خدا را سیاست کی خاطر مذہب کو بدنام نہ کیجیے


گذشتہ دنوں سیاستدانوں پر توہین آمیزحملوں کے نام پردو واقعات ایسے رونما ہوئے جن کے تانے بانے مذہب یا مذہبی جماعتوں کے ساتھ ملتے ہیں، پہلا واقعہ سیالکوٹ میں وزیر خارجہ خواجہ آصف پر سیاہی پھینکنے کا پیش آیا جس کا مبینہ ملزم سیالکوٹ کا رہائشی ہے، والد قاری اور خود بھی باشرع ہے۔ پولیس کی تحویل میں اس کاجو اعترافی بیان سامنے آیا ہے اس کے مطابق اس نے خواجہ آصف پر سیاہی پھینکنے کا حملہ اس لیے کیا کہ خواجہ آصف کی پارٹی ختم نبوت کے حلف نامے میں ترمیم کی مرتکب ہوئی ہے۔ یہ نوجوان ایک فیکٹری میں محنت مزدوری کرتا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ اسے اپنے کیے پر کوئی پچھتاوا نہیں ہے۔ اس نے یہ سب مذہبی جذبے کے تحت کیا ہے۔ اسی طرح کا ایک اور واقعہ اس وقت پیش آیا جب سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف جامعہ نعیمیہ میں خطاب کے لیے جونہی سٹیج پر آئے، ان پر جوتے سے حملہ کیا گیا اور اس کے بعد سٹیج کے سامنے اس نوجوان نے لبیک یارسول اللہ کا نعرہ بلند کیا جب کہ ہال میں موجود اس کے دیگر ساتھیوں نے بھی اسی طرح کے مذہبی نعرے لگائے۔

مذکورہ بالا دونوں واقعات کی مکمل تفصیل قارئین کے سامنے آ چکی ہے اور سوشل میڈیا پر بھی مذہبی حلقے جوتا و سیاہی پھینکنے والوں کے حق میں آواز اٹھاتے نظر آ رہے ہیں۔ بعض حلقوں میں نواز شریف پر جوتا پھینکنے کے عمل کی درپردہ تحسین کی جا رہی ہے، بعض لوگ اس کی کڑیاں ممتاز قادری کی پھانسی کے ساتھ ملا رہے ہیں کہ جب سے نواز شریف کی پارٹی نے ممتاز قادری کو پھانسی دی ہے تب سے ان کی الٹی گنتی شروع ہو گئی ہے، جو لوگ مذہب کی بحث میں پڑنا نہیں چاہتے وہ اسے سیاسی رنگ دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جب نوازشریف کی پارٹی نے عوام کے لیے کچھ کیا ہی نہیں تو عوام کی طرف سے انہیں ایسے عمل کی ہی توقع رکھنی چاہیے۔ یہ بیانیہ قائم کرتے ہوئے ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ نواز شریف کی مخالفت میں ہم مذہبی جنونیت کو فروغ دے رہے ہیں۔

ختم نبوت کے نام پر فیض آباد میں جب تحریک لبیک یارسول اللہ نے دھرنا دیا تو راقم نے اس وقت بھی لکھا تھا کہ اگر مذہب کے نام پر راستے بند کرنے، استعفیٰ کا مطالبہ اور لوگوں کو برطرف کرنے کی اجازت دے دی گئی تو ایک وقت ایسا آئے گا کہ مذہبی جنونیت کا راستہ روکنا مشکل ہو جائے گا۔ میرے دوستوں نے مگر اس سے اختلاف کیا، ان کے پیشِ نظر شاید یہ تھا کہ نواز شریف کو راستے سے ہٹا دینے سے ہمارے تمام مسائل حل ہو جائیں گے۔ آج نواز شریف کو نا اہل قرار دے جا چکا ہے، وزیر قانون زاہد حامد کا استعفیٰ آ چکا ہے، فیض آباد دھرنے میں تحریک لبیک یارسول اللہ والوں کے مطالبات انہی کی شرائط پر تسلیم کیے جا چکے ہیں لیکن کیا مذہبی جنونیت پہلے سے زیادہ قوت کے ساتھ سامنے نہیں آئی؟ اور آج اہل مذہب کی طرف سے جوعوامل سامنے آرہے ہیں میری طرح بہت سے دیگر شہری اس سے خوفزدہ ہیں، اس کا حل چاہتے ہیں، اس جنونیت کے سامنے بندباندھنا چاہیے لیکن شاید اب یہ اتنا آسان نہیں رہا، کیونکہ متعدد مواقع پر اہل مذہب کے مطالبات انہی کی شرائط میں تسلیم کر کے اور ریاست کو نیچا دکھا کر ان کو شہ دی گئی ہے، آج وہ اپنی شرائط سے کم پر راضی نہیں ہیں۔

امر واقعہ یہ ہے کہ تحریک لبیک یارسول اللہ والے ایک طرف اپنے آپ کو سیاسی جماعت کہتے ہیں، انہوں نے 2017 میں متعدد ضمنی انتخابات میں اپنی جماعت کے امیدوار بھی کھڑے کیے، جنہیں خاطر خواہ ووٹ بھی ملے۔ وہ آئندہ الیکشن 2018ء کے لیے تیاری بھی کر رہے ہیں، عوام کے سامنے اپنے آپ کو پیش کر رہے ہیں، ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوشش بھی کی جارہی ہے لیکن دوسری طرف انہوں نے متعصبانہ کارروائیاں بھی شروع کر رکھی ہیں۔

اگر اہل مذہب سیاست میں آکر سسٹم کی درستگی کو تسلیم کر تے ہیں اور جمہورت میں ہی مسائل کا حل سمجھتے ہیں تو پھر تحریک لبیک والوں کے لیے اس تضاد کو ختم کرنا ہوگا کہ وہ سیاست کے لیے مذہب کو استعمال نہیں کریں گے۔ تحریک لبیک والوں کی طرف سے اس عمل کی تاحال کوئی مذمت سامنے آئی ہے اور نہ ہی انہوں نے مذکورہ بالا افراد سے لا تعلقی کا اظہار کیا ہے اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں ان کا طرز سیاست کیا ہو گا، یہی وہ رویے ہیں کہ لوگوں کی اکثریت یہ کہنے پر مجبور ہو تی ہے کہ مذہب کو سیاست سے دور رکھنا چاہیے، اول اول جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام کے بارے میں بھی یہ جملے کہے گئے اور اب بھی وقتاً فوقتاً کہے جاتے ہیں لیکن آج مذکورہ بالا دونوں جماعتیں اپنے کارکنوں کی تربیت کر کے یہ ثابت کر چکی ہیں کہ مذہبی جماعتیں مذہب کے ساتھ ساتھ سیاست کا نہ صرف حق رکھتی ہیں بلکہ بحسن خوبی سیاست کر بھی سکتی ہیں۔

ہم سمجھتے ہیں اگر علامہ خادم حسین رضوی اپنی جماعت کو بطور سیاسی قوت کے عوام کے سامنے لانا چاہے ہیں تو پھر انہیں اپنے کارکنوں کو سیاسی تربیت دینی ہو گی اور اپنی تقریروں میں بھی نرمی لانی ہو گی کیونکہ ان کے کارکن انہی کی کاپی کرتے ہوئے جلاؤ گھیراؤ کو کارثواب سمجھتے ہیں۔ اگر آپ نے نواز شریف یا کسی بھی دوسرے سیاستدان سے اختلاف کرنا ہے جو کہ آپ کا بنیادی حق ہے تو اس مقصد کے لئے اپنے ووٹ کی طاقت کو استعمال کیجئے اور انہیں مسترد کر کے اپنی نفرت کا ثبوت دیجئے لیکن خدارامذہب کو بدنام نہ کیجئے، جامعہ نعیمیہ والے بھی تو اسی مسلک کے علماء ہیں مولانا سرفراز نعیمی جو حق اور سچ کا ساتھ دیتے ہوئے دہشتگردی کا نشانہ بنے اور ان کے صاحبزادے علامہ راغب نعیمی ملک کے نامور علماء میں شمار ہوتے ہیں انہوں نے جو راستہ اپنایا ہے کم از کم اپنے مسلک کے ان علماء سے ہی سیکھ لیجیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).