صبح ،صبح جب ٹی وی کھولے، مارننگ شو والی لڑکی بولے


ٹیلی ویژن نامی یہ ڈبہ جو اب دیوار پہ سکرین کی صورت چپکا، مسلسل بولتا ہے، ہنستا ہے، چلاتا ہے اور کبھی (اکثر) بے مقصد ہی بنکارے چلا جاتا ہے، کسی زمانے میں ہماری سماجی زندگیوں میں بڑی اہمیت کا حامل تھا اور وہ زمانے اتنے پرانے بھی نہیں کہ ‘خس و خاشاک زمانے’ ہوں۔

چند دہائیاں قبل جب پی ٹی وی پہ پہلا مارننگ شو آیا تو کسی کے خواب و خیال میں بھی نہ تھا کہ فقط تین دہائیوں کے بعد صبح صبح اسی ٹیلی ویژن پہ ایک ایسا طوفانِ بد تمیزی بپا ہو گا کہ آپ بس آنکھیں پھاڑے دم سادھے دیکھتے ہی چلے جائیں گے۔

مستنصر حسین تارڑ صاحب کا مارننگ شو ظاہر ہے اس زمانے کے لحاظ سے ڈیزائن کیا گیا تھا۔ خبریں، ایکسر سائز، کارٹون، بچوں کی بھیجی ہوئی تصاویر، ایک آدھا ڈرامہ، سب ہی کچھ جو دن کے آغاز پہ طبعیت پہ خوشگوار اثر چھوڑ سکتا ہے اس میں شامل تھا۔

پاکستانیوں کی حسِ لطیف کے بارے میں ایک خواہ مخواہ کی غلط فہمی پہلے سٹیج ڈراموں کے فنانسرز نے اور پھر فلم کے سیٹھوں نے پالی کہ پھکڑ پن اور کم عقلی سے کی گئی باتیں لوگوں کو پسند ہوتی ہیں۔ شاید اس کی ذمہ دار بھی ہماری اردو زبان ہے جہاں ناظرین یا لوگوں کو ‘عوام’ کہا جاتا ہے۔ عوام کا لفظ خاصا سیاسی ہے اور چونکہ مدت سے سیاستدانوں کے زیرِ استعمال ہے اس لیے مکمل طور پہ بساندھا اور بکبکا ہو چکا ہے۔

ٹیلی ویژن چینل کے مالکان نے اپنے دل میں یہ سوچ لیا ہے کہ مارننگ شو عوام دیکھتے ہیں اور عوام میں سے بھی زیادہ تر خواتین اور خواتین میں سے بھی وہ جو صبح کے وقت گھر میں پائی جاتی ہیں۔ اب چونکہ یہ عوام ہیں، خواتین ہیں اور جاب نہ کرنے والی خواتین ہیں تو لازمی ان کی عقل کا خانہ تو خالی ہی ہو گا اور اگر کچھ ہو گا بھی تو بھوسا ہو گا۔ اس خیالی یقین دہانی کے بعد یہ سیٹھ صاحبان کچھ مخصوص سوچ اور ذہانت کے لوگوں کو اسی قسم کے ‘ذاتی خیالات اور رائے’ سے مزید مستفیض کر کے جسے یہ ’مائنڈ سٹارمنگ‘ (آپ کی اور ہماری زبان میں ‘دماغ کا دہی کرنا’ ) کہتے ہیں کے بعد ایک مارننگ شو ڈیزائن کرتے ہیں۔

ٹارگٹ آڈینس یا ہدف شدہ ناظرین طے کر لیے گئے ہیں، ان کی ذہانت اور دلچسپیاں سوچ لی گئیں اور یہ سب کرتے ہوئے کسی ریسرچ، کسی ادارے، کسی ضابطۂ اخلاق کے بارے میں لمحہ بھر کو بھی نہ سوچا گیا۔ اگر کوئی بات پیشِ نگاہ تھی تو ریٹنگ اور بس ریٹنگ۔ اب جو نتیجہ سامنے آیا وہ یہ تھا کہ جادو ٹونے والے بابے، شوہروں کی شکایات، ساس کی چغلیاں، لان کے جوڑے، شادی بیاہ، لڈیاں، بچے، زچگیاں، چھٹی چھوچھکیں، چھلے اور چھلے کے بعد کے مسائل۔

یہ سب زندگی کا حصہ ہے اور ابھی تک کسی نے اس طرح کھل کے ان موضوعات پہ بات نہ کی تھی۔ میں اکثر کوشس کرتی تھی کہ یہ شو دیکھوں اور ان میں سے بھلائی کا کوئی پہلو نکالوں لیکن جب بھی دیکھا یوں محسوس ہوا، ان حساس اور اہم موضوعات پہ اچھی اور معیاری معلومات دینے اور واقعی کسی قسم کی مدد دینے کی بجائے چند مخصوص افراد کی ذات اور سوچ کو ‘برانڈ ‘ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

بچوں کو پالنا واقعی ایک اہم موضوع ہے لیکن اس کو ایک عجیب کم عقلی سے بغیر کسی مناسب حل کے صرف بے سروپا باتوں میں الجھا دیا جاتا ہے۔ شادی بیاہ کا موضوع بھی خاصا دقیع ہے مگر یہاں بھی لڈیوں اور عجیب سی رسموں کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔

ڈرامہ نگار ہونے کی وجہ سے مجھے با رہا ان مارننگ شوز سے براہِ راست سابقہ پڑا اور ہر تجربہ پچھلے سے زیادہ تلخ تھا۔ ان سیٹس پہ آنے سے پہلے سب لوگ اپنے مغز کھوپڑیوں سے نکلوا کے گھر پہ کہیں حفاظت سے رکھ جاتے ہیں کہ کہیں پاس ہوئے تو استعمال نہ کرنے پڑ جائیں۔

اس طولانی تمہید سے آپ سمجھ تو گئے ہوں گے کہ میں کس خاص ‘مارننگ شو’ کی بات کرنا چاہ رہی ہوں۔ شاید میں کبھی ایسا نہ کرتی اگر بات حد سے آگے نہ گئی ہوتی۔ انسانی چہرے اور جسم کے خدوخال پہ بات کرنا، چہروں اور جسم میں ‘حسن’ تلاش کرنا، شاید کسی کو ‘حسِ لطیف’ لگتا ہو مگر میرے نزدیک اس سے بڑی کثافت کوئی بھی نہیں کہ ایک مکمل انسان کو صرف اس کی رنگت یا نقوش یا کسی بھی ظاہری خدوخال کے باعث کسی بھی طرح کے مخصوص رویے کا نشانہ بنایا جائے۔

پچھلے ہفتے ایک نجی چینل پہ، دلہن بنا نے کے مقابلے میں کچھ ماڈلز کے چہروں پہ گہرے رنگ لیپ کر ان کو سجانے کا مقابلہ کیا گیا اور اس کو ایک مشکل کام بیان کیا گیا کیونکہ گہری رنگت والے تو خوبصورت ہو ہی نہیں سکتے۔ قربان جاؤں ان سب کے جن کے دماغ میں اس قسم کے نادر اور نایاب خیالات ہمہ وقت بھنکتے رہتے ہیں۔ درحقیقت اس سب کے پیچھے ایک عجیب سا احساسِ برتری ہے۔ رنگ، پیسے اور شہرت کے ساتھ ساتھ اپنے خود ساختہ تعلیم یافتہ ہونے کا غرور اور اپنے ناظرین کے ‘عوام’ ہونے پہ کامل یقین۔

عرض یہ ہے کہ پاکستان کی وہ خواتین جو یہ مارننگ شوز دیکھتی ہیں ماشا اللہ آ پ سب سے کہیں زیادہ سمجھ دار اور باذوق ہیں۔ آپ کے ریٹنگ میٹر کہاں لگے ہیں؟ اور کیا ان کی ریٹنگ واقعی درست ہے؟ اس کے بارے میں تو میں کچھ نہیں کہہ سکتی لیکن میں اسی پاکستان کی ان لاکھوں خواتین میں سے ایک ہوں جو صبح صبح یہ عقل سے عاری شو بالکل نہیں دیکھنا چاہتیں کیونکہ وہ ‘عوام’ نہیں ‘گھریلو خواتین’ ہیں اور ان ہی کے کندھوں پہ یہ سارا معاشرہ اور اس کی اخلاقیات ٹکی ہوئی ہیں۔ آپ کی زبان میں ‘باس کو ہلکا نہیں لینے کا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).