دوسِری نظام کا تضاد اور سیاسی بحران  (امتیاز عالم کا ناقابل اشاعت کالم)


دوسِری نظام  (Dyarchy)جو برٹش کالونیل انڈیا میں گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1919ء کے تحت نافذ ہوا تھا اور جس کے تحت صوبائی انتظامیہ کو اصل نوآبادیاتی حکمرانوں اور مقامی نمائندہ حصے میں تقسیم کر دیا گیا تھا آج بھی بعد از نو آبادیاتی دور میں جاری ہے۔ اس کے بھی دو مراکز ہیں جنہیں عام طور پر سیاسی اور عسکری قیادت کہا جاتا ہے۔ اپنی خصلت میں باہمی طور پر متصادم رہتے ہیں۔ بھلے وہ جنرل ضیا الحق تھے اور ان کے وزیراعظم محمد خان جونیجو یا پھر اب منظور نظر وزیراعظم عمران خان اور ان کے سپہ سالار۔ لگتا ہے کہ مقتدرہ کے دو مراکز میں پھر سے ٹھن گئی ہے۔ جو اس دو سِروں والے یا دو طاقتی مراکز کے حامل سیاسی نظام کی سرشت میں ہے۔

بعد از جنرل ضیا غیر مستحکم سول دورانیے میں چار اسمبلیاں اور دو وزرائے اعظم اپنی مدت پوری کیے بغیر گھر سدھارے کہ اس وقت ایک تین سِری ٹرائیکا کا نظام تھا جس کا توازن آٹھویں ترمیم کی بدولت بذریعہ صدر آرمی چیف کے حق میں تھا، صدر مملکت حکومت اور قومی اسمبلی سمیت تمام منتخب اداروں کو برخاست کر سکتا تھا۔ جب آٹھویں ترمیم ختم ہوئی تو پاکستان واپس فوجی بغاوت کے سلسلوں کی جانب مراجعت کر گیا۔ بعد از جنرل مشرف زمانے میں اٹھارویں ترمیم کے ذریعہ جہاں وزیراعظم اور وفاق مستحکم ہوا وہیں صوبوں کا دائرہ عمل وسیع تر ہوگیا۔ نتیجتاً دو منتخب اسمبلیاں اپنی مدت پوری کر پائیں اور تیسری بھی دو تہائی مدت پوری کرنے کو ہے۔ اس دوران بھی دو وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی اور میاں نواز شریف غیر پارلیمانی قوتوں کے ہاتھوں وزارت عظمیٰ کھو بیٹھے۔ اور سہرا چیف جسٹس کے سر پر سجا جس نے ٹرائیکا کی تلخ یاد تازہ کردی۔ لیکن ہر دو ادوار میں ایک قدر مشترک رہی کہ یہ سیاسی و فوجی قیادت کے مابین مستقل اندرونی پاور سٹرگل سے عبارت رہے۔ گویا سیاسی استحکام کے لیے ناگزیر ہوگیا کہ یا تو سیاسی و عسکری قیادت ایک صفحہ پر رہے یا پھر سیاسی قیادت مصالحت پہ مجبور ہو یا پھر راندہ درگاہ کردی جائے۔

میثاق جمہوریت کے عہد نامے کے باوجود اس کام میں معاونت ملی بھی تو سیاسی متحاربین کی باہم چپقلش سے یا پھر عدالتی سرعت پسندی سے۔ اگر صدر آصف علی زرداری کے خلاف میمو گیٹ بنایا گیا تو وزیراعظم نواز شریف کے خلاف ڈان لیکس اور پھر پانامہ پیپرز کا شور شرابہ مچایا گیا۔ پھر بھی کام نہ بنا تو چیف جسٹس افتخار چوہدری اور چیف جسٹس ثاقب نثار دو وزرائے اعظم کے لیے قاضی القزاق بن کر سامنے آئے۔ لیکن یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہر دو بڑی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف وعدہ معاف گواہ بننے کی کوشش میں مقتدرہ کا مہرہ بن گئیں۔ دس برس تک دو جماعتوں کی قدرے مستحکم لیکن نیم مقتدرہ حکومتوں کے تلخ تجربے کے بعد گھڑا بھی گیا تو ایک عجیب الخلقت ہائبرڈ نظام جس کا مرکزی مہرہ وزیراعظم کو بنایا گیا کہ قومی سلامتی کی ریاست کا کاروبار عسکری قیادت کے حسب منشا چلے۔ ٹرائیکا کے تحت جنرل ضیا اور وزیراعظم جونیجو کی جوڑی چلی، نہ اب سلیکٹر اور سلیکٹڈ کا ساتھ چل پارہا ہے اور اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتیں دوہرے نظام کی اندرونی کشمکش سے فیضیاب ہونے کے لیے اپنے اپنے ہدف بدلنے پر مائل نظر آرہی ہیں۔ دو سِروں والے نظام کا اصل تضاد اپنی جگہ برقرار ہے اور جاری رہے گا تاآنکہ آئینی طور پر قانونی مقتدر اعلیٰ، منتخب وزیراعظم اور انتظامیہ کے تحت عسکری اداروں کے مابین رشتے یا سول ملٹری تعلقات کو آئین کی منشا کے مطابق ڈھال لیا جائے۔ بدقسمتی سے آئین کی منشا اور طاقت کے عدم توازن میں بڑا تفاوت ہے۔

موجودہ سیاسی کشاکش میں اگر کوئی اصولی مسئلہ تھا تو وہ وزیراعظم کے آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل کے حوالے سے ان کے صوابدیدی اختیار کا تھا۔ حیرت تو یہ ہے کہ اس پر دو رائے ہیں ہی نہیں، لیکن پھر بھی مسئلہ بن گیا ہے اور ہائبرڈ انتظام خطرے میں پڑگیا ہے جو اپوزیشن کے لیے سود مند ہے۔ اس چپقلش میں بڑے ہی اہم سوال پہلی بار سرعام زیر بحث آ رہے ہیں۔ معلوم یہ پڑا کہ ہماری بیرونی (نیز اندرونی) سلامتی کے اہم ترین ادارے آئی ایس آئی کا آئین و قانون میں کہیں ذکر نہیں بلکہ یہ وزیراعظم کے ایک ایگزیکٹو آرڈر کے تحت نہ صرف وجود میں آئی بلکہ خفیہ پن کے پردوں میں قومی سلامتی کے بڑھتے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے پھیلتی چلی گئی۔ یہ عجب معاملہ ہے کہ اتنے طاقتور اور موثر ترین ادارے کے حوالے سے کوئی قانون ہے اور نہ اس کے دائرہ عمل اور کردار کا کوئی واضح نظام ہے۔ یہ بھی واضح نہیں کہ یہ ایک سویلین ایجنسی ہے یا افواج کا ادارہ ہے؟ اس کا چیف وزیراعظم کو جوابدہ ہے اور تینوں افواج پاکستان سے افسر ڈیپوٹیشن پہ آئی ایس آئی میں بھیجے جاتے ہیں، لہٰذا وہ کسی ایک عسکری ادارے کے چیف کے تحت نہیں ہو سکتے۔ پہلے جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان اور بعدازاں ذوالفقار علی بھٹو کے ادوار میں بیرونی سلامتی کے ساتھ ”اندرونی سلامتی“ تک اس کا دائرہ وسیع تر ہوگیا۔ یوں اس کا سیاسی کردار بڑھتا چلا گیا۔

چالیس سال سے جاری افغان جنگوں اور جہادوں میں شرکت سے اس کا کردار بہت ہی موثر ہوتا چلا گیا اور آئی ایس آئی پاکستان کی سلامتی کا ہر اول دستہ بن گئی۔ بعدازاں جنرل ضیا الحق نے اسے پیپلزپارٹی اور ایم آر ڈی کو دبانے اور اپنا غیر سیاسی نظام مسلط کرنے کے لیے استعمال کیا اور یوں جونیجو لیگ وجود میں آئی جو میاں نواز شریف کے نام سے پنجاب کی بڑی جماعت بن کر ابھری۔ پھر جنرل اسلم بیگ نے پہلے بریگیڈیئر امتیاز بلا کے ذریعہ اور پھر اسلامی جمہوری اتحاد بنوا کر پیپلزپارٹی کا راستہ روکنے اور مسلم لیگ ن کو برتری دلوانے کے لیے آئی ایس آئی کو استعمال کیا۔ اور یہ سلسلہ اٹھارویں ترمیم آنے کے بعد بھی چلتا رہا۔ تاآنکہ ہائبرڈ نظام مسلط کرنا پڑا کہ وزیراعظم نواز شریف نے لمبی جلا وطنی گزارنے کے بعد مقتدرہ کا مہرہ بننے سے انکار کردیا اور وہ آزاد جمہوری راستے پہ چل نکلے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آئی ایس آئی چیف کی تعیناتی کے صوابدیدی اختیار کو استعمال کرتے ہوئے وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے جنرل حمید گل کی جگہ ایک ریٹائرڈ جنرل کلو کو آئی ایس آئی چیف لگایا۔ اسی طرح وزیراعظم نواز شریف نے اپنی پسند کے دو آئی ایس آئی چیف جنرل ناصر اور جنرل ضیا الدین بٹ لگائے لیکن ہر دو وزرائے اعظم رِٹ نہ چلی۔

تو پھر اب قضیہ کیا ہے؟ وزیراعظم عمران خان موجودہ آئی ایس آئی چیف کو گزشتہ جولائی سے ان کے عہدے پر برقرار رکھنے پہ بضد تھے اور مزید چھ ماہ تک رکھنا چاہتے تھے۔ دوسری طرف آدمی میں تھری اسٹار جنرلز کی ریٹائرمنٹ کے حوالے سے نئی تقرریاں یا تبادلے ناگزیر تھے۔ یہ آرمی چیف کا استحقاق ہے کہ وہ کسے تین سٹار جنرل بنائے اور اسے کہاں تعینات کرے۔ لہٰذا ضروری تعیناتیوں کے احکامات جاری کردئیے گئے جس میں جنرل فیض حمید کی بطور کور کمانڈر پشاور کور میں تعیناتی بھی شامل تھی جس کی جنرل فیض حکم عدولی نہیں کرسکتے۔ رہ گیا معاملہ نئے آئی ایس آئی چیف کی تقرری کا تو یہ وزیراعظم کی صوابدید پر ہے۔ تو پھر یہ تنازعہ کیوں کھڑا ہوگیا جس سے پورا ہائبرڈ نظام دہل گیا ہے۔ وسیع تر ناقدین اس بات پر متفق ہیں اور اپوزیشن بھی یہی الزام لگارہی ہے کہ سیاسی انجینئرنگ اور سیاسی مخالفین کا ناطقہ بند کرنے کے لیے آئی ایس آئی کو استعمال کیا جاتا رہا ہے جبکہ عمران خان گورننس میں ناکامی کے باعث ہر حالت میں نہ صرف آئی ایس آئی بلکہ قومی احتساب بیورو، الیکشن کمیشن اور دیگر اداروں میں ایسے سربراہ چاہتے ہیں جو نہ صرف ان کی حکومت کا آلہ کار بنیں بلکہ ان کی اگلے انتخابات میں کامیابی یقینی بنائیں۔ لہٰذا اب یہ سیاسی محاذ آرائی کا اہم ایشو بن گیا ہے۔ رائے عامہ میں فوج کے سیاست میں مداخلت کے حوالے سے جس تیزی سے منفی فضا بنی ہے تو فوج اس پر آنکھیں بند نہیں کرسکتی۔ لگتا ہے کہ بڑھتے ہوئے عوامی دباﺅ کے باعث فوج نے بطور ادارہ سیاسی رسہ کشی سے علیحدہ رہنے کا فیصلہ کیا ہے جو کہ سیاسی و آئینی نظام کے تسلسل کے لیے خوش آئند ہے۔ اب وزیراعظم جسے بھی آئی ایس آئی چیف لے آئیں، ان کی دال گلنے والی نہیں۔ دو سِری نظام کا ہائبرڈ چربہ بھی بحران کا شکار ہوگیا اور اب سیاست کا ہنگامہ خیز دور شروع ہونے کو ہے، لیکن نتیجہ کیا نکلے گا؟ وہی ڈھاک کے تین پات یا پھر دو سِروں والے نظام کی جگہ پارلیمانی نظام کی بالادستی؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

امتیاز عالم

بشکریہ: روزنامہ جنگ

imtiaz-alam has 58 posts and counting.See all posts by imtiaz-alam

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments