اسٹیفن ہاکنگ اور ہمارے نقاد


حاشر ارشاد صاحب نے اپنے مخصوص اسلوب میں اسٹیفن ہاکنگ کی موت کے پس منظر میں پاکستانی سوشل میڈیا کی عمومی وحشت ناک حالت کو خوب خوب آشکار کیا ہے۔ انہوں نے اس حالتِ زار کے تین نیم جینیاتی محرکات یعنی احساسِ کمتری، تعصب اورحماقت، اور ایک ذہنی معذوری یعنی علمِ طبیعات کی مبادیات سے مکمل لاعلمی کی کئی شہادتیں فراہم کی ہیں۔ خادم ان چاروں جہتوں میں اس اضافے کی جسارت کرے گا کہ لاعلمی یا معذوری پر تو قابو پایا جا سکتا ہے کہ عمر اور تجربے سے قطع نظر، علم بہرحال محنت اور اکتساب سےحاصل کیا ہی جا سکتا ہے لیکن اس بیماری کا کیا علاج ہے اگر اپنی معذوری پر فخر ظاہر کیا جائے اور تعصب کو ایک افضل قدر کے طور پر پیش کیا جائے؟

ہم جانتے ہیں کہ ہاکنگ کا بنیادی میدان نظری طبیعیات تھا جس میں تمام تر دعوؤں کی اساس ریاضیاتی خاکہ بندی پر ہی رکھی جاتی ہے۔ مغربی پریس میں اُن کے علمی ورثے کی اہمیت پر بہت کچھ لکھا گیا لیکن راقم کی رائے میں تیسری دنیا کے ہم جیسے مشرقی ممالک میں ابہام پسندی اور تعین پسندی کے مابین اس جنگ کی اہمیت دو چند ہے۔ اس کی بنیادی وجہ ہمارے ہاں ریاضی اور طبیعیات سے اہل فلسفہ و ادب اور اہلِ مذہب کا تخلیقی شغف کم سے کم ہونا ہے۔ با الفاظ دیگر ہمارے ہاں ریاضی یا اس سے جڑا ایک مخصوص تعین پسند رجحان تاحال ثقافت میں جگہ نہیں بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ اس موقع پر Brief History of Time کے آخر میں وہ چند سطور پڑھ لینا مفید ہو گا جو ہاکنگ کے ذہن میں فلسفے اور سائنس کے درمیان اس علمیاتی کشمکش کو ظاہر کرتی ہیں۔

ہاکنگ کا کہنا تھا کہ کائنات پر غور و فکر کرتے سائنسدانوں نے تاحال خود کو ”کیوں“ سے دور رکھتے ہوئے ”کیسے“ پر توجہ دی ہے اور”کیوں“ کا میدان اہلِ فلسفہ کے لیے چھوڑ دیا ہے۔ اٹھارہویں صدی تک اہلِ فلسفہ سائنس سمیت پوری اقلیمِ علم پر براجمان تھے اور کائنات کے آغاز و انجام کے متعلق سوالوں پر استدلال کا حق محفوظ رکھتے تھے۔ لیکن آخر کار سائنس فلسفیوں کے لئے بہت زیادہ ریاضیاتی اور تکنیکی ہو گئی اور یوں سائنس اور فلسفے کے دائرے علیحدہ ہو گئے۔ یہ دائرہ بالآخر اتنا محدود ہوا کہ وٹجنسٹائن کے بقول فلسفے کا بچا کھچا کام اب بس لسانی تجزیہ ہی رہ گیا ہے۔ ہاکنگ نے فلسفے کی موت کا یہ اعلان اس کے بعد بھی متعدد بار کیا۔

