کیا عام انتخابات ہوں گے؟


سپریم کورٹ کے حکم پر پہلے بلدیاتی انتخابات ہوئے اور پھر 19 سالوں بعد مردم شماری۔
چھٹی مردم شماری کے عبوری نتائج کے مطابق اگلے عام انتخابات کے لئے ابتدائی حلقہ بندیوں کا اعلان بھی کردیا گیا۔
لیکن اصل سوال یہ ہے کہ ”کیا اگلے عام انتخابات ہوں گے“؟

بلوچستان میں ہونے والی حکومتی تبدیلی اور پھر سینیٹ میں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف کا غیر فطری اتحاد۔ ثابت کرتا ہے کہ اپوزیشن جماعتوں سمیت دیگر غیر سیاسی طاقتیں بھی پاکستان مسلم لیگ نواز سے خوفزدہ ہیں۔

جولائی 2017 میں سپریم کورٹ کی طرف سے اقامہ رکھنے اور بیٹے کی کمپنی سے تنخواہ نا لینے پر سابق وزیراعظم کو نا اہل کیا گیا۔ جبکہ شریف خاندان کی جائیدادوں کی تحقیقات کے لئے ریفرنسز نیب کو بھجوا دیے گئے۔ جن کی تحقیقات میں 6 ماہ گزرنے کے بعد سپریم کورٹ کی طرف سے مزید 2 ماہ کا وقت دے دیا گیا۔
سپریم کورٹ کی طرف سے دیے گئے یہ 2 ماہ مئی میں ختم ہوں گے۔ جبکہ نواز لیگ حکومت کی مدت 31 مئی کو مکمل ہوجائے گی۔ جس کے 2 ماہ کے اندر اگلے عام انتخابات منعقد کروائیں جائیں گے۔

2 ماہ بعد نیب کا فیصلہ ایسے وقت میں آئیگا۔ جب انتخابی ماحول مکمل طور پر گرم ہوچکا ہوگا۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے حتمی حلقہ بندیاں کردی گئی ہوں گی۔ سیاسی جماعتوں کی طرف سے امیدوار سامنے آچکے ہوں گے۔ قام مقام صوبائی وزرائے اعلی اور وزیراعظم منتخب ہوچکے ہوں گے۔ لہزا ایسے موقع پر سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کے بچوں کے خلاف ممکنہ فیصلے یقینی طور پر نواز لیگ کو نقصان پہنچائیں گے۔

سابق وزیراعظم نواز شریف کی نا اہلی کے بعد ”مجھے کیوں نکالا“ کا بیانیہ پیش کرنے والے نا اہل وزیراعظم اور ان کی صاحبزدادی مریم نواز کی مقبولیت میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے۔ ایک طرف اگر نیب میں دائر ریفرنسز کی سماعتوں میں باپ بیٹی کی مسلسل پیشیوں کی وجہ سے نا اہل وزیراعظم کا بیانیہ مضبوط ہو رہا ہے۔ تو دوسری طرف اپوزیشن جماعتوں کا غائبی طاقتوں تلے ایکا نواز شریف کی مقبولیت میں اضافے کا سبب بن رہا ہے۔

موجودہ حالات میں اگر دیکھا جائے تو نواز شریف کی نا اہلی کے بعد وزیراعلی پنجاب کو نواز لیگ کا سربراہ منتخب کرلیا گیا ہے۔ جو کہ یقینی طور نا اہل ہوکر مارے مارے پھرنے والے نا اہل وزیراعظم کی نسبت قابل قبول ہیں۔ جبکہ حکومتی دور تقریباً مکمل ہونے کے بعد نواز لیگ کے وہ اراکین اسمبلی دوسری جماعتوں اور خاص کر تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کررہے ہیں، جنھیں اگلی حکومت تحریک انصاف کی دکھائی دے رہی ہے۔

ان مفاد پرستوں کی تحریک انصاف میں شمولیت یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ اگلی حکومت جس مرضی سیاسی جماعت کی آئے۔ یہ طے ہے کہ نواز لیگ کی نہیں ہوگی۔ ایسے میں ان سیاسی مفاد پرستوں کے لئے خاص کر پنجاب میں نواز لیگ کے بعد تحریک انصاف ہی بہترین آپشن بچتی ہے۔ کیونکہ پنجاب میں پیپلز پارٹی کی پوزیشن اتنی پتلی ہے کہ پیپلز پارٹی کو بذریعہ انتخابی ہیرا پھیری بھی نشستیں دلوانا ممکن نہیں۔

ان حالات میں نواز شریف اور مریم نواز کے جلسوں اور سوشل میڈیا کنونشنز ظاہر کرتے ہیں کہ نواز لیگ کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کا ایکا اگلے انتخابات میں نواز لیگ کی پوزیشن کو مستحکم کررہا ہے۔ جبکہ نیب میں دائر شریف خاندان کے خلاف ریفرنسز میں 2 ماہ کی توسیع سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اگر ان ریفرنسز کے فیصلے بھی ممکنہ طور پر نواز شریف اور مریم نواز کے خلاف آئے۔ تو نواز لیگ کو ان فیصلوں کا نقصان ہونے کی بجائے فائدہ ہوگا۔

بلوچستان اسمبلی میں تبدیلی، سینیٹ انتخابات کے نتائج، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کا بذریعہ ان دیکھی طاقتوں غیر فطری اتحاد اور سب سے بڑھ کر نواز شریف اور مریم نواز کی مقبولیت، اگلے انتخابات کے انعقاد کو انتہائی مشقوق بنا رہی ہے۔ لیکن بلوچستان اور سینیٹ میں بذریعہ ہارس ٹریڈنگ مفاد پرست خریدے تو جا سکتے ہیں۔ مگر اگلے انتخابات میں پنجاب کے نتائج میں ایک حد سے زیادہ ہیری پھیری نہیں کی جاسکتی۔ جس کی وجہ سے اگلے انتخابات کا بروقت انعقاد کھٹائی میں پڑتا لگ رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).