نسیم سید کی زبانی شمالی امریکہ کے حقیقی باشندوں کے گیت


نسیم سید ہمہ جہت فن اور شخصیت کی مالک ہیں۔ ادیبہ، شاعرہ، محقق، نقاد اور مترجم۔ ہر فن میں کمال۔ ایسی نابغہء روزگار شخصیات اردو ادب کا سرمایہ ہیں۔ برسوں سے کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان دنوں پاکستان آئی ہوئی ہیں۔ پچھلے دنوں ہمارے خاندان کو ان سے ملاقات اورہماری لائبریری کوان کی کتاب ” یورپین نو آبادیات کے ایبو ریجنل ادب پر اثرات ‘‘ کی شمولیت کا شرف حاصل ہوا۔

نسیم سیّد کی کتاب میز پر کھی ہو یا شیلف میں اس کے سرورق اور عنوان میں جانے ایسا کیا ہے کہ ہاتھ اسے تھامنے پر مجبور ہو جا تے ہیں۔ اور کتاب کے صفحات دیکھ کر خیال آتا ہے کہ بس ایک دو گھنٹے بعد اس کتاب کے مطالعے سے فارغ ہو لیں گے۔ لیکن شہناز شورو کی تحریر میں اس کتاب سے متعلق جو کچھ ہے، وہ قاری کے دل کی دھڑکنوں کو بے قابو کر دیتا ہے۔ شہناز شوروخود ایک خوب صورت لکھا ری ہیں۔ اس کتاب کے دیباچے میں ” محبت، بغاوت اور نظمیں پرانی نہیں ہوتیں ‘‘ کے عنوان سے وہ لکھتی ہیں۔ ’ ’ آج کے ” مہذب یورپ ‘‘ کے تہذیبی ڈھانچے پر نہ جانے کتنی اقوام کے بہتے لہو سے نہ مٹنے والے خون کے دھبے، ہمیشہ انہیں یا د دلاتے رہیں گے کہ ان کی تہذیب، بے شمار بے گناہوں کے خون سے رنگی ہوئی ہے۔ تاریخ کا یہ زلت آمیز دور جن خطوں اور تہذیبوں نے دیکھا ہے ان میں ہم بد بخت بھی شامل ہیں، مگر ایک فرق کے ساتھ، ہم آج بھی سامراج کے گماشتوں اور لٹیروں کو اپنے نجات دہندہ سمجھتے ہیں، مگر کینیڈا کے حقیقی باشندوں نے بد ترین مظالم سہتے ہوئے بھی اپنے اصل سے اپنا رشتہ نہ توڑا ‘‘۔ آگے چل کر مزید لکھتی ہیں۔ ” مجھے یقین ہے، نسیم سید کی اس کتاب کو سچائی کے پرستار دیوانہ وار پڑھیں گے۔ اس کتاب میں موجود شاعری پڑھ کر تیسری دنیا کے بے شمار شاعر زندہ رہنے والی نظمیں لکھیں گے، جو دھرتی کے اصل وارثوں کو انساف دلوائیں گی۔ وقت قریب آیا چاہتا ہے کہ دنیا بھر کے مظلوم و محکوم عوام مرثیے نہیں، نوحے نہیں، اب بغاوت کے گیت گا ئیں گے ‘‘۔

دل انسان کا ہو یا جانور کا، ایک سا دھڑکتا ہے، تکلیف، دکھ، درد، ازیت، کرب ان احساسات سے ہر زی روح گزرتا ہے، لیکن انسان اور جانور میں بس ایک فرق ہے کہ جانور اظہار نہیں کر سکتا، آنکھیں صرف دیکھتی نہیں، لہوبھی روتی ہیں۔ بے بسی انتہا کو پہنچ جائے تو احساسات زبان بن جا تے ہیں، آنکھیں اور الفاظ با غی ہو جاتے ہیں، جن کے پاس کھونے کو کچھ نہ ہو وہ ہر خوف سے آزاد ہو جا تے ہیں۔

شمالی امریکہ میں 1863 سے مقامی لوگوں پر ان ہی کی زمین تنگ کر دی گئی۔ نو آباد کار یورپین کے حکم پر ایک ہفتے کے اندر ہزاروں کی تعداد میں انہیں قتل کر دیا گیا۔ 1871 تک مختلف علاقوں میں ہولناک قتل و غارت گری کا سلسلہ چلتا رہا۔ مظالم کی انتہا یہ تھی کہ ان لوگوں کو لوہے کی زنجیروں سے جکڑ کر جانوروں کی طرح کھونٹے سے با ندھ دیا جا تا۔ عورتوں کو ریپ کر کے قتل کیا جا نا اس لیے ضروری خیال کیا اج ات کہ کہیں وہ حاملہ نہ ہو جا ئیں۔ انہیں جانورثابت کرنے کے لیے دلیلیں گڑھی گئیں، کہا گیا یہ انسانوں کی طرح بولنا نہیں جا نتے اس لیے یہ قدرت کے عذاب کے مستحق جا نور ہیں۔

تعلیم یافتہ انصاف پسند سفید فاموں نے ان کے حق میں آواز بلند کرنی شروع کی، اور احتجاج زور پکڑتا گیا کہ ان کی جڑیں کسی قدیم درخت کی مانند زمین میں بہت گہری ہیں، جب جب انہیں کاٹا جا ئے گا، یہ اپنی جڑوں سے پھوٹ آئیں گے۔ ان کی حکمتِ عملی نے انڈینز کو انسان بنا نے کا فیصلہ کیا۔ جارج واشنگٹن اور ہنری نوکس نے اس خیال کا اظہار کیا کہ انڈینز کو سفید فام کی جون میں ڈھا لا جا نا ممکن ہے۔ اس خیال کے تحت بچوں کو ان کی فیملی سے الگ اور مکمل طور پر ماں باپ سے تعلق ختم کرنے کے لئے انہیں چرچ کی سرپرستی میں قائم کیے جا نے والے بورڈنگ ہاؤس میں رکھ کر ان کا نام بدلنے اور انگریزی زبان سکھانے کا فیصلہ کیا گیا۔

ہم سمجھ سکتے ہیں کہ وہ بچے جن کو اچانک ماں باپ سے چھین کر الگ کر دیا جا ئے۔ ان کی زبان میں بات کرنے پر پابندی ہو خوف کا ماحول، اور سخت سزاؤں کا خوف ہو تو بچوں کی شخصیت پر کیسے اثرات ہوں گے۔ وہ لکھتی ہیں کہ، مجھے صرف ایک بات کی بہتری نظر آتی ہے کہ انہوں نے وہ زبان سیکھ لی جس نے ان کے وجود کو گالی بنا دیا تھا۔

نسیم سید لکھتی ہیں کہ ” یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آباد کاروں کے تسلط سے قبل انڈینز کی فکری صلاحیت کیا واقعی صفر تھی؟ کیا واقعی وہاں کے باشندے جانوروں کو کھا لینے اور سو جانے کے علاوہ کچھ نہ سیکھ سکتے تھے؟ کیا یہ خاندان کے تصور سے نا واقف تھے؟ کیا یہ عقیدہ، رسم و روج، تہوار وغیرہ کچھ نہ رکھتے تھے؟ یقیناً یے سوالات اہم تھے مجھے بھی ان کا سامنا تھا۔ اور میں حیران رہ گئی جب تلاش کرنے پر مجھیب ایک لا ئبریری سے ایک فوک گیتوں کی کتاب مل گئی۔ وہ گیت جو برسوں سے سینہ بہ سینہ محفوظ تھے۔ انہیں پڑھ کر میں ششدر رہ گئی۔ استعمارکاروں نے جنہیں جانور اور جنگلی قرار دے کر تماشا لگا دیا تھاوہ کیسی گہری بصیرت رکھتے تھے ‘‘

پیشِ نظر کتاب، محترمہ نسیم سیّد کے حساس دل کی ترجمان ہے۔ انہوں نے شاعر کی روح کے اندر اتر کر، ان حالات کو اپنے اندر سمو کر، شاعر کے لہجے کی کڑواہٹ کو اپنے ذہن میں جذب کر کے محسوس کیا ہے، وہی ساری کیفیات قاری پر بھی ان کے ان نظموں کے تراجم پڑھ کے وارد ہو جا تی ہیں۔ سوچتی ہوں ترجمہ کرتے ہوئے وہ اس بے بسی کے احساس کو اپنے اندر کیسے نکال پائی ہوں گی جو ہمیں اس کتاب کی نظموں میں نظر آتی ہے۔ یوں محسوس ہو تا ہے گویا یہ غم نسیم نے اوڑھ لیا ہے۔ انہوں نے ایبو ریجنل باشندوں کے اس ظلم کے خلاف لکھی شاعری سمیٹ کر اسے اردو کے قالب میں اپنی روح سمیت یوں ڈھالا، کہ ان کے جذبات بن کر ان کی تخلیق معلوم ہوتے ہیں۔ ان نظموں میں عام بول چال کے الفاظ نے ان نظموں کو لطیف اورپر اثرکر دیا ہے۔ چند نظمیں دیکھیے۔

ایک سوال
مالک!
کیا تجھے اس بات سے تکلیف نہیں ہوتی
کہ تیرے اور ہمارے درمیاں
ہمیشہ بادلوں کی دھند چھا ئی رہتی ہے؟
۔ ۔

سورج داتا!
اپنے چہرے سے اس دھند کو پوچھو نا!
دھوپ اپنے چہرے کی
ہم کو تاپنے دو نا!
۔ ۔

تمہیں استعمال کے بعد قتل کر دینا ہی منا سب ہے۔
میری ماں نے بتا یا
” ہم اپنے وجود سے شرمندہ تھے
سفید آدمی ہمیں دیکھ کے
نفرت سے ہمارے منہ پر تھوک دیتے
” بد شکل جنگلی عورتیں ‘‘
وہ ہم میں سے کسی کو بھی کسی بھی وقت بے لباس کر سکتے تھے
ہمارے گندے جسم کو استعمال کر کے قتل کر سکتے تھے
یا سڑک پر ہمیں دیکھ کے
اپنی گاڑی سے کچل سکتے تھے
یہ سب کچھ روز کا معمول تھا

مجھے اپنے آپ سے شرم آنے لگی تھی
مجھے یقین ہو گیا تھا کہ میں اتنی بد صورت ہوں
کہ اسی سلوک کی مستحق ہوں
ماں!
مجھے دیکھ
تیری بے عزت کا بدلہ
میرا قلم لے رہا ہے
میری نظمیں تیرا وقار چھین کے رہیں گی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).