انکشافات اور سازشوں سے نمودار ہوتا لبرل ازم


\"kazmi\"ندیم فاروق پراچہ صاحب نے آج ڈان نیوز میں کالم لکھا اور ایک کالم وجاہت مسعود صاحب نے ہم سب میں لکھا۔ اول الذکر نے پاکستان آرمی کو مشورہ دیا کہ ملک میں نئے (لبرل) بیانیے کو رواج دینے کے لیے ایوب خان کے لبرل دور حکومت کو بطور نمونہ اختیار کیا جائے اور موخر الذکر نے اپنے کالم میں جسٹس منیر صاحب جیسے عظیم الشان ’’دانشور‘‘ کے حوالے سے ثابت کیا کہ پاکستان کے بننے سے تین دن قبل ہی ’’لبرل پاکستان‘‘ کے خلاف سازش کا آغاز ہو چکا تھا۔ صف اول کے دو روشن خیال احباب کا علی الترتیب پاکستان میں ڈکٹیٹرشپ اور نظریہ ضرورت کے بانیان کو دلیل بنانا کم از کم میرے لیے تعجب اور افسوس کا باعث ہے۔

تحریک پاکستان کا مطالعہ جو شخص بھی کھلے ذہن سے کرے وہ صاف سمجھ جاتا ہے کہ پاکستان بنانے والا طبقہ غیر جمہوری طرز فکر رکھتا تھا۔ وہ اس زمانے کی ایک خاص مصنوعی ’’سیاسی مذہبیت‘‘ یا ’’مذہبی سیاسیات‘‘ پر یقین رکھتا تھا جو علی گڑھ کی پیدا کردہ تھی۔ قائد اعظم محمد علی جناح کے متعلق ایک سے زیادہ گواہیاں ہیں کہ وہ جمہوریت کے متعلق تقریبا ویسے ہی افکار رکھتے تھے جیسے ہمارے ہاں کے ’’عظیم مفکرین‘‘ کے رہے ہیں۔ گاندھی جی سے 1944 میں قائد کی ملاقاتوں میں جب قائد نے پاکستان سے متعلق جمہوری حکومت کا نقشہ کھینچا تو گاندھی جی نے سوال کیا کہ آپ نے تو مجھ سے کہا تھا کہ ہندوستان کے لیے جمہوریت موزوں نہیں۔ قائد نے اول تو فرمایا کہ مجھے یاد نہیں تاہم گاندھی جی کے یاد دلانے پر کہا کہ تب میری مراد \”مسلط کردہ جمہوریت\” سے تھی۔ 11 اگست کی تقریر کی اہمیت ہمارے ہاں کے جدید لبرلز کا قائد سے ایک غیر عملی رومان کی دلیل ہونے کے علاوہ کچھ بھی نہیں کیونکہ قائد کی تمام تر سیاسی ذندگی میں 11 اگست سے پہلے اور بعد متضاد باتیں ملتی ہی رہتی ہیں۔ قائد کے بیانات و تقاریر بعد از تقسیم کا سرسری مطالعہ ہی اس حقیقت کو خوب کھول دیتا ہے اور ایسی بدیہی بات پر دلیل قائم کرنے کی ضرورت نہیں۔

اپنی مطالعاتی ذندگی میں اکثر اس سوال نے مجھے پریشان کیے رکھا کہ آخر قائد کے معاملے پر ہمارے لبرلز اخلاقی جرات کیوں نہیں دکھاتے اور صاف صاف قائد کے افکار کو روشن خیال جمہوری پاکستان کے لیے غیر موزوں قرار دے کر یا قائد کے افکار کو بیچ میں لائے بغیر ہی موجودہ صورتحال کو جدید دور اور جدید نسل کی عقل و دانش کی مدد سے حل کرنے کی نیو کیوں نہیں رکھتے۔ گزشتہ کچھ دنوں میں اس سوال کا جواب مجھے یہ مل گیا کہ دراصل مذہبی شخصیات کو سنگل آوٹ کر کے تنقید کا نشانہ بنانے اور اپنا مقدمہ اول و آخر مذہب بیزاری پر اٹھانے کی ہی یہ آرزو ہے جو انھیں قائد کو لبرل ازم کا فرضی چیمپین ماننے پر مجبور کرتے ہوے قیام پاکستان کے بعد پیدا شدہ مذہبیت کو قائد اور مسلم لیگ کی فرقہ وارانہ سیاست کا فطری تسلسل قرار دینے کی بجائے ایک ’’سازش‘‘ کا ہوا کھڑا کرنے پر اکساتی ہے۔

شبیر احمد عثمانی نے قرارداد مقاصد پیش کرتے وقت دستور ساز اسمبلی سے جو خطاب کیا اس میں ایک دلچسپ نکتہ اٹھایا۔ انھوں نے اول تو قائد اعظم کے مختلف بیانات و تقاریرکا حوالہ دیا جن میں واضح طور پر ’’اسلامی ریاست‘‘ کے اشارے ملتے تھے۔ اس کے بعد انھوں نے کہا کہ یہ عام مشاہدہ ہے کہ اس طرح کے بیانات قائد اور مسلم لیگ کے دیگر زعما ایک عرصہ سے دیتے چلے آ رہے تھے تو اگر آج ’’اسلامی ریاست‘‘ پر کسی کو ’’تحفظات‘‘ ہیں تو یہ ’’تحفظات‘‘ تب دور کر لینے چاہیے تھے جب یہ بیانات دیے جا رہے تھے۔ اب قیام پاکستان کے بعد ان نظریات سے انحراف کا کوئی جواز نہیں۔ قراداد مقاصد کو آپ چاہے ام الخبائث بھی قرار دے دیں شبیر احمد عثمانی کی یہ دلیل اپنی پوری طاقت سے قائد کو لبرل قرار دینے والوں کے لیے ایک سوالیہ نشان بنے کھڑی رہے گی۔

کیا موجودہ دور میں ہمارے مسائل کا حل تقسیم پاکستان کے وقت کی سیاست کا تجزیہ (اور وہ بھی انتہائی جانبدارانہ اور ناقص) کیے بغیر ناممکن ہے؟ کیا قائد اعظم کو لبرل قرار دیے بغیر پاکستان میں لبرل ازم کا مقدمہ لڑنا محال ہے؟ ہمارے موجودہ لبرل طبقے نے یہ مفروضہ بنا لیا ہے کہ پاکستان میں لبرل ازم کی راہ میں واحد رکاوٹ ’’مذہبی سیاست‘‘ وغیرہ ہے۔ اسی لیے پراچہ صاحب ایوب خان کو رول ماڈل سمجھتے ہیں کیونکہ انھوں نے پاکستان کے نام سے ’’اسلامی‘‘ (کچھ عرصہ کے لیے) ہٹا دیا تھا۔ ایوب خان صاحب جو پاکستان میں صوبائی خود مختاری کچلنے، پریس سینسر شپ، انتخابی دھاندلی، جمہوریت کشی، ’’کرپشن‘‘ کا کلیشے تخلیق دینے، بھارت کے ساتھ جنگ بازی اور غیر عملی و خیالی خارجہ پالیسی کے بانی و امام ہیں کو پراچہ صاحب کے خیال میں ہمیں لبرل بیانیے کے لیے مثال بنانا ہو گا۔ یہی وہ مفروضہ ہے جو ہمارے لبرل طبقے کو بار بار قرارداد مقاصد کے عنوان سے کچوکے لگاتا ہے۔ جس روشن خیالی سے آئی ایس پی آر کی خوشنودی مقصود ہو اسے دور سے سلام کرنا چاہیے۔

میرے خیال میں اس تمام جانبدارانہ اور ناقص تجزیے کے بغیر ہی ہم انتہائی اچھے طریقے سے عملیت پسندی کو بنیاد بنا کر ایک بہتر اور جمہوری پاکستان کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔ اس کے لیے ہمیں جدید دور میں جینا ہو گا اور ہر فکری طبقے کو غیر ضروری تعصبات سے ماورا ہو کر موجودہ حالات میں بہترین طریقہ کار پر مکالمہ کرنا ہو گا۔ تاریخ میں اپنی مرضی کے بتوں پر اپنی مرضی کا میک اپ چڑھانے سے کہیں بہتر یہ ہے کہ حال کو سنوار لیا جائے۔

احمد علی کاظمی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

احمد علی کاظمی

احمد علی کاظمی پیشے کے اعتبار سے وکیل ہیں۔ جامعہ امدادیہ کے طالب علم رہے ہیں۔ پاکستانی سیاسی و آئینی تاریخ اور سیاسی اسلام و جمھوریت کے مباحث میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ فلم بین اور کرکٹ کے تماشبین اس کے علاوہ ہیں۔ سہل اور منقح لکھنے کے قائل ہیں۔

ahmedalikazmi has 13 posts and counting.See all posts by ahmedalikazmi

Subscribe
Notify of
guest
16 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments