بھارت اور پاکستان کا سیانا بھولپن!


سفارت کاری کا پہلا بنیادی اصول یہ ہے کہ بازار میں بیٹھ کر نہیں بلکہ بند کمرے میں کی جاتی ہے اور معاملات جتنے حساس اور پیچیدہ ہوں اتنی ہی راز داری بھی برتی جاتی ہے اور جب تنازعے کے حل کا بنیادی ڈھانچہ تیار ہو جاتا ہے، تب اسے فریقین باہمی رضا مندی سے طشت از بام کرتے ہیں۔

مثلاً جنگِ ویتنام تو میدانوں میں لڑی جا رہی تھی لیکن رچرڈ نکسن کے قومی سلامتی کے مشیر ڈاکٹر ہنری کیسنگر اور شمالی ویتنام کے وزیرِ خارجہ لی ڈک تھو پیرس کے کسی گمنام گھر میں اس جنگ کے خاتمے کے لیے فریم بنا رہے تھے۔ نتیجہ انیس سو پچھتر میں ویتنام سے امریکی فوجوں کے انخلا کی شکل میں برآمد ہوا۔

کیمونسٹ چین اور سرمایہ دار امریکا بائیس برس ایک دوسرے کے شدید نظریاتی و جانی دشمن رہے۔ سی آئی اے نے چین کا گھیرا تنگ کرنے کا ہر ہر موقع استعمال کیا جب کہ چین امریکا کا نام لینے سے پہلے اس کے ساتھ کوئی نہ کوئی گالی ضرور جوڑتا رہا۔ لیکن انیس سو اکہتر کے ایک دن ڈاکٹر ہنری کسنجر اسلام آباد میں ”علیل“ ہوئے اور سرکاری طور پر کہا گیا کہ وہ آرام کے لیے مری تشریف لے گئے ہیں لیکن وہ ”دورانِ علالت“ بیجنگ میں چین سے تعلقات معمول پر لانے کے دو روزہ تاریخی مشن پر تھے۔

جب چینی قیادت سے بنیادی خاکہ طے ہوگیا اس کے بعد میڈیا کے سامنے اس تاریخی سفارتی کارنامے کا دھماکا کردیا گیا۔ ایسے تو نہیں ہوا ہوگا کہ کسنجر نے بیجنگ جانے سے پہلے ماؤ یا چواین لائی کو اسلام آباد کے کسی پی سی او سے کال ملائی ہوگی کہ جنابِ والا میں آ رہا ہوں اور چینیوں نے کہا ہوگا کہ آئیے سرکار ہم تو آپ کی دید کو ترس رہے ہیں۔ اس ایک فیصلہ کن ملاقات سے پہلے کہاں کہاں کس کس نے کتنے گھنٹوں پر مشتمل ملاقاتیں نہ کی ہوں گی۔

جب نومبر انیس سو ستتر میں یہ خبر بریک ہوئی کہ مصر کے صدر انور سادات تل ابیب جا رہے ہیں تو ہر طرف اس ” اچانک ” یو ٹرن سے زلزلہ آگیا۔ مگر اس ”اچانک“ کے لیے ڈاکٹر ہنری کسنجر کی ثالثی میں مصر اور اسرائیل نے پسِ پردہ تین برس تک چھپ چھپ کے جو محنت کی اس کا تھوڑا بہت اندازہ آپ کو کسنجر کی یادداشتیں پڑھ کے ہوسکتا ہے۔ اس بریک تھرو کے سبب اسرائیل اور مصر کے مابین امن سمجھوتہ ہوا جس کے عوض اسرائیل نے جون انیس سو سڑسٹھ کی جنگ میں مصر سے چھینا جزیرہ نما سینائی واپس کر دیا۔

جہاں تک مسئلہ ِ فلسطین کا معاملہ ہے تو اسرائیل کا نظریاتی موقف بظاہر یہی تھا کہ تنظیم آزادیِ فلسطین ( پی ایل او) ایک دہشت گرد مافیا ہے اور دہشت گردوں سے بات چیت ناممکن ہے۔ جب کہ پی ایل او کے نزدیک اسرائیل فلسطینیوں کا قاتل اور مشرقِ وسطیٰ کا سب سے بڑا غاصب تھا۔ لیکن ناروے کے دارلحکومت اوسلو کی غیر معروف عمارتوں میں اسرائیل اور پی ایل او کے اہل کار جانے کب سے اس تنازعے کے تالے کی چابی بنانے کی کوشش کر رہے تھے اور جب وہ ایک بنیادی ڈھانچے کے نکات پر متفق ہوگئے تو نتیجہ کیمپ ڈیوڈ سمجھوتے کی صورت کیمروں کی جھمجھماہٹ کے درمیان برآمد ہوا۔ ( بعد میں کیا کیا اڑچینیں کیوں آئیں وہ ایک علیحدہ موضوع ہے )۔

افغانستان میں انیس سو اناسی میں سوویت فوجیں اتریں اور اگلے نو برس کے دوران پاکستانی، سعودی اور امریکی حمایت یافتہ مجاہدین نے ریڈ آرمی کو خون تھکوا دیا۔ رونالڈ ریگن برسرِ عام کہتے رہے کہ ان کا مشن شیطانی سلطنت (سوویت یونین)کی بربادی ہے۔ مگر اسی سوویت یونین اور امریکا کے سفارت کار کبھی وی آنا، کبھی جنیوا، کبھی ہلسنکی تو کبھی ریکیاوک کے ہوٹلوں میں افغانستان سے سوویت انخلا کی تفصیلات طے کر رہے تھے۔ اس کا پھل انیس سو اٹھاسی کے جنیوا امن سمجھوتے کی شکل میں ملا اور سوویت فوجیں فروری انیس سو نواسی تک افغانستان سے رخصت ہوگئیں۔

کیوبا اور امریکا کا معاملہ ہی دیکھ لیجیے۔ ایک برس پہلے تک ہم میں سے بھلا کون کہہ سکتا تھا کہ اپنی زندگی میں دونوں ممالک کے تعلقات بحال ہوتے دیکھ لیں گے۔ سی آئی اے نے قتل کی جتنی کوششیں فیڈل کاسترو پر آزمائیں شاید ہی کسی اور غیر ملکی رہنما پر کی گئی ہوں۔ کاسترو کا چھوٹا سا جزیرہ پچاس برس تک امریکا کے پیر میں زہریلے کانٹے کی طرح مسلسل چھبتا رہا۔ امریکا نے اس ملک کا سیاسی، سفارتی و اقتصادی گلا گھونٹنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی اور پھر گذشتہ برس دسمبر میں بارک اوباما اور راؤل کاسترو نے بیک وقت واشنگٹن اور ہوانا میں اعلان کیا کہ دشمنی ختم اور تعلقات کی بحالی شروع۔ دونوں قیادتوں نے اس اعلان تک پہنچانے والے برسوں پر محیط صبر آزما سفارتی مراحل کو اتنا خفیہ رکھا کہ کسی میڈیائی طرم خان کو بھنک تک نہ پڑ سکی۔

تازہ ترین مثال ایران اور مغرب کا جوہری سمجھوتہ ہے۔ دونوں کیمپوں کی چونتیس پینتیس برس سے جاری کھلی دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ مگر ایران کو مذاکرات کی میز پر لانے سے پہلے کسی نہ کسی گمنام مقام پر گمنام لوگوں کے درمیان کچھ نہ کچھ تو ملاقاتیں ہوئی ہوں گی۔ کیا ان ملاقاتوں کا احوال اس رازدارانہ عمل کے دوران کسی فریق نے لیک کیا؟

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ بھارت اور پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کو کیا یہ راز نہیں معلوم کہ سنگین مسائل حل کرنے کے لیے سنجیدہ بات چیت کے بنیادی آداب و تقاضے کیا ہوتے ہیں؟ ظاہر ہے کہ دونوں کو سب معلوم ہے۔ تو پھر سنجیدگی کیوں اختیار نہیں کی جاتی، ہر بار مذاکراتی عمل کی تفصیلات تکمیل سے پہلے ہی طشت از بام کیسے ہوجاتی ہیں اور ہر دور سے پہلے یا بعد کوئی نہ کوئی چھوٹی بڑی واردات کیسے ہوجاتی ہے۔

ہر بار ایک دوسرے کی راہ میں روڑے اٹکا کے اور غیر متعلقہ ذرایع کے ذریعے شور شرابا منظم کر کے میز کے آر پار بیٹھتے ہوئے ایک دوسرے کو دل ہی دل میں گالیاں دیتے ہوئے اور فریقِ مخالف کی بات پر مکمل دھیان دیے بغیر پہلے سے رٹے رٹائے دلائل و جوابات دوسرے کے کان میں قیف لگا کر انڈیلنے کے بعد مسکراتا فوٹو سیشن کروا کے واپس دلی اور اسلام آباد پہنچ کر کیمروں کے سامنے ایک بار پھر سرخرو ہونے اور دشمنوں کو خاک چٹوانے کی بڑھکیں مارتے ہوئے اس پوری مشق کا جنازہ خود ہی اٹھا کر اگلی مذاکراتی ورزش کے لیے شرائط بازی کا فرسودہ میچ کیوں شروع ہوجاتا ہے؟

پچھلے انہتر برس میں مذاکرات کے جتنے ادوار بھارت اور پاکستان کے درمیان ہوئے شاید ہی کوئی اور دو اقوام کے درمیان ہوئے ہوں لیکن بات چیت کے نتیجے میں پیش رفت تو خیر کیا ہوتی تعلقات کے درخت میں مزید کانٹوں کا اضافہ ہوتا چلا گیا۔

تو کیا دونوں ممالک کو قیامِ امن سے دلچسپی نہیں یا ”نہ جنگ نہ امن“ کے مسلسل حالات دونوں کو امن سے زیادہ منافع بخش لگتے ہیں؟ اس سوال کا جواب ہر بار تاریخی تلخیوں میں تلاش کرنا بالکل ایسا ہی ہے جیسے کوئی بچہ ٹیڑھے ناک اور ایک کان کے ساتھ پیدا ہو مگر دیگر جسمانی اعضا ٹھیک ہونے کے باوجود زندگی میں آگے بڑھنے سے انکار کردے اور بس اپنے ناک اور کان کو ہی روتا رہے۔

میں نے امن سمجھوتوں اور تنازعات کے حل کے بارے میں اوپر جتنی بھی مثالیں دی ہیں ان کے سیاسی کردار تاریخی تلخیوں کی کڑوی گولی نگلنے کے بعد ہی کسی نہ کسی سمجھوتے تک پہنچنے میں کامیاب رہے۔ اگر وہ حال کی حقیقتوں کا حقیقت پسندانہ ادراک کرنے کے بجائے سفاک تاریخ کے درخت پر ہی چڑھے جھولتے رہتے تو آج بھی ان کے درمیان گالم گلوچ اور سر پھٹول جاری رہتی۔

چنانچہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات اگر انہتر برس میں نارمل نہیں ہوسکے تو اس کی قصور وار تاریخ نہیں بلکہ دونوں ممالک کی روزمرہ اندرونی سیاسی ضروریات ہیں کہ جن کے ہوتے ہوئے ٹھوس مسائل پر توجہ دینے کے محنت طلب کام کے بجائے ایک دوسرے کی شکل میں وہ آسان بکرا تلاش کر لیا گیا ہے جس کے سینگوں سے اپنی تمام نا اہلیاں، بدنیتیاں، قبائلی، نسلی و مذہبی بغض باندھ کر اس بکرے کو ایک دوسرے کی جانب ہنکالا جا سکے۔

اب تو یہ دشمنی رفتہ رفتہ ایک انڈسٹری کا درجہ حاصل کر چکی ہے جس سے سرحد کے دونوں جانب بہت سے افراد اور اداروں کا روزگار اور مفادات وابستہ ہیں۔ جب یہ صنعت منافع بخش نہیں رہے گی تب دونوں ممالک کو سفارت کاری کے اصول یاد بھی آجائیں گے اور انھیں استعمال کرکے وہ ایک نارمل زندگی کی طرف بھی بڑھ جائیں گے۔ فی الحال تو یہ چمن یونہی رہے گا۔
منگل 25 اگست 2015


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).