حکومت کوNGOs  پر ٹیکس لگاتے ہوئے شرم آنی چاہیے


چکوال کے ایک دیہاتی علاقے میں ایک این جی او آنکھوں کا ایک ہسپتال چلاتی ہے اور غریب مریضوں کا مفت علاج کرتی ہے۔ یہ سہولت خاص طور پر ان بزرگ عورتوں اور مردوں کے لیے بہت اہم ہے جن کی آنکھوں کی روشنی عمر کی وجہ سے چلی جاتی ہے اور وہ معذور ہو کر چارپائی پر بیٹھ جاتے ہیں۔ انہیں آنکھوں کی ایک معمولی سی سرجری کی ضرورت ہوتی ہے لیکن وہ سفر اور سرجری کے اخراجات افورڈ نہیں کر سکتے۔ آنکھوں کا یہ ہسپتال پچھلے پچیس برسوں سے ہزاروں ایسے غریب بزرگ عورتوں اور مردوں کی آنکھوں کی روشنی واپس لا چکا ہے۔

بزرگوں کی خدمت کے ساتھ ساتھ یہ ہسپتال بچوں کی آنکھوں کا بھی خاص طور پر خیال رکھتا ہے۔ پچھلے پچیس برسوں میں سرکاری سکولوں میں پڑھنے والے ہزاروں بچوں کو آنکھوں کے حوالے سے ان کی زندگی کا پہلا چیک اپ مہیا کر چکا ہے۔ تہذیب یافتہ معاشروں کی ذمہ دار حکومتوں نے یہ بندوبست کیا ہوتا ہے کہ بچوں کو یہ چیک اپ اڑھائی سال کی عمر میں مل جائے لیکن ہماری حکومتوں کی نااہلی کی وجہ سے ہمارے ہاں یہ نظام نہیں ہے تو چکوال ضلح میں یہ ذمہ داری NGO نبھاتی ہے۔ ہسپتال نے اس کے لیے ایک پائیدار نظام بھی قائم کر دیا ہے۔ سرکاری سکولوں کے سیکڑوں اساتذہ کو تربیت دے دی گئی ہے تاکہ وہ بچوں کی ابتدائی سکریننگ کر سکیں اور ضرورت مند بچوں کو ہسپتال ریفر کر دیں۔ ہسپتال نے غریب گھروں کے ہزاروں بچوں کو مفت عینکیں بھی مہیا کی ہیں۔

اس NGO اور ہسپتال کا سب سے انوکھا اور زبردست کام ایک آپٹومیٹری کالج کا قیام ہے جو کہ چار سالہ ڈگری پروگرام چلاتا ہے۔ یہ آپٹومیٹری کالج یونیورسٹی ہیلتھ سائنسز سے منظور شدہ ہے۔ یہاں کی ہونہار طالبات اور طلبا پنجاب بھر میں پوزیشنز حاصل کرتے ہیں۔ آپٹومیٹری کالج بھی کاروبار یا منافع کمانے کے لیے نہیں ہے۔ اس میں جو طالبات اور طلبہ افورڈ کرتے ہیں ان سے ایک معمولی سی فیس چارج کی جاتی ہے اور باقیوں کے لیے سکالرشپ کا بندوبست کیا جاتا ہے۔ اس کالج سے ڈگری حاصل کرنے والے سب لوگ ملک کے اندر اور باہر بہترین روزگار پر ہیں۔

یہ سارے کام کرنے کے لیے کروڑوں روپے سالانہ خرچ ہوتے ہیں۔ یہ پیسے اس NGO اور ہسپتال بنانے اور چلانے والے رضاکار اپنی جیب سے خرچ کرتے ہیں اور دوسرے اچھے اور درد دل رکھنے والے لوگوں سے ڈونیشن بھی لیتے ہیں۔ حکومت نہ صرف یہ کہ اس سارے کام کے لیے ایک روپیہ بھی نہیں دیتی بلکہ ٹیکس لیتی ہے۔ یعنی ایک طرف تو ہسپتال غریب گھروں کی عورتوں، مردوں اور بچوں کو یہ ساری سہولیات بغیر کسی حکومتی امداد کے مفت مہیا کرے اور دوسری طرف ٹیکس بھی دے۔ یعنی حکومت کو علم ہے کہ ہسپتال کی کوئی انکم نہیں ہے لیکن حکومت اس صورت حال میں بھی ہسپتال کے اخراجات پر ٹیکس چارج کرتی ہے۔ اور ہسپتال اپنے اخراجات پر ٹیکس دیتا ہے۔

پچھلے پچیس سالوں کے دوران میں ہسپتال نے قانون کے مطابق لاکھوں یا شاید کروڑوں روپے کا ٹیکس ادا کیا ہو گا۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ اس کے باوجود ٹیکس ڈیپارٹمنٹ مزید پیسے بٹورنے کے لیے ہسپتال انتظامیہ کو ہراساں کرتا ہے۔ پچھلے سال تو حد ہی کر دی۔ ہسپتال کے خلاف ٹیکس کم ادا کرنے کا ایک جعلی مقدمہ قائم کر کے ہسپتال انتظامیہ کو اطلاع کیے بغیر یک طرفہ کارروائی کی اور فیصلہ بھی کر دیا۔ اسی غلط فیصلے کی بنیاد پر ہسپتال کے بنک اکاؤنٹ سے آٹھ لاکھ روپے نکال لیے اور ہسپتال کا اکاؤنٹ خالی کر دیا۔ وہ دن اور آج کا دن، یہ بات ثابت ہونے کے باوجود کہ ہسپتال نے اپنے ذمے تمام ٹیکس باقاعدگی سے ادا کیا ہوا تھا، اور ہسپتال کے اکاؤنٹ پر محکمہ انکم ٹیکس کا ڈاکہ غلط تھا، محکمہ انکم ٹیکس ہسپتال کے آٹھ لاکھ روپے واپس کرنے کا نام نہیں لیتا۔

یہ کہانی کسی ایک NGO یا خیراتی ادارے کی نہیں ہے۔ ملک میں تعلیم، صحت، پانی، ماحول یا دوسرے انسانی حقوق کے شعبہ جات میں بہتری کی خاطر کام کرنے والی تمام NGOs کے ساتھ یہی ہو رہا ہے۔ ان اداروں کو حکومت کی جانب سے ایک روپیہ بھی نہیں ملتا۔ وہ اپنی کوشسوں سے ملک کے اندر اور باہر سے مالی وسائل اکٹھا کرتے ہیں۔ ان وسائل سے وہ پسماندہ طبقات کے انسانی حقوق کی صورت حال بہتر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بچوں کے لیے سکول اور غریب بیماروں کے لیے صحت کی سہولت مہیا کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو کہ اصل میں حکومت کا کام ہے اور حکومت کی بے شرمی یہ ہے کہ یہ سارا کام کرنے کے لیے حکومت ان اداروں کی کوئی مدد تو نہیں کرتی لیکن ان سے ٹیکس ضرور وصول کرتی ہے۔ حالانکہ ان ادروں کی کوئی انکم نہیں ہوتی لیکن حکومت ان سے ان کے اخراجات پر ٹیکس وصول کرتی ہے۔ مثال کے طور ایک NGO ایک سکول چلاتی ہے جس میں غریب بچے مفت تعلیم حاصل کرتے ہیں، اس سکول سے کوئی انکم نہیں ہے۔ حکومت اس سکول پر ہونے والے اخراجات پر ٹیکس وصول کرتی ہے۔ ایسے تمام کاموں اور اخراجات کی وجہ سے NGO سیکٹر سالانہ کروڑوں روپے کا ٹیکس بھی ادا کرتا ہے۔

NGOs  کی کمزوری یہ ہے کہ وہ قانون کے مطابق کام کرتے ہیں۔ یہ بات محکمہ انکم ٹیکس کو نہیں بھاتی۔ محکمہ انکم ٹیکس کی کچھ کالی بھیڑیں اس بات پر حیران اور ناراض ہیں۔ وہ NGOs کو ہراساں کرتے ہیں۔ انہیں بلاوجہ نوٹس بھیجتے ہیں۔ یک طرفہ فیصلے کر کے ان کے بنک اکاؤنٹس پر ڈاکے ڈالتے ہیں۔ اور حکومت کی طرف دیے گئے ٹارگٹ پورے کرتے ہیں۔

حکومت کو NGOs کے اخراجات پر ٹیکس لگاتے شرم آنی چاہیے۔ ایک طرف تو حکومت اپنے غریب شہریوں کے انسانی حقوق کے لیے کچھ نہیں کرتی ہے اور دوسری جانب اگر کوئی ادارہ فی سبیل اللہ پسے ہوئے طبقات کی بہتری کی کوشش کرے تو ان پر ٹیکس لگاتی ہے اور انہیں ہراساں کر کے ان کی حوصلہ شکنی کرتی ہے۔ کوئی حیرانی کی بات نہیں کہ وطن عزیز کے پسے ہوئے طبقات کو کوئی امید نظر نہیں آتی۔

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik