہوتا تھا۔ بچوں کی زنجیریں بڑوں سے تھوڑی مختلف ہوتی تھیں۔ بلیڈ نسبتاً چھوٹے ہوتے تھے۔ عام طور پر پانچ، سات اور گیارہ بلیڈ والی زنجیر ہوتی تھی۔ جس کا بلیڈ خوفناک نظر آتا وہ چیمپئین سمجھا جاتا تھا۔ پھر بلیڈ خوب رگڑوائے جاتے، عام طور پر زنجیر زنی والے جلوس سے ایک دن پہلے وہ زنجیریں منت ترلا کر کے بلیڈ تیز کرنے والے کاریگروں سے اٹھائی جاتیں۔ جس کی زنجیر اگلے دن کھنڈی (کند) ہوتی تو وہ مقابلتاً ڈرپوک سمجھا جاتا، ابے ڈرتا ہے تو زنجیر کا ماتم کیوں کرتا ہے، ٹائپ کی باتیں سننے کو ملتیں۔ ہاں کوئی ایسے بھی ہوتے تھے جو پانچ پانچ چھ چھ سال سے ایک ہی زنجیر کا سیٹ چلا رہے ہوتے، ان کے بلیڈ ہر سال گھس گھس کر باریک رہ گئے ہوتے، دھار ٹھیک نہ لگ پاتی، تو ان کا مذاق کوئی نہیں اڑاتا تھا۔ اتنا فہم موجود تھا کہ ڈرپوک کون ہے اور غربت کس کی راہ میں حائل ہے۔

زنجیر کے بلیڈ کبھی ڈیٹول میں نہیں دھوئے جاتے تھے، نہ ہی کوئی اور جراثیم کش دوائی لگانے کی عقل تھی۔ اخباروں میں لپٹی کاریگروں کے یہاں سے آتی تھیں، ویسے ہی اگلے دن شلوار میں اڑس کر جلوس میں پہنچ جاتے تھے۔ جیسے ہی زنجیر زنوں کا حلقہ بنتا ہر بچہ اپنے گرد زنجیریں گول گول گھما کر اتنی جگہ بنا لیتا کہ کسی اور سے زنجیر الجھنے نہ پائے اور پھر یا حسین شاہ حسین کا ردھم ہوتا اور زنجیروں کی چھنک۔

کسی کے اگر بڑا زخم آ جاتا تو کوئی بڑا اسے آ کر پیچھے سے پکڑ لیتا، بس پتر، ہن نہ کر، جوشیلے خود کو چھڑوا کر دوبارہ کود پڑتے، ہوش والے سمجھ جاتے کہ استاد سفید شلوار سرخ ہوئی ہے تو روکا گیا ہوں، تو وہ رک جاتے۔ بڑوں کو روکنا البتہ مشکل ہوتا تھا، ایک بندہ پیچھے سے جا کر بازو پکڑتا، ایک سامنے سے گھیرا ڈالتا کہ زنجیر نہ چلائی جا سکے، پھر پانچ سات آوازیں آتیں، او بس لالے بس، لالہ کہاں بس کرتا تھا، آخر کافی بڑے زخم لگا کر لالہ حلقے سے باہر آتا۔

اینٹی سیپٹک کا تصور اب بھی نہیں تھا۔ عام سے تیل میں تھوڑی سی راکھ ملا کر پوری کمر پر مل دی جاتی، تین چار دن مجاہد اعظم الٹے سوتے، پانچویں چھٹے دن زخم بھی بھرنے شروع ہو جاتے اور سونا بھی کمر کے بل آہستہ آہستہ شروع ہو جاتا۔

بچوں میں جو زیادہ ماتم نہ کرتا اسے دوسرے ڈرپوک کہتے یا اگر کسی کو زخم کے بجائے کمر پر نیل زیادہ آئے ہوتے کہ زنجیر کھنڈی ہوتی، تو اسے چھیڑتے کہ، زنجیراں ماردے او یا بلی دے پنجیاں دے نشان ان (زنجیریں مارتے ہیں یا بلی کے پنجوں کی خراشیں ہیں)۔

انہیں دنوں خمینی صاحب کا فتوی آیا کہ زنجیر مت مارو، خون عطیہ کر دو، تو بچوں کو خمینی صاحب بہت عجیب لگے تھے۔

ایک سبیل ہوتی تھی بڑی سی، اس بچے کے ماموں کی سبیل، تو ماموں کے بیٹے، بھانجے، بھتیجے سب اس کے انچارج ہوتے تھے۔ سبیل کا تو خود کار نظام تھا، جو آیا، پیاس لگی، پانی یا شربت پیا، آگے بڑھ گیا۔ اصل رونق سبیل کے بڑے سے تخت کی ہوتی تھی۔ تقریباً دس ضرب آٹھ فٹ کی سبیل بنائی جاتی۔ اردگرد مختلف اشعار والے بینر لگتے، امام جعفر صادق کے اقوال ہوتے، کچھ تصاویر لگتیں اور دس دن وہ پلیٹ فارم ہر گزرنے والے کے آرام کی جگہ بھی بن جاتا۔ جلوس ایک ایک کر کے جاتے رہتے، بچے اسی تخت پر کھڑے ہو کر ذوالجناح کو دیکھتے، وہیں سے علم کی زیارت ہوتی اور جلوس جانے کے بعد پھر اپنی گپ شروع ہو جاتی۔

تو ایک دن وہ بچہ ایک جلوس کے ساتھ سبیل کی سرحد سے آگے چلا گیا۔ وہ جسے نہیں معلوم تھا کہ گولی کیا ہوتی ہے، جو نہیں جانتا تھا کہ لوگ گولی کھا کر کیسے مرتے ہیں، اور نہ ہی جس نے کبھی آنسو گیس سونگھی تھی۔ تو وہ بچہ جو بالکل ایسا تھا جیسے آپ میں سے کئی ہیں جنہوں نے اب تک ان چیزوں کا سنا بہت ہے، ٹی وی اور فلموں میں دیکھا بہت ہے لیکن آپ نہیں جانتے کہ آنسو گیس کی بو کیسی ہوتی ہے، گولی جب کسی کو لگتی ہے تو بدن میں کہیں پر ایک جلن سی کیسے محسوس ہوتی ہے، ایک دم تازہ تازہ لہو کیسے بھل بھل بہتا ہے، بھگدڑ کسے کہتے ہیں اور کچل کر مرنا کیسا ہوتا ہے۔ وہ اس دن سب کچھ جان گیا۔

جلوس کابلیوں کی مسجد سے آگے بڑھا تھا کہ سامنے سے ایک دو گولیاں چلیں۔ ادھر سے پولیس نے گولیوں کی برسات شروع کی، ساتھ ہی آنسو گیس کے شیل پھینکنے شروع کر دئیے۔ سب شروع کیسے ہوا کچھ معلوم نہیں، تو جو گولیوں کا شکار ہوئے وہ بھی وہیں پڑے تھے، جو آنسو گیس سے بے حال تھے وہ بند سانسوں کے ساتھ اندھے ہو کر گھومتے پھرتے تھے، لوگوں سے ٹکراتے تھے، پاوں تلے کچلے بھی جاتے تھے، پانی ڈھونڈتے تھے کہ آنکھوں پر ماریں تو نظر آئے اور پئیں تو شاید سانس بحال ہو مگر سانس کہاں اور پانی کہاں۔

پھر بچے کو دو انجان ہاتھوں نے اٹھایا اور کابلیوں کی مسجد کے حوض پر لے جا کر چھوڑ دیا۔ دس بارہ سال کا بچہ تھا، روتا جاتا، آنکھیں صاف کرتا، نظر کچھ نہ آتا۔ شیل سامنے گرا تھا، دھواں سیدھا چڑھا تھا، بس آخری منظر گرے ہوئے لوگوں اور شیل کے دھوئیں کا دماغ میں تھا۔ تو بہت دیر منہ دھوتا رہا، شاید جبلی طور پر احساس ہو گیا تھا کہ اس خطرے کا حل صرف پانی ہے۔ بیس پچیس منٹ میں اوسان بحال ہوئے تو وہ اپنے گھر گیا۔

اب گلیوں میں الگ ایک غدر تھا۔ مائیں بچوں کو ڈھونڈتی تھیں، بہنیں بھائیوں کے لیے پریشان تھیں اور جن کے سب نفس پورے تھے وہ دروازوں پر پانی کی بالٹیاں لیے بیٹھی تھیں۔ جو گلی محلے کا متاثرہ لڑکا نظر آتا، اپنے اپنے بچوں کو بھیج کر اس پر پانی کے ڈونگے الٹائے جاتے کہ طبیعت بحال ہو اور آنکھیں کھلیں۔ اس دن تیرہ یا چودہ لوگ کام آئے۔ جو پانچ منٹ پہلے تک اس بچے کی آنکھوں کے سامنے تھے۔ کسی نے دکان کا شٹر گرا کا چھپنے کی کوشش کی تو وہ وہاں بھونا گیا، جو گولیاں چلانے والوں کو سامنے نظر آیا وہ تو باڑ پر ہی اٹھایا گیا۔ کئی روز شہر میں انہیں جوانا مرگ لوگوں کا قصہ تھا۔

وہ بچہ مگر موت کی بے رحم تلوار سے مکمل آگاہ ہو چکا تھا۔

اس دن کے بعد اس نے مرنے والوں کی گنتی شروع کر دی، ہر سال کئی مرنے لگے، پھر اس گنتی میں احمدی اور مسیحی بھی اس نے شامل کر لیے کہ وہ بھی اپنے جیسے ہی مظلوم دکھتے تھے۔ کل اس گنتی میں ایک نام اور شامل ہو گیا۔ وہ نام سید ہاشم رضوی کا ہے۔

جامعہ کراچی سے اپلائیڈ فزکس کا گولڈ میڈلسٹ ہاشم، تین بہنوں کا واحد بھائی، بوڑھے ماں باپ کا اکلوتا، کل وہ ہاشم عین ویسے ہی مارا گیا جیسے پہلے کئی ڈاکٹر، انجینیر، خطیب، ادیب، شاعر، ڈی ایس پی اور عام آدمی مارے گئے۔

اب چوں کہ ہاشم بھی اس بچے کی طرح اندھی موت کی بے رحم تلوار کو جانتا تھا، تو وہ خوش ہو گا کہ وہ اس روز روز کے انتظار سے آزاد ہوا۔

مارنے والے خوش ہوں گے کہ ایک اور ناپسندیدہ ۔۔۔ شخص کم ہوا۔

سوال بچانے والوں سے ہے، اقلیتوں کو ہمیشہ پرچم کے ڈنڈے پر ہی گزارا کرنا ہے یا کبھی سفید رنگ میں بھی لال ہوئے بغیر کچھ حصہ ملے گا؟

علی اکبر اذان دو، صبح کا تارہ چمکتا ہے۔۔۔

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain

Subscribe
Notify of
guest
11 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments