دس اپریل 1986۔۔۔ وہ دن کہ جس کا وعدہ تھا  (1)


\"raziلاہور سے

شاکر حسین شاکر کے نام ۔۔۔۔۔۔ بعد از سلام

تمہارا خط اس مرتبہ خلافِ معمول کچھ مختصر تھا۔ میری عادت ہے کہ تمہارا خط ملتے ہی اسے پہلے ایک مرتبہ شروع سے آخر تک پڑھتا ہوں۔ پھر دوبارہ پڑھنا شروع کر دیتا ہوں یعنی ایک ہی نشست میں دو مرتبہ پڑھتا ہوں۔ پھر جب جواب دیتا ہوں تو اسے پھر سے دو مرتبہ پڑھتا ہوں ۔ لیکن چونکہ یہ خطر مختصر تھا اس لیے میں نے اپنا ٹائم پورا کرنے کے لیے اسے چار چار مرتبہ پڑھا اور ہر مرتبہ اس سے نیا لطف لیا۔ ہر بار تمہارے لہجے کو محسوس کیا۔ ہر مرتبہ تمہیں اپنے سامنے پایا، ہنستے، مسکراتے اور جاندار قہقہہ لگاتے۔ اور پھر ہر مرتبہ خود کو تم سے دور پایا۔ بہت ہی دور، خط کل ملا تھا۔ جواب آج لکھ رہا ہوں۔

تم نے بے نظیر بھٹو صاحبہ کے استقبال کی روداد معلوم کی ہے۔ بھائی اگر تم نہ بھی پوچھتے تو میں نے آج تمہیں یہی احوال سنانا تھا کہ آج کل پاکستان میں اس استقبال اور جلسے کے سوا کسی کے پاس کہنے کو اور کوئی موضوع ہی نہیں ہے بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ اگلے کئی مہینوں تک بس یہی جلسہ موضوعِ گفتگو رہے گا۔ شاکر میں نے تمہیں اس روز بہت مس کیا۔ بلکہ میں نے اپنے ہر دوست کی کمی محسوس کی۔ وہ ایک ایسا تاریخی لمحہ تھا اور ایسا تاریخی منظر تھا جو شاید پاکستان کی تاریخ میں دوبارہ کبھی دیکھنے کو نہ ملے۔ میں خود کو خوش \"Benazir-Bhutto-making-Victory-Sign-in-Lahore-Rally-10-April-1986\"قسمت سمجھتا ہوں کہ میں اس منظر کا حصہ تھا۔ تم جن لمحوں کی تصویروں کے لیے ترستے ہو میں نے وہ لمحے خود دیکھے ہیں۔ میں لاکھوں افراد کے اس ہجوم میں شامل تھا جو آمریت کے خلاف احتجاج کے لیے لاہور کی سڑکوں پر موجود تھا۔ شاکر لاہور کی سڑکوں پر میں گزشتہ 8 ماہ سے گھوم رہا ہوں مگر لاہور مجھے کبھی اتنا خوبصورت نہیں لگا جتنا 10 اپریل کو تھا۔ اور 10 اپریل ہی کیوں 9 اپریل کی رات بھی تو لاہور بہت خوبصورت تھا۔ آمریت کی طویل رات کو ختم کرنے کے لیے جمع ہونے والوں نے اس رات کو دن میں تبدیل کر دیا تھا۔ شاکر وہ رات تو نہیں تھی امید کی ایک روشنی لیے آئی تھی وہ رات۔ سب سڑکوں پر نعرے لگاتے تھے اور رقص کرتے تھے۔ میں اس ہجوم میں تنہا تھا مگر خود کو تنہا محسوس نہیں کر رہا تھا میرے جیسے کئی دبے کچلے اور روشنی کے طلب گار لوگ میرے ساتھ تھے۔ ضیاء الحق مردہ باد، ضیاء الحق مردہ باد ، ضیاء الحق مردہ باد۔ یہ نعرہ ہم نے سکول میں بھی لگایا تھا ، کالج میں بھی لگایا لیکن شاکر اس نعرے کا جو لطف 9 اور 10 اپریل کو آیا اس سے پہلے کبھی نہ آیا تھا۔ ’’زندہ ہے بھٹو زندہ ہے‘‘ ہم تو اسے نعرہ سمجھتے تھے مگر اب معلوم ہوا کہ یہ نعرہ نہیں ایک حقیقت ہے۔ بھٹو واقعی زندہ ہے۔ جسے انہوں نے 4 اپریل 1979ء کو رات کی تاریکی میں پھانسی دی تھی وہ بھٹو 9 اپریل 1986ء کی رات لاہور کی سڑکوں پر موجود تھا۔ لاکھوں افراد رقص کرتے تھے، دھمال ڈالتے تھے اور ہر شخص بھٹو تھا۔ 9 اپریل کی رات لاہور میں شب برات اور 10 اپریل کا دن عید کی طرح پررونق تھا۔ میں 9 اپریل کو رات 8 بجے مینار پاکستان گیا تو وہاں عجب سماں تھا۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ وہ سٹیج دیکھنے آئے تھے جو

\"18

بے نظیر صاحبہ کے لیے تیار کیا جا رہا تھا۔ یار میں نے موچی دروازے میں ایک دو سرکاری جلسیاں بھی دیکھی ہیں۔ بیورو کریسی اور ارکان اسمبلی کی کوششوں سے وہاں جن بھیڑ بکریوں کو جمع کیا جاتا ہے ان کی تعداد بھی اس ہجوم سے کم ہوتی ہے جو یہاں صرف سٹیج دیکھنے کیلئے جمع ہو گیا تھا اور بے نظیر بھٹو کو تو یہاں اگلے روز شام تک پہنچنا تھا۔ لوگ ڈھول پر رقص کرتے تھے اور نعرے لگاتے تھے۔ ہر طرف پیپلز پارٹی کا سہ رنگا پرچم لہرا رہا تھا۔ سرخ، سیاہ اور سبز رنگ کے پرچموں اور اسی رنگ کے کپڑوں نے عجب سماں باندھ دیا تھا۔ مینار پاکستان کے سائے میں بہت بڑا سٹیج تیار کیا جا رہا تھا۔ پیپلز پارٹی کے کارکن سٹیج کو سجا رہے تھے۔ اپنے شہید قائد کی بیٹی کے استقبال کے لیے اہل لاہور دیدہ و دل فرشِ راہ کئے ہوئے تھے۔ یہ دیدہ و دل فرشِ راہ کیسے کئے جاتے ہیں اس کا مفہوم تم کبھی بھی نہ سمجھ سکو گے کہ تم نے یہ منظر دیکھا ہی نہیں ہے۔ اس محاورے کو صرف وہی سمجھ سکے گا جس نے 9 اور 10 اپریل کا لاہور دیکھا ہے۔ میں مینار پاکستان کے احاطے سے باہر آیا اور پیدل بھاٹی گیٹ کی طرف روانہ ہو گیا چوک بھاٹی گیٹ پر دن کا سماں تھا۔ سرچ لائٹیں لگی ہوئیں، استقبالیہ سٹیج بن چکا تھا۔ اندرون لاہور کے گلی محلوں سے جلوس باہر آ رہے تھے۔ بھاٹی گیٹ سے میں لوہاری اور پھر وہاں سے پیدل ہی انار کلی سے ہوتا ہوا مال روڈ پر آ گیا۔ ہر طرف ایک ہی منظر ایک ہی جشن ۔۔۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو اور محترمہ نصرت بھٹو کی قد آدم تصاویر، قمقمے، جھنڈیاں، پرچم اور 3 رنگوں میں رنگے ہوئے درودیوار ۔۔۔ لاہور والوں نے اپنی قائد کے استقبال کے لیے پورے شہر کو دلہن کی طرح سجا دیا تھا۔ میں صبح سے جاگ رہا تھا پہلے دفتر میں ڈیوٹی دی اور اب شام 6 بجے سے سڑکوں پر موجود تھا۔ پیدل چل چل کر تھک چکا تھا مگر اس کے باوجود میں اپنے کمرے میں نہیں جانا چاہتا تھا۔ تھکاوٹ تو بہت تھی مگر محسوس نہیں ہو رہی تھی۔ لوگوں کا جوش و خروش اور خوشی سے تمتماتے چہرے دیکھ کر ساری تھکاوٹ ختم ہو جاتی تھی۔ مال روڈ کا نظارہ کرنے کے بعد میں پرانی انار کلی سے ہوتا ہوا چوبرجی کی طرف چلا گیا۔ وہاں بھی وہی جشن، وہی نعرے، وہی ہجوم، لاؤڈ سپیکروں پر ترانے چل رہے تھے۔ سوہنی دھرتی اﷲ رکھے قدم قدم آباد تجھے، اے مرد مجاہد جاگ ذرا اب وقت شہادت ہے آیا۔ مرد مومن کی نیندیں تو خیر حرام ہو چکی تھیں البتہ پورا لاہور مردِ مجاہد کی صورت میں جاگ رہا تھا۔ لاہور میں رت جگا تھا۔ بے نظیر صاحبہ کے طیارے نے صبح 6 بجے ایئر پورٹ پر لینڈ کرنا تھا سنا ہے ایئرپورٹ پر بھی لوگوں کی بہت بڑی تعداد پہنچ چکی تھی۔ میں خود ایئرپورٹ جانا چاہتا تھا میری بھی خواہش تھی کہ ہزاروں لاکھوں افراد کی طرح میں \"2202795279_2de902f201_o\"بھی یہ رات ایئرپورٹ پر گزاروں مگر مجھے جاگتا اور رقص کرتا لاہور خود سے جدا نہ ہونے دے رہا تھا۔ رات گئے تک میں اسی طرح لاہور کی سڑکوں پر گھومتا رہا۔ مختلف چوراہوں پر رقص کرنے والوں کے ساتھ رقص کرتا رہا۔ نعرے لگانے والوں کے ساتھ نعرے لگاتا رہا۔ اور پھر ملتان روڈ سے ہوتا ہوا شاہ نور سٹوڈیوز کے سامنے والے محلے میں اپنے کمرے میں آ گیا۔ میں کچھ دیر آرام کر کے صبح کے لیے تازہ دم ہونا چاہتا تھا۔ صبح مجھے دفتر بھی جانا تھا اور پھر وہاں سے جلدی فرار ہو کر بے نظیر بھٹو صاحبہ کے استقبال میں بھی شامل ہونا تھا۔ کمرے میں آکر میں نے کوشش کی کہ کچھ دیر سو جاؤں مگر نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ میں سوچ رہا تھا کہ آج رات جس طرح پورا لاہور سڑکوں پر اُمڈ آیا ہے کل جب بے نظیر بھٹو پاکستان پہنچ جائیں گی اور ملک بھر سے آنے والے تمام قافلے بھی لاہور پہنچ چکے ہوں گے تو کیا منظر ہوگا۔ بس جی چاہتا تھا فوراً دن نکل آئے اور بے نظیر بھٹو کی پاکستان آمد کی خبر سننے کو مل جائے۔

بے نظیر آئے گی، انقلاب لائے گی۔ یہ نعرہ بار بار میرے کانوں میں گونجتا رہا۔ انقلاب، عوامی انقلاب ۔ آمریت سے نجات کے لمحات قریب آ رہے ہیں۔ فیض صاحب نے کہا تھا ناں ہم دیکھیں گے، لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے۔ وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے۔ جو لوحِ ازل پر لکھا ہے، ہم دیکھیں گے۔ اور شاکر میں سوچ رہا تھا کہ فیض صاحب نے جس دن کا ذکر کیا شاید وہ 10 اپریل ہی ہو۔ 10 اپریل کا سورج جو چند ہی گھنٹوں میں طلوع ہونے والا تھا، ایک نئی امید، ایک نئی آرزو، وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے وہ دن اب چند گھنٹوں کی مسافت پر تھا۔ پھر تخت گرائے جائیں گے اور تاج اچھالے جائیں گے۔ اور جنرل ضیاء کے سر اوپر بجلی کڑ کڑ کڑکے گی ہم دیکھیں گے۔ وقت گزر ہی نہیں رہا تھا۔ میں نے ٹرانسسٹر کو آن کیا۔ بہت عرصے بعد میں نے بی بی سی دوبار سننا شروع کیا تھا۔ رات کو 3، 4 بجے کا وقت تھا۔ انگریزی سروس کی خبروں \"benazir02\"میں بتایا گیا کہ بے نظیر بھٹو چند گھنٹوں میں پاکستان پہنچنے والی ہیں اور اس وقت وہ طیارے میں ہیں۔ بی بی سی کا رپورٹر لاہور سے بتا رہا تھا کہ لاکھوں افراد لاہور میں جمع ہو چکے ہیں کسی بھی شخصیت کے استقبال کے لیے برصغیر کی تاریخ میں اتنی بڑی تعداد میں لوگ کبھی جمع نہیں ہوئے۔ میں صبح 5 بجے پھر کمرے سے نکل آیا۔ وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے میں اس دن کو طلوع ہوتے دیکھنا چاہتا تھا۔ وہ دن تو روز جیسا ہی تھا مگر کچھ زیادہ اجلا اور شفاف دکھائی دے رہا تھا۔ سید پور کی گلیوں سے نکلتا ہوا میں ملتان روڈ پر آگیا۔ شاہ نور سٹوڈیو کے گیٹ کے ساتھ ایک دکان سے میں روز ناشتہ کرتا ہوں اس روز بھی وہیں سے ناشتہ کیا۔ سڑکوں پر ویسی ہی رونق تھی جیسی میں رات دو بجے کے قریب چھوڑ کر گیا تھا۔ رات کو لاہور روشنیوں میں نہایا ہوا تھا اور اب جب دن نکلا تو منظر اور بھی خوبصورت ہو گیا۔ لگتا تھا پورے لاہور کو 3 رنگوں میں رنگ دیا گیا ہے۔ سرخ، سیاہ اور سبز۔ ہر طرف یہی تین رنگ دکھائی دے رہے تھے۔ یوں لگتا تھا کہ جیسے ہر منظر انہی تین رنگوں میں سمٹ آیا ہے۔ سرخ لہو کا رنگ ہے، سیاہ ماتمی لباس کا رنگ اور سبز؟ ۔۔۔ سبز شاید گنبد کا رنگ ہو یا شاید قبروں پر ڈالی جانے والی چادروں کا رنگ ہو۔ بھٹو صاحب نے اپنی پارٹی کے لیے پرچم کے رنگوں کا جب انتخاب کیا تو ان کے ذہن میں ان رنگوں کی یہ تقسیم یقیناً نہیں تھی مگر پارٹی کا پرچم اب انہی 3 علامات کا مرقع بن چکا ہے۔ آزادی کی علامت بن چکا ہے اور خون دینے کی روایت بن چکا ہے۔ بھٹو صاحب کے ساتھ پارٹی کے کتنے ہی کارکنوں نے جانوں کے نذرانے دیئے۔ رات ایک چوراہے میں کوئی عوامی شاعر پنجابی کی ایک نظم سنا رہا تھا۔ تین مصرعے تو ذہن میں نقش ہو کر رہے گئے۔ سِر دِتا سی / سِر لینے نے/ ہُن انج نیوندرے پینے نے ۔ شاکر دیکھ اس مصرعے میں ’’نیوندرے‘‘ کتنا خوبصورت استعمال ہوا۔ واقعی بہت خوبصورت زبان ہے پنجابی ۔ اب یہ مضمون کسی اور زبان میں اتنی خوبصورتی کے ساتھ کبھی بھی نہیں باندھا جا سکتا۔ اور ’’نیوندرا‘‘ ۔ اس لفظ کا بھی ترجمہ ممکن نہیں۔ سو ملک بھر سے پیپلز پارٹی کے کارکن ’’نیوندرے‘‘ ڈالنے کے لیے جمع ہو چکے تھے۔ صبح چھ بجے جہاز کی آمد کا وقت تھا۔ میں ایئرپورٹ سے کئی کلومیٹر دور تھا۔ مجھے تو کیا کسی کو بھی معلوم نہیں تھا کہ جہاز ابھی لینڈ کیا ہے یا نہیں۔ لیکن چھ بجے لاہور کی سڑکوں میں جو جہاں تھا اس نے زور دار نعرے کے ساتھ گویا بے نظیر کی آمد کا اعلان کر \"ncvncv\"دیا۔ ’’زندہ ہے بھٹو زندہ ہے، بھٹو کی تصویر بے نظیر، بے نظیر‘‘ کے نعرے گونجنے لگے۔ اور رات تک ’’بے نظیر آئے گی، انقلاب لائے گی‘‘ کا جو نعرہ لگ رہا تھا وہ ’’بے نظیر آئی ہے، انقلاب لائی ہے‘‘ کے نعرے میں تبدیل ہو گیا۔ ایک ہی لمحے میں منظر بدل گیا تھا۔ یوں لگ رہا تھا کہ جیسے ہمارے خوابوں کو تعبیر مل گئی ہے۔ خواب تعبیر پاتے ہیں یا نہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا مگر اس وقت اس لمحے کی کیفیت یہی تھی کہ جیسے ہمیں سب کچھ مل گیا اور جیسے ہماری جدوجہد رنگ لے آئی ہے۔ میں ایئرپورٹ کی جانب بڑھنے لگا۔ اور ائیرپورٹ جانا آج کوئی مشکل کام نہیں تھا۔ عام دنوں میں اگر ایئرپورٹ جانا ہو تو اس کے لیے خاص روٹ کی ویگن یا بس کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ بلکہ میں تو شاہ نور سٹوڈیو کے پاس رہتا ہوں جہاں سے ایئرپورٹ کے لیے کوئی براہ راست ویگن نہیں جاتی مجھے اگر یہاں سے ایئرپورٹ جانا ہو تو عام دنوں میں دو یا تین بسوں کو تبدیل کرنا پڑتا ہے لیکن 10 اپریل کی صبح لاہور کی تمام سڑکیں ایئرپورٹ کی طرف جا رہی تھیں۔ تمام راستے ایئرپورٹ پر ختم ہوتے تھے ہر بس اور ہر ویگن ایئرپورٹ کی طرف جا رہی تھی اور نان سٹاپ جا رہی تھی۔ سو میں دبئی چوک (اقبال ٹاؤن) سے پیپلز پارٹی کے پرچموں سے سجی ہوئی ایک بس میں سوار ہو گیا۔ بس کی چھت پر نوجوان سوار تھے ڈھول بج رہا تھا۔ شاکر ان دو دنوں کے دوران لاہور میں جتنا ڈھول بجایا گیا شاید ہی کبھی بجایا گیا ہو۔ ان دو دنوں کے دوران لاہور کی سڑکوں پر خلقت نے جتنا رقص کیا شاید ہی کبھی کیا ہو۔ پورا لاہور ناچتا گاتا دکھائی دے رہا تھا۔ اس لاہور نے بہت برے دن بھی دیکھے۔ آہیں اور سسکیاں بھی دیکھیں۔ اسی لاہور کی سڑکوں پر لوگوں کو کوڑے بھی لگائے گئے، انہیں چوراہوں میں سرعام پھانسیاں بھی دی گئیں تاکہ باقی لوگ عبرت حاصل کریں۔ اسی لاہور کی سڑکوں پر خون کی ہولی بھی کھیلی گئی، فائرنگ ہوئی، لاٹھیاں چلیں، آنسو گیس پھینکی گئی اگرچہ اس عہد سیاہ میں لوگوں کو رُلانے کے لیے آنسو گیس کے تردد کی ضرورت بھی نہیں کہ آنسو تو اظہار کا سب سے بڑا وسیلہ بن چکے

\"T31

تھے مگر اس کے باوجود بے تحاشا آنسو گیس استعمال ہوئی اسی لاہور کی سڑکوں پر لوگوں نے تیرگی کے خاتمے کے لیے اپنے جسموں کو چوارہوں میں آگ لگائی اور شمع ہر رنگ میں جلتی رہی سحر ہونے تک کی عملی تصویر بن گئے۔ تو شاکر اس لاہور نے جتنے دکھ دیکھے اور جتنے آنسو دیکھے یہ ان کے کفارے کا دن تھا۔ یہ خوشیوں کا دن تھا ناچنے گانے اور جشن منانے کا دن تھا۔ اور جشن منایا جا رہا تھا، ڈھول بج رہا تھا پوری شدت کے ساتھ ہر گلی اور محلے میں بج رہا تھا۔ سڑکوں پر ٹریفک بڑھتی جا رہی تھی۔ بسیں، کاریں، ویگنیں، ٹرالیاں، ٹریکٹر، رکشے، ٹانگے، ریہڑیاں بس جسے جو ملا وہ اس پر ایئرپورٹ کی جانب گامزن تھا۔ ہماری رفتار بہت سست تھی، بہت ہی سست، گاڑیاں رینگ رہی تھیں۔ یہاں تک کہ شیر پاؤ پل آگیا۔ آگے گاڑیوں کا جانا ممکن نہیں تھا۔ اور اب صبح کے 9 بجنے والے تھے۔ فیصلہ یہ کیا کہ اب میں دفتر چلا جاؤں تاکہ وہاں کچھ وقت حاضری دے کر دوبارہ جلوس میں شامل ہو سکوں۔ سوچا کہ میں اگر بارہ ایک بجے بھی دفتر سے نکلوں تو مال روڈ پر جلوس میں شامل ہو جاؤں گا۔ سو میں لبرٹی چوک میں وطن دوست کے دفتر میں پہنچ گیا۔ اب دفتر میں بھی کس کا دل لگنا تھا۔ دل تو جلوس میں اٹکا ہوا تھا۔ سو ٹیلی فون پر دوستوں سے رابطے شروع کئے۔ پہلا فون سعید بدر کو کیا کہ ان سے جلوس کی صورتحال معلوم ہو سکتی تھی۔ سعید بدر کے مزاج کا تمہیں علم ہے کہ وہ ضیاء الحق کے حامی اور مولوی قسم کے انسان ہیں سو خاصے بھنائے ہوئے لہجے میں بولے مجھے اس استقبال سے کوئی دلچسپی نہیں ۔ تم لوگ تو پاگل ہو کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ پھر انہوں نے مجھے ڈرانے کی کوشش کی کہ جلوس میں مت جانا کوئی بڑا ہنگامہ اور خون خرابہ ہو سکتا ہے۔ میں نے کہا حضور میں نے آپ کی نصیحتوں پر پہلے کب عمل کیا ہے جو آج کروں گا۔ آپ بس یہ مہربانی کریں کہ اپنے کسی دوست رپورٹر سے یہ معلوم کر دیں کہ جلوس کی اس وقت کیا پوزیشن ہے۔ بہت منت سماجت کے بعد وہ اس بات پر آمادہ ہوئے کہ میری خاطر وہ ایک ٹیلی فون کال ضائع کریں گے اور امروز کے دفتر فون کرکے اس جلوس کے بارے میں معلومات حاصل کریں گے جس سے خود انہیں صحافی ہونے کے باوجود کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ اشرف جاوید کا دفتر مال روڈ پر واقع ہے۔ میں نے وہاں فون کیا تو معلوم ہوا کہ صرف وہی نہیں دفتر کے بہت سے لوگ غیر حاضر ہیں ہاں اس کے ایک کولیگ نے یہ بتا دیا کہ مال روڈ پر ہجوم بہت زیادہ ہے لیکن جلوس کے ابھی کوئی آثار نہیں ہیں۔ پھر مجھے ایک اور کام یاد آگیا۔ مجھے یاد آیا

\"Former

کہ ملتان سے اسلم یوسفی آج کل لاہور آئے ہوئے ہیں۔ یوسفی صاحب کا مجھے دو روز پہلے ہی خط موصول ہوا تھا جس میں انہوں نے اپنی لاہور آمد کی خبر دی تھی اور یہ خواہش بھی ظاہر کی تھی کہ میں اگر بے نظیر بھٹو کے استقبال کے لیے جاؤں تو انہیں بھی ساتھ لیتا جاؤں۔ یوسفی صاحب سمن آباد میں اپنی بیٹی کے ہاں رہائش پذیر تھے۔ ان کا خط ملا تو میں نے ایک لمحے کے لیے سوچا تھا کہ جب ایئرپورٹ کی طرف یا مینار پاکستان والے جلسے میں شرکت کے لیے جاؤں گا تو انہیں ساتھ لیتا جاؤں گا کہ یوسفی صاحب کی بھٹو خاندان کے ساتھ بہت جذباتی وابستگی ہے۔ لیکن کل سے میں سڑکوں کی جو صورتحال دیکھ رہا تھا اور جس قدر ہجوم متوقع تھا اس کی روشنی میں یوسفی صاحب کو ساتھ لے جانا مناسب نہیں تھا۔ وہ عمر کے جس حصے میں ہیں کسی بھگدڑ یا دھکم پیل کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ میں نے اسلم یوسفی صاحب کو فون کیا تو وہ جیسے جلوس میں جانے کے لیے تیار ہی بیٹھے تھے۔ کہنے لگے آپ مجھے لینے کے لیے کب تشریف لا رہے ہیں۔ میں نے بہت طریقے سے انہیں سمجھایا کہ اتنے ہجوم میں ان کا جانا مناسب نہیں عام دنوں میں تو وہ اپنے بڑھاپے اور بزرگی کا خوب ذکر کرتے ہیں۔ یہ بھی بتاتے ہیں کہ اب مجھ سے چلا نہیں جاتا۔ سانس پھول جاتا ہے۔ سفر میں دشواری ہوتی ہے مگر اس روز تو وہ جلسے میں جانے کے لیے تُلے بیٹھے تھے۔ وہ خود کو بوڑھا مان ہی نہیں رہے تھے۔’’نہیں بیٹا فکر نہ کرو ہم تو بھٹو صاحب کے جلسوں میں بھی جاتے تھے اور محترمہ فاطمہ جناح کے جلسوں میں بھی جاتے رہے ہیں۔ اس دھکم پیل اور بھگدڑ سے ہم نہیں گھبراتے۔‘‘ اب میں انہیں کیسے سمجھاتا کہ یہاں محترمہ فاطمہ جناح اور بھٹو صاحب کے جلسوں سے کئی گنا بڑا ہجوم ہے۔ خیر بمشکل تمام وہ اس شرط پر جلسے سے دستبردار ہوئے کہ میں انہیں بے نظیر بھٹو کی تقریر کی ریکارڈنگ گھر آ کر سنواؤں گا۔ میں نے فوراً حامی بھر لی۔ بے نظیر بھٹو کی تقریر تو میں نے ریکارڈ کرنا ہی تھی کہ اس کا تقاضا بشری رحمن صاحبہ نے بھی کیا تھا۔ بشری رحمن خود بہت اچھی مقرر ہیں اور سیاست بھی کر رہی ہیں سو وہ بے نظیر بھٹو کی تقریر سننا چاہتی تھیں ۔ میں نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ میں چھوٹا ٹیپ ریکارڈ ساتھ لے جاؤں گا اور جلسے سے بے نظیر بھٹو کی تقریر ریکارڈ کر لاؤں گا۔ میں نے جو تقریر ریکارڈ کی اس کی ایک کاپی تمہیں بھی کسی کے ہاتھ بھیج دوں گا۔ ڈاک میں تو یہ ممکن نہیں کہ تم ماشاء اﷲ سعودی عرب میں مقیم ہو۔ تصویر تو وہاں حرام ہے ممکن ہے عورت کی آواز بھی حرام ہو سو میں یہ انتہائی قیمتی کیسٹ ڈاک کے ذریعے بھیج کر ضائع نہیں کرنا چاہتا۔

\"Former

واپس جلوس کی طرف آتا ہوں۔ سعید بدر نے دو ٹیلی فون ضائع کئے۔ پہلے انہوں نے امروز کے دفتر فون کر کے جلوس کی پوزیشن معلوم کی پھر مجھے فون کر کے بتایا کہ جلوس نے ابھی مال روڈ پر اپنا سفر شروع کیا ہے اور چئیرنگ کراس یا ریگل تک آتے آتے اسے شام ہو جائے گی۔ مجھے شرارت سوجھی میں نے کہا سعید بدر صاحب مجھے آپ کی باتوں پر یقین نہیں ہے۔ آپ متعصب ضیاء الحقی ہیں لہٰذا مجھے گمراہ کرنے کے لیے جلوس کی پوزیشن صحیح نہیں بتا رہے۔ آپ چاہتے ہیں کہ میں شام کو ریگل چوک پہنچوں تاکہ جلوس ہی نہیں جلسہ بھی ختم ہو گیا ہو۔ ابھی وہ میرے اس حملے سے ہی نہیں سنبھلے تھے کہ میں نے ایک اور میزائل داغ دیا میں نے کہا جناب آپ کی گمراہ کن اطلاعات سے بچنے کے لیے میں نے اشرف جاوید کے دفتر میں رابطہ کر لیا ہے۔ سٹیٹ بینک مال روڈ پر ہی واقع ہے اور اشرف جاوید کے ایک کولیگ نے کہا ہے کہ وہ مجھے جلوس کی پوزیشن سے آگاہ کر دے گا۔ بس شاکر مت پوچھو سعید بدر صاحب کا کیا حال ہوا۔ ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ ٹیلی فون کے اندر سے نکل کرمجھے امرود سمجھ کر کھا جائیں۔ انہوں نے خاصی ثقیل قسم کی گالیاں عطا کیں جن کا مطلب کسی پیدائشی لاہوریے سے معلوم کروں گا اس کے بعد کہنے لگے کہ تم سُرخے ہو اور سُرخے اسی طرح احسان فراموش، بدلحاظ اور پتہ نہیں کیا کیا ہوتے ہیں۔ انہیں اپنی ٹیلی فون کالز کے ضائع ہونے کا پہلے ہی ملال تھا میری اس گفتگو کے بعد اور بھی ملال ہوا ہو گا۔ شاکر میں تھک گیا ہوں صبح کے تین بج چکے ہیں۔ خط بہت طویل ہو گیا ہے۔ اب میں سو رہا ہوں۔ باقی باتیں کل ہوں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments