کھانا خود گرم کرنے پر دماغ کا دہی


عورت مارچ میں ایک خاتون نے ایک بینر اٹھایا ہوا کہ ”کھانا خود گرم کر لو“، کھانا تو ادھر ہی پڑا رہ گیا مگر اس کے بعد بحث کا میدان گرم ہوگیا۔ اب ہوا یہ کہ ہر کسی نے اپنے اپنے حساب سے اس کارِ خیر میں حصہ ڈالا۔ ایک خاتون نے ایک دبنگ قسم کی ویڈیو بنا کر، آخر میں زور دینے کے لئے اسے گالی سے مزین کر کے، مردوں کے خوب لتے لئے۔ کچھ اور خواتین نے اس بینر پر صرف تفنن برتنے پر مردوں کو احمق اور معلوم نہیں کیا کیا خطاب سے نوازا۔ کچھ مردوں نے بھی ان خواتین کا کندھا استعمال کر کے خوب گولہ باری کی۔

اس بحث میں مشکل مشکل الفاظ استعمال کیے گئے، میسوجینسٹ، پیٹریارکی اور جینڈر رولز کا وزن اپنے پلڑے میں ڈالا گیا۔ گوگل استعمال کے مشورے دیے گئے، طعنہ زنی اور نیم کالنگ کی گئی۔ بچپن میں جس طرح ہم شعر کی تشریح کر کے وہ باتیں شاعر کی طرف منسوب کر دیتے تھے جو کہ شاعر نے کبھی سوچی بھی نہ ہوں گی ویسی ہی باتیں اس بینر کی طرف منسوب کی گئیں کہ گرم کھانا نہ کرنے کی وجہ سے جو مرد اپنی بیویوں یا بہنوں کو مارتے ہیں یہ اس تناظر میں ہے۔ تشریح تو کسی بھی بات کی موضوعی ہوتی ہے، آپ کی بھی درست ہو سکتی ہے اور دوسروں کی بھی۔

میرا اپنا ذاتی خیال ہے کہ جن خواتین کے حقوق کے لئے یہ مرد و خواتین ہلکان ہوئے پھر رہے ہیں اگر اُن سے جا کر پوچھا جائے تو کھانا گرم کرنا یا نہ کرنا ان خواتین کا مسئلہ ہی نہیں ہے بلکہ عزت و احترام ان کا اصل مسئلہ ہے۔ ان کو تشدد سے نجات چاہئیے چاہے وہ لفظی ہو یا جسمانی۔ بجائے یہ کہ اس بات پر غور کیا جائے کہ واقعی ایسی خواتین کیا چاہتