صبح کی سیر میں رومان


آج صبح کافی دنوں بعد واک کرنے کا پروگرام بنایا، اپنا سروس چیتے کا جوگر پہنا، گاؤں کی دوکان کھل چکی تھی ایک سگریٹ لیا اور سلگا کر کش لگاتے ہوئے کھیتوں کی طرف چلا گیا، بہار کی آمد آمد ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا
دُور تک پھیلا گندم کی فصل کا سبزہ جیسے دیکھ کر آنکھوں کو سکون محسوس ہوا

ہوا کے جھونکے کے ساتھ گندم کی سبز بالیاں ہلتی تو ایسے لگتا جیسے اس دُنیا میں آنے کی خوشی میں جھوم رہی ہیں
شبنم کے ننھے ننھے قطرے گھاس پر موتیوں کی طرح لگ رہے تھے
لالیاںوں اور چڑیوں کے دو جھنڈ شور مچانے میں معصروف تھے
ہمیں لگا کہ جیسے ہمارا استقبال کر رہے ہیں

دو بگلے کھالے میں کھڑے پانی میں اپنے لئے ناشتہ تلاش کر رہے تھے
ہمارے قدموں کی چاپ سُن کر ٹاہلی کے درخت پر بیٹھی چرِبل نے آنکھیں کھول کر ہمیں دیکھا اور بنا کوئی خطرہ محسوسکیے دوبارہ نیند کی آغوش میں چلی گئی
سُورج کافی بُلندی پر آ چکا تھا
ھم قدرتی نظارے میں ایسے محو تھے کہ بیان سے باہر ہے

غور سے دیکھا تو کوئی ایک ایکڑ کے فاصلے پر کھڑی مہ جبیں نے ہمیں اشارہ کر کے اپنی طرف بُلایا
اچانک کے اس اشارے سے ہمیں اپنے دِل کی ڈھرکن روکتی ہوئی محسوس ہوئی
مہ جبیں ہمیں ہی دیکھ رہی تھی، جلدی جلدی اپنا موبائل نکال کر فرنٹ کیمرے پہ اپنے آپ کو دیکھ کر بال سنوارے
جیبوں کو ٹٹولا کہ اُسے پہلی ملاقات میں کچھ دینے کے لئے کوئی تحفہ ہی مل جائے، خالی جیبوں پر غصہ آیا
ھم نے فوری گندم کے سات آٹھ سِٹے توڑ لئے کہ آج یہی گفٹ ٹھیک رہے گا

اَب تو دُوری چند قدم کی تھی دِل کی ڈھڑکن بے ترتیب ہو رہی تھی
ہمارا ہاتھ اپنی جیب کی طرف گیا
مہ جبیں جو کہ سر تا پا حُسن کی دیوی لگ رہی تھی

اُس نے میری طرف دیکھا اور بولی
بھائی جان یہ پٹھے (جانوروں کو ڈالنے کا چارہ) تو میرے سر پر رکھوا دیں ہکا بکا ہو کے پٹھے اُس کے سر پر رکھ دیے
جاتے ہوئے بولی بھائی اگر آپ نے بھی پٹھے بنانے ہوں تو
اُٹھاوانے کے لئے اپنے بھائی کو بھیجوں
ھم گھر واپس آ گئے دوبارہ سیر اگلی بہار میں ہو گی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).