اگرمغربی اہلِ فلسفہ کی جانب سے ہاکنگ کی تنقید کے جوابات پر ایک نظر ڈالی جائے تو ہمارے ہاں ان کی موت کے بعد اس نہج پر ہونے والے تنقیدی مباحث پر ہنسی بھی نہیں آتی۔ آخر ہنسنے کے لیے بھی کسی ایسی لطافت کو تلاش کرنا ضروری ہے جو ظریفانہ جہت رکھتی ہو۔ ہمارے ہاں کے مخصوص تنقیدی مبحث کی ایک اعلیٰ مثال وہ دلچسپ خرد دشمن سماجی تحریک ہے جسے کافی عرصے سے خرد افروز تصوراتی تنقید یا اصطلاحی الفاظ میں ایک نیم مارکسی Ideologiekritik کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ تو خیر ایک الگ بحث ہے کہ یہ تنقید کس حد تک مارکسی ہے، فی الحال تو بس یہی ظاہر ہوتا ہے کہ کہیں کی اینٹ اور کہیں کا روڑا لے کرکسی نادیدہ ہدف پر چاندماری کی جا رہی ہے۔ مذہب بمقابلہ سائنس کےمشہور عوامی محاذ کے برعکس یہ محاذ فلسفے اور سائنس کے بیچ میں ہے اور پاکستانی سوشل میڈیا پر خود کو ”فلسفی“ یا ”فلسفہ شناس“ یا ”فلسفہ دوست“ یا ”سماجی سائنس“ کے علم بردار ظاہر کرنے والے طبقات تیزی سے اس بیماری کا شکار ہوتے نظر آتے ہیں۔

طریقۂ واردات یہ ہے کہ سائنسی علمیات کو لبرل ازم کی اقدار یا سرمایہ دارانہ مقاصد تک محدود کر دیا جائے اور پھر مابعدالجدید فلسفیوں اور فلسفۂ سائنس کے نراجیت پسند اہلِ علم و تحقیق کے اقوالِ زریں کو بنیاد بنا کر سائنسی علمیات اور اس سے حاصل کردہ علم کو ایک مکروہ شے ثابت کیا جائے۔ سائنسی علمیات کے مذہبی نقادوں کی طرح یہاں بھی مقصد زیادہ سے زیادہ یہی ہے کہ سائنسی علمیات کے برعکس اپنے پاس موجود علمیاتی منہج کو معروضی اور قطعی ثابت کیاجائے اور سماج کو اس سے ملتی جلتی نظریاتی بیڑیوں میں قید کیا جائے جس کی ایک مخصوص تاریخیت پسند جہت کا فلسفیانہ خاکہ کارل پاپر نے اپنی مشہورِ زمانہ کتاب Open Society and Its Enemies (1945) میں کھینچا تھا۔

ظاہر ہے کہ ہمارے ان پاکستانی نقادوں کے اضطراب سے سائنسی علمیات کا تو کچھ بگڑنے والا نہیں کیوں کہ اس پر تنقید کی خاطر تو تحقیق کی ضرورت ہے۔ ہاں پہلے ہی سے ریاضی اور عملی سائنس سےدور بھاگتے، مقامی سوشل میڈیا کے مباحث پر وقت ضائع کرتے نوجوانوں کی شکست خوردہ نفسیات کی تسکین کا سامان اور انہیں عملیت پسند نتائج کی بجائے مبہم نظریات کی بھول بھلیوں میں بھٹکنے پر ایک التباسِ علم کی خوش فہمی میں مبتلا کرنا ضرور ممکن ہے۔ رچرڈ فین مین کےدروسِ سائنس اور ہیگل کے دروسِ تاریخ میں سے کس کی تفہیم پر اپنا وقت لگایا جائے یقیناً ایک مزاجی ترجیح کا معاملہ ہے، لیکن اگر آئلر کی ریاضی اور فورئیر کی خوبصورت تھیوریوں میں غواصی کی بجائے نوجوانوں کو فلسفۂ سائنس کے نراجیت پسند نظریات سے متعارف کروایا جائے اور سائنس کے میدان میں صفر نظری اور عملی تحقیق ہوتے ہوئے سائنسی ”میتھڈ“ کے خلاف سبق پڑھایا جائے تو اسے تعصب کے علاوہ اور کیا کہا جا سکتا ہے!

بہرحال اسٹیفن ہاکنگ کی موت کے پس منظر میں اس بحث کو دوبارہ چھیڑنا فائدے سے خالی نہیں جو خالص اہلِ فلسفہ اور اہلِ سائنس کے درمیان نہیں بلکہ ابہام پسندی اور تعین پسندی یا خالص معروضیت اور خالص موضوعیت کے درمیان محاذ آرائی پر مبنی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس محاذ آرائی میں اسٹیفن ہاکنگ اپنے تمام تر باجواز یا بلاجواز تعصبات کے ساتھ سائنسی معروضیت کے ساتھ تھے۔ آئیے ذرا کچھ تعین پسندی کے ساتھ فلسفے اور سائنس میں سرحد کھینچنے کی کوشش کرتے ہیں ۔

کیا آپ سمجھتےہیں کہ اشیاء کے کسی بھی زیرِ بحث مجموعے کی تعداد کا مسئلہ کائنات کا ایک اہم ترین مسئلہ ہے؟ ہم فرض کر لیتے ہیں کہ آپ اعداد یا عدد کی حقیقت کے بارے میں کسی ابہام کا شکار نہیں اور اس سوال کوکچھ خاص اہم نہیں سمجھتے یعنی آپ کو آم کھانے سے مطلب ہے پیڑ گننے سے نہیں۔ لیکن پیڑ نہ سہی آم تو گننے ہی ہوں گے۔ تو سوال یہ ہے کہ آپ کہاں تک گنتی گن سکتے ہیں، یا دوسرے لفظوں میں سب سے بڑا عدد کیا ہے؟

اگر آپ کا جواب ”لامتناہی“ ہے تو اب ہمیں ماننا ہی ہو گا کہ یہاں قوسین میں دیا گیا یہ لفظ استعمال کرتے ہی آپ کا جواب ایک مخصوص ابہام کا شکار ہو چکا ہے۔ امید ہے کہ اگر آپ نے دسویں جماعت میں ریاضی کا امتحان پڑھ لکھ کر پاس کیا ہے تو آپ لامتناہیت کے متعلق اس ابہام کو علامتی اظہار کے کچھ اصولوں میں قید کر کے اشیاء کے بڑے مجموعوں اور اشیاء کے درمیان نسبتوں کے طویل اورنہ ختم ہونے والے سلسلوں کو جمع تفریق کرنے کے چند ضروری قواعد سیکھ چکے ہیں۔ اگر آپ نے دسویں سے آگے فزکس پڑھی ہے تو اب آپ ان قواعد کی مدد سے کئی ہمارے اردگرد بکھرے ان گنت عملی مسائل میں ان قواعد کی اہمیت سے آگاہ ہیں۔

فرض کیجیے ایسا نہیں ہے پھر بھی آپ کو پانچویں جماعت کا یہ سبق تو یاد ہی ہو گا کہ جفت اعداد کیا ہوتے ہیں؟ اگر نہیں، تو ہم یاددہانی کرائے دیتے ہیں کہ جفت اعداد وہ اعداد ہوتے ہیں جنہیں دو پر تقسیم کیا جا سکے یعنی دو، چار، چھ، آٹھ، دس، وغیرہ۔ تو اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کل اعداد ”لامتناہی“ ہیں تو جفت اعداد کتنے ہوں گے؟ ایک ”معقول“ گمان یہی ہے کہ چونکہ ہر دوسرا عدد جفت ہے لہٰذا ”لامتناہی“ سے آدھے ہوں گے۔ لیکن یہ جواب حتمی نہیں کیوں کہ منطقی طور پر خود بخود ایک اور سوال کو دعوت دے رہا ہے، اور وہ یہ کہ” لامتناہی“ کا آدھا کتنا ہوتا ہے؟ ہم کہہ سکتے ہیں کہ” نصف لامتناہی“ لیکن جوابات کا یہ طریقہ بہت جلدی تناقضات کا شکار ہو جائے گا اور خود تعداد کے تصور کے بارے میں چند لاینحل اشکالات پیدا کرے گا۔

یاد رکھیے کہ ہم فی الحال نظری اور مابعدالطبیعاتی مباحث سے صرفِ نظر کرتے ہوئے سو فی صد قطعیت سے یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ بالفرض اگر یہ مسئلہ حل نہ ہو سکے تو ارد گرد موجود خالصتاً طبیعیاتی یعنی مادی دنیا میں ایک بھونچال ساواقع ہو سکتا ہے۔ مثلا ً ہو سکتا ہے کہ جس موبائل فون پر آپ برطانیہ سے براہِ راست تیسری دنیا میں موجود اسلام کے مضبوط قلعے میں سائنس کی تنقید میں لکھے گئے وحشت ناک مابعدالجدید فلسفے مسلسل نشر کر رہے ہیں وہ ایجاد ہی نہ ہو! یا پھر وہ تمام حسابی عمل ہی ممکن نہ ہو سکے جو انٹرنیٹ کی ایجاد کے لیے ضروری ہے! اگربالفرض ایسا ہی ہوا تو آپ کی روزی روٹی خطرے میں پڑ جائے گی جس نے تاحال مابعدالجدید فلسفیانہ موشگافیوں سے باہر عملی دنیا میں قدم رکھ کر ”شے“ اور ”اشیاء“ کے درمیان نسبتوں سے تاحال کوئی سروکار رکھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔

اگر آ پ یہاں تک پہنچ چکے ہیں تو یقیناً یہ سوال اٹھانے پر مجبور ہوں گے کہ آخر ”لامتناہی“ کیا ہے؟ ظاہر ہے کہ ہم نے اس کی تعریف ہی ایک سب سے بڑے عدد یعنی اعداد کے”لامحدود“ سلسلے کی آخر حد کے طور پر کی تھی۔ لامحدود سلسلے کو حد فراہم کرنا ایک واضح منطقی اشکال ہے۔ ہم اس اشکال سے نکلنے کی خاطر رسمیت پسند سمجھوتے کرتے ہیں اور کچھ تعریفات کو ماقبل تجربی مان کر ہی آگے بڑھتے ہیں۔ یہاں عملی اور نظری ریاضی کے دائرے علیحدہ ہو جاتے ہیں۔ اگر آپ سائنسدان یا انجینئر ہیں تو جانتے ہی ہوں گے کہ” لامتناہی“ کو دو پر تقسیم کیا جائے تو جواب ”لامتناہی“ ہی آتا ہے۔ لیکن اگر آپ ایک نظری ریاضی دان ہیں تو یہ جواب کافی تفصیل کا محتاج ہے اور ایسے علامتی یا رسمی سمجھوتوں پر اکساتا ہے جو ایسی نظریہ بندی لازم کرتے ہیں جو داخلی منطقی اشکالات سے پاک ہو۔ لیکن اس نظریہ بندی کے دائرے سے باہر ایک عملی دائرے میں یہ سوال اپنی جگہ جوں کا توں موجود رہتا ہے کہ اعداد کے لامحدود سلسلوں کو حدیں کس طرح فراہم کی جائیں؟ اس عملی دائرے میں اس سوال کا جواب آج پوری دنیا میں ہائی اسکول کے نصاب کا حصہ ہے۔
مضمون کا بقیہ حصہ پڑھنے کے لئے ”اگلا صفحہ“ پر کلک کریں

عاصم بخشی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

عاصم بخشی

عاصم بخشی انجینئرنگ کی تعلیم و تدریس کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ ادبی تراجم اور کتب بینی ان کے سنجیدہ مشاغل ہیں۔

aasembakhshi has 79 posts and counting.See all posts by aasembakhshi