تین ولی، تین انسان


میری بستی میں تین انسان بھی بستے تھے۔ یہ عام لوگوں اور ولیوں سے سراسر مختلف تھے۔ یہ اپنے عیب نہیں چھپاتے تھے۔ یہ منافقت برتتے کے قائل نہیں تھے۔ یہ سچے لوگ تھے جو نمائش بھی کرتے تو نمائش کی خاطر نہیں بلکہ وہ ان کی خاص عادات کا پرتو ہوتی تھی۔ وہ آئینہ تھے جن میں باقی سبھوں کے عکس دھندلا جاتے تھے۔ وہ یہ نہیں کہتے تھے کہ ان جیسے بن جاؤ بلکہ وہ وہ تھے جو وہ تھے۔ شاید وہ باغی تھے۔ شاید مختلف تھے، شاید انتہائی عام جو عام لوگوں سے ہٹ کر تھے، نہ تو ان سے اوپر نہ ان سے نیچے، بس ہٹ کر تھے۔ ان کو نہ تو لوگوں کی چبھتی ہوئی نظروں کی پرواہ تھی اور نہ ہی ان کی طعن و تشنیع کا خوف۔ وہ وہی کرتے تھے جو کرنے کو ان کا دل چاہتا تھا۔

بگا شیر بازار سے ٹوٹے ہوئے مندر کی جانب جانے والی گلی کے سرے پر مظفر علی خان صاحب کی دودھ کی دکان تھی۔ مظفر علی خان صاحب علی پور کے واحد نستعلیق فرد تھے جنہوں نے لوگوں کے بچوں کی تربیت کرنے کی اپنے طور پر ذمہ داری لی ہوئی تھی۔ ہم ان کی دکان پر پہنچتے ہی بڑے ادب کے ساتھ انہیں سلام کیا کرتے تھے کیونکہ بھول جانے کی صورت میں ان کی شفیق مگر سخت سرزنش سے بچنے کا یہی ایک واحد طریقہ تھا۔ ان کی دکان سے دو چار دکانیں آگے گزر کر، مخالف سمت میں بازار کی چوڑائی میں اضافہ ہو جاتا تھا۔ اگرچہ باقی سارا بازار کپڑے کی چادروں، صفوں اور ترپالوں سے ڈھکا ہوا تھا کیونکہ گرمی بہت ہی زیادہ پڑتی ہے مگر بازار کا یہ چوڑا حصہ اتنا زیادہ چوڑا تھا کہ اسے کھلا رکھنے کے علاوہ چارہ نہیں تھا۔ چوڑی سمت میں دکانوں کے اوپر ایک چوبارہ تھا جس کی ایک کھڑکی پورے دروازے جتنی تھی۔ اس کے پٹ کبھی کھلے ہوتے تو کبھی بند۔ چھوٹی کھڑکی کے اوپر والے پٹ اکثر کھلے رہتے تھے۔

بڑی کھڑکی کے ساتھ بچھی چارپائی پر صاف ستھرے کپڑے پہنے، پان سے منہ لال کیے، طافو خان بیٹھا رہتا تھا اور وہیں بیٹھے بیٹھے اونچی آواز میں نیچے زمین پر موجود لوگوں سے باتیں کرتا رہتا۔ اس کی داشتہ زرق برق کپڑے زیب تن کیے، عموماً سفید شیفون کا دوپٹہ کندھوں پر ڈالے اپنی لمبی گت جھلاتے ہوئے سرعام اس کے ساتھ بیٹھی اٹھلاتی رہتی تھی۔ پھر وہ بڑی کھڑکی کو بند کر دیتی اور ان دونوں کے قہقہے بلند ہوتے رہتے۔ بعض اوقات طافو خان ایک ایک زینے کو ایک ہی پیر سے عبور کرتے ہوئے نیچے اتر آتا تھا اور بازار میں بچھی چارپائی پر گاؤ تکیے کے ساتھ ٹیک لگا کر، نیم دراز ہو کے، ارد گرد بچھی کرسیوں یا موڑھوں پر بیٹھے لوگوں سے محو گفتگو ہو جاتا تھا اور انوری اوپر بیٹھی، بڑی کھڑکی کھولے اپنی کنگھی چوٹی کرنے میں مصروف رہتی۔ اوپر سے نیچے آتے ہوئے طافو خان ہر زینے پر ایک ہی پیر شاید اس لیے اتارتا تھا کہ اسے نشے کے باعث پاؤں رپٹ جانے کا خدشہ ہوتا تھا۔ واللہ اعلم طافو خان شراب پیتا تھا کہ افیون کھاتا تھا۔ شراب پینے کا گمان اس لیے نہیں ہوتا کہ اسے کبھی بہکتے نہیں دیکھا اور افیون لینے کا شائبہ اس لیے ہوتا ہے کہ تعیش سے افیون کا بندھن رہا ہے۔

انوری کو لوگ ” انوری رنڈی ” کہتے تھے۔ سامنے شاید کوئی نہ بھی کہتا ہو لیکن پیٹھ کے پیچھے اس کے لیے یہی لقب تھا۔ تاحتٰی اس کے بھائی انور کو بھی لوگ ”انوری رنڈی“ کا بھائی ہی کہا کرتے تھے۔ انور چھٹی جماعت سے ہائی سکول میں میرا ہم جماعت بنا تھا اور اچھا لڑکا تھا۔ انوری رنڈی دینداروں کے گھرانے سے تھی۔ شاید خانصاحب کا اس پر دل آ گیا تھا۔ خاندانی ہونے کی وجہ سے اسے گھر میں تو نہیں ڈال سکتے تھے بس چوبارے پر ڈال لیا تھا۔ گھر گھر کا گند سمیٹنے کی بجائے ایک ہی شخص کی ادھوری محبت کا بوجھ بانٹنے کے لیے ملازم رکھ لیا تھا۔ انوری بھی خوش ہی لگا کرتی تھی۔ شاید نجاست کی بو سے چھٹکارا پانے کے لیے اس نے طافو خان کے پسینے کی بو اور پان کی مہک کا ملغوبہ ہی نعمت جان لیا تھا۔ جمعدارنیوں یا دینداریوں کے منہ پر پڑتی، سڑک پر دی جانے والی جھاڑو سے گرد، لوگوں کی ڈانٹ ڈپٹ، پھٹکار اور حقارت سے بچنے کی خاطر اس نے رنڈی بننا قبول کر لیا تھا۔ اب وہ طافو خان کی داشتہ تھی اور منہ پھٹ رنڈی۔ وہ کسی کو منہ نہ لگاتی تھی اور کوئی اس کے منہ کو نہیں آتا تھا۔ طافو خان کا بیٹا جو ہمارا ہم جماعت تھا نجانے انوری کو کیا کہہ کے پکارتا ہوگا کیونکہ وہ باپ کے چوبارے پر آتا بھی تھا اور اپنے باپ سے باتیں بھی کیا کرتا تھا۔

عمومی طور پر مذہب پرست آبادی پر مشتمل اس قصبے میں طافو خان ایک بہت بڑا باغی اور حقیقی طور پر آزاد انسان تھا۔ اس کا لوگوں سے میل جول اچھا تھا اور میں نے اچھے بھلے مذہبی لوگوں کو بھی اس کے ساتھ خوش اخلاقی سے گفتگو کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ میرے بچپن سے لے کر ہائی سکول چھوڑنے تک طافو خان انوری جوڑی قائم ودائم تھی، بعد میں کیا بنا کچھ معلوم نہیں۔

انسان کی قبیل سے تعلق رکھنے والا دوسرا شخص بھی ذات کا پٹھان ہی تھا۔ جمیل خان ادھیڑ عمر انسان تھا۔ بسوں کے اڈے کے سامنے ایک بڑے سے احاطے والا اس کا گھر تھا۔ اس گورے چٹے شخص کے بچے بھی خوبصورت، گل گوتھنے اور دلکش تھے۔ جمیل خان کے گھر کے باہر کبھی تو کئی کئی گائیں بھینسیں، گھوڑے اور اونٹ بندھے ہوتے اور کبھی وہاں صرف گڑے ہوئے خالی کھونٹے بچ رہتے تھے۔ جانوروں کا گوبر اور لید تک چھٹ جایا کرتے تھے۔ شنید یہ تھی کہ خانصاحب جواری ہیں اس لیے کبھی پوبارہ اور کبھی نو دو گیارہ ہوتا رہتا ہے۔ وہ جواری تھے یا نہیں تھے کچھ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کیونکہ خلقت شہر کو تو ہمیشہ کہنے کے لیے فسانوں کی تلاش رہتی ہے لیکن بہرحال موصوف دھڑلے کے شرابی ضرور تھے۔ عموماً چڑھی تیوری والا جمیل خان کبھی کبھار لڑھگتا گرتا، اول فول بکتا دکھائی دیتا تھا۔ ایک بار نشے کے عالم میں، ایک تانگے پر کھڑے ہوئے، گھوڑے کی لگامیں تھامے، پورے شہر میں تانگہ دوڑایا تھا اور جس جس کے بارے میں جو بھی جی میں آیا تھا، پکار پکار کر سرعام کہا تھا، اس القاب نوازی میں کھلم کھلا دشنام طرازی بھی شامل تھی۔

پورے شہر میں طافو خان کی کھلی رنڈی بازی کے مقابلے میں جمیل خان واحد بیباک شرابی تھا۔ جمیل خان کے چہرے پر مسکراہٹ کبھی نہیں آئی۔ لگتا تھا وہ اندر سے بہت ٹوٹا ہوا شخص ہے جو اپنے دکھ چھپانے کے لیے شراب کا سہارا لیتا ہے۔ میں مذہبی گھرانے کا بچہ تھا۔ طافو خان کو دیکھ کے تو مجھے اکثر الجھن ہوتی تھی لیکن جمیل خان مجھے اچھا لگتا تھا۔ کیوں؟ پتہ نہیں۔ شاید اس لیے کہ وہ ”انسان“ تھا۔ اس نے خود پر ملمع نہیں چڑھایا ہوا تھا۔ وہ شراب پینا چاہتا تھا اور پیتا تھا مگر کسی کو نماز پڑھنے سے نہیں روکتا تھا۔ وہ اپنی ذات کو دکھ پہنچاتا تھا لیکن دوسروں کی ذات کو دکھ پہنچانے والوں کو برا سمجھتا تھا اور شراب پی کر ان کی مٹی پلید کر دیا کرتا تھا۔

تیسرا انسان کوئی اتنا ”انسان“ بھی نہیں تھا لیکن وہ عام لوگوں سے سوا تھا۔ بھاری بھر کم جسم، بڑی بڑی مونچھیں، سردیوں میں سر پر بندر ٹوپا اور گرمیوں میں ننگے سر۔ ہمیشہ ہی شلوار قمیص میں ملبوس اور ہمیشہ ہی بیٹھا ہوا، اپنے حجم سے متناسب چارپائی یا کرسی پر۔ میں نے اسے چلتا ہوا کبھی نہیں دیکھا تھا اگرچہ وہ معذور یا مفلوج نہیں تھا، بہرحال سست ضرور تھا۔ اس کی آنکھوں سے ہوس، بیچارگی اور دبی دبی شہوت ٹپکتی تھی۔ پچاس سے اوپر کا سن تھا اس کا۔ کبھی کبھار اس کی گود میں ایک چھوٹا بچہ بھی ہوتا تھا۔ پوتا تو بہرحال نہیں تھا ممکن ہے نواسا ہو یا کسی رشتے دار کا بچہ ہو۔ وہ دیکھتا تھا تو نظریں گاڑ کر دیکھتا تھا اور دیکھتا بھی کمسن لڑکوں کی جانب۔ اس کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ شہوانی مفعولیت کا عادی ہے۔ مجھ جیسے شریف بچے تو مرغی کے پروں سی لمبی لمبی مونچھوں والے بشیر قصائی کی مخصوص کھنکار سے ہی گھبرا جاتے تھے کیونکہ اس کے ساتھ لڑکوں سے جنسی فعالیت کا لیبل چسپاں تھا۔ چال گڑبڑا جایا کرتی تھی۔ اور پھر مفعول، وہ بھی اتنی عمر کا، اتنا بھدا اور اتنا موٹا۔ الامان۔ یہ صاحب بھی پٹھان برادری سے تھے۔ ڈاکٹر نیاز کے مطب کے نزدیک نیشنل بینک کی عمارت کے سامنے ایک ٹال کے باہر ان صاحب کا ٹھکانہ ہوتا تھا۔ صبح سے شام تک وہیں برجمان رہتے تھے البتہ گرمیوں میں دوپہر کے وقت وہ پگھل جانے کے حوف سے غائب ہو جایا کرتے تھے۔

ان کا دیکھنے کا انداز ہی زبان خلق کے نقارہ خدا ہونے کی دلیل تھا۔ وہ اچھے بھلے زمیندار تھے اور بس۔ ان کے رویے، عادات، طرزعمل سبھی اس طرح کے تھے جیسے کسی کے خواہاں ہوں اور ایسے شخص کے جو ان کے دکھ کا کم از کم عارضی مداوا ہی کر سکے۔

اس زمانے میں عورتیں اور لڑکیاں تو ساری ہی برقعہ پوش ہوتی تھیں یا گھروں میں مقید۔ انسانی جبلت کی اضافی تکمیل کی خاطر اہل یہود کے ادوار کے پیغمبر حضرت لوط کے دور میں گرم راکھ اور کنکروں میں دب کر صفحہ ہستی سے مٹ جانے والوں کے اطوار کو ہی مردانگی اور سروری کا عنصر جانا جاتا تھا۔ نوجوان ہوتے ہوئے لڑکے کے گلے میں بازو حمائل کرکے چلنا فخر سمجھا جاتا تھا۔ ہمیں یہی تربیت تھی کہ سبھی دنیاوی کام گناہ ہیں اور خدا کے غضب کو آواز دینے کا باعث۔ اس لیے میں بشیر قصائی کے کھانسنے سے تو ڈرتا سو ڈرتا تھا لیکن اس موٹے خان کی چبھتی ہوئی نظروں سے مجھے اپنے بدن پر مکڑیاں کلبلاتی ہوئی محسوس ہوا کرتی تھیں۔ اس کے باوجود میں اس کو عام انسانوں سے ماورا سمجھتا ہوں جو اپنی احتیاج کو چھپانے کا جتن کرنے سے قاصر تھا۔ شاید اسے اپنے جیسے اور بہت سے لوگوں کی طرح منافقت کا لبادہ اوڑھنا نہیں آتا تھا۔ وہ اوروں سے مختلف تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).