خواتین کا عالمی دن اور پھر اسکے بعد؟


بہت شور ہوتا ہے، سرکاری اور غیر سرکاری خواتین تنظیموں کی جانب سے آیا آیا خواتین کا عالمی دن، 8مارچ کا دن آتاہے، پاکستان میں غیر سرکاری تنظیمیں مشعل بردار جلوس نکال کر، دوچار نعرے لگاکر دلوں کی بھڑاس نکال لیتی ہیں۔ میڈیا والے، شوبزنس کے خواتین و حضرات کو بلاکر باتیں کرلیتے ہیں۔ اخبار والے، پرانی ، نئی تصویروں کے ساتھ خواتین کو انکا ماضی یاد کراتے ہیں۔

سرکار سینیٹ کے سلسلے میں مصروف تھی، عورتوں کا مسئلہ ، زرداری صاحب کےلئے بھی کوئی خاص ضروری نہیں۔ کرلیا میں نے اور آپ نے عورت مارچ ، اسکے بعد؟

یہ بالکل اسطرح کہ کالجوں میں آج سے پچاس برس پہلے بھی چائی ریس یا رسہ کھینچنے کا مقابلہ ہوتا تھا ، آج بھی کوئی نئی بات شامل نہیں۔اقوام متحدہ نے اس سال کا نام دیا تھا’’ آگے بڑھنے کا راستہ‘‘ دیکھنا یہ تھا کہ آخر گزشتہ ایک سال میں سماجی اور قانونی طور پر کیا ہوا، کیا کامیابیاں ہیں، کیا خامیاں ہیں۔ مثال کے طور پر اس سال پاکستان کے بہت سے شہروں میں خواتین نے رکشہ، موٹر سائیکل اور ٹیکسی چلانے کواپنی معیشت کے لئے ضروری سمجھا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ سارے میڈیا والے، ان کی کہانی سنتے۔

یہ بھی ہوا کہ بچوں پر زیادتی کے واقعات کے بعد، بہت لوگوں نے اپنے طور پر ایسے کورسز شروع کئےکہ جہاں بچیاں خاص طور پر خودمدافعتی سیکھ سکیں۔ یا پھر جیسے کراچی میں کچرا اٹھاکر ، ری سائیکل کرنے والی فیکٹریوں تک پہنچانے کا اہتمام کرکےاپنے لئے کاروباری راستوں کو اختیار کیا ۔ کچھ نوجوانوں نے دستاویزی کارٹون اور چھوٹی فلمیں بناکر اسکو بزنس کا رنگ دیا بلکہ اسے معتبر اور معزز پیشے کے طور پر اپنایا۔ علاوہ ازیں، کچھ اداروں اور صوبوں نے خواجہ سرائوں کو ، تربیت دے کر نوکریوں میں شامل کرنے کا منصوبہ بنایا ہے، ایسے لوگوں کے ساتھ گفتگو کی جاتی ۔

الیکشن کمیشن نے تو حد کردی جب پوچھا کہ آپ’’ مرد خواجہ سراہیں کہ خاتون‘‘۔ اسکے علاوہ ایدھی سینٹر جاکر، ان سےپوچھا جاتا کہ کسی مدد کی ضرورت ہے تو بتائیں ۔ ان کے لئے ہمارے نوجوان بچوں کو ترغیب دلا کرلایا جاتا اور ان کے کام کو سراہا جاتا، مقامی سطح پر الیکشن میں حصہ لینے کے لئےعورتوں کو ترغیب دی جاتی کہ یہ سال پاکستان میں الیکشن کا سال ہے۔

جس طرح ترکی میں 1500خواتین نے جمع ہوکر شام کے7ہزار مریضوں میں دوائیاں تقسیم کرنے کےلئے ، 8مارچ کا دن مقرر کیاتھا۔ ہم بھی کشمیر میں امن کے لئے ، پاکستان اور ہندوستان کے سفارت خانوں کے سامنے اپیل دائر کرتے، اقلیتوں کی شکایتیں خاص کر عورتوں کے بارے میں سنتے ، پولیس خواتین افسروں کو شکایت ہے کہ مرد سپاہی انہیں سیلوٹ نہیں کرتے ۔

ایسے واقعات کی نشاندہی کی جاتی، عورتیں جس طرح فتنہ گروں کو جذباتی ہوکر اپنے زیورات دینے کے بعد ، اب کئی سالوں سے پچھتا رہی ہیں۔ پھر ایسی کوئی غلطی نہ کر بیٹھتیں۔ اخبار والے 8مارچ کے لئے جن 50عورتوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ اس میں علم وادب ، مصوری اور موسیقی سے متعلق، نئے رحجانات پیش کرنے والیوں کو سامنے لاتے ، کب تک عابدہ پروین اور بشریٰ انصاری ہی کو منتخب کئے جائو گے۔ زمیں اور بھی آسماں اور بھی ہیں۔

میں پچھلے ہفتے حافظ آباد کی دیہی عورتوں سے ملنے گئی تھی ۔ ان خواتین سے میں نے پوچھا ’’ آپ8مارچ کی اہمیت جانتی ہیں‘‘۔ اس میں پڑھی لکھی اور ان پڑھ دونوں طرح کی عورتیں تھیں۔ سب اس لفظ سے ناواقف نکلیں۔ جب بتایا کہ یہ دن عورتوں کے لئے بہت اہم ہے، توسب یک زبان بولیں ’’ ہمیں بھی کام دلوائو۔ یہ کھیتی بچوں کی پڑھائی کے لئےکافی نہیں ہے‘‘۔

کراچی کی مچھر کالونی جیسے پاکستان کے دوسرے شہروں میں بھی ایسے علاقے ہیں، جہاں ایک کمرے میں سات بچے اور ماں باپ رہتے، بیماریوں کی آما جگاہ ہیں آخر ان ڈھائی کروڑ ان پڑھ بچوں کی تعلیم کے لئے کون آگے بڑھے گا علاوہ ازیں ان عورتوں کی کون مدد کرے گا جو تیزاب کے جھلسے ہوئے چہروں کو نہ صرف مسکراہٹ کے ساتھ واپس لانا چاہتی ہیں، بلکہ ملک کے لئے کار آمد بننا چاہتی ہیں۔ ہمسایہ ملک میں ایسی خواتین کو فیشن شو میں پیش کیا گیا اور ہم ۔۔۔!

اور پھر سب سے بڑھ کر، میری عمر کی خواتین کے مسائل تنہائی لاچاری اور بڑھاپے کی کمزوریاں،جن کو دوسرا ہٹ میسر نہیں۔ہمارے ملک میں بوڑھے اور ریٹائرڈ لوگ تھڑوں،دکانوں،چوپال اور چھوٹے ہوٹلوں میں سامنے بچھے پلنگوں پر بیٹھ کر، لوگوں سے باتیں کرتے اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرلیتے ہیں۔ گھر میں بیٹھی عورت کے لئے اب تو ٹی وی پربھی ضمیر فروشی کے علاوہ کچھ بھی نہیں، سیاسی جلسوں میں بھی کوئی نئی بات نہیں، انگلستان میں توباقاعدہ تنہائی کی وزارت قائم کرنے کی باتیں کی جارہی ہیں۔ ہمارے یہاں یہ موضوع لائق توجہ ہی نہیں سمجھا جاتا۔ نانیاں، دادیاں، نہ چاہتے ہوئے بھی مشترک خاندانوں میں آیائوں کی سی زندگی گزارتی اور بظاہر خوش رہتی ہیں۔

ا ب آئیے ایک اور رخ سے عورتوں کے عالمی دن کے منظر اور پیش منظر کو دیکھیں، اس دن مرد، اپنی ذاتی اور اجتماعی زندگی میں کیا کرسکتے ہیں یا کیا کرتے ہیں۔ ویسے تو یہ ہمارے جیسے ملک کے لوگوں کے سوچنے کی بات ہی نہیں ہے کہ اب بہت سے نوجوان مرد، ویلنٹائن ڈےپر بیوی کے لئے کبھی تحفہ کبھی باہر سیر کرانے ، کھانا کھلانے لے جاتے ہیں۔

ہم نے 8 مارچ کو، بہت سے مردوں سے پوچھا’’ آپ کیا کرتے ہیں‘‘۔ جواب تھا آپ کے لیکچر سنتے ہیں۔ کپڑے جھاڑ کر، کانوں پر ہاتھ پھیر کر اٹھ جاتے ہیں‘‘۔ پھر ہم سنتے آئے ہیں۔ عورت ، مرد، گاڑی کے دوپہیے ہیں۔ دونوں کو برابر چلانا پڑےگیا۔ یہ سنتے سنتے بڑے ہوگئے۔ یہ بات سوفی صد درست ہے کہ اس وقت عورت کوماں بننا ، بیوی بننا، نوکری اور گھر، چاروں خانے دن رات مصروف رہ کر بھی کیا ملا،کہ ملاتو ان خواتین کو سینئرشپ جو رئوسا میں شامل ہیں۔ ان کے لئے تودنیا میں بھی جنت ہے!

بشکریہ جنگ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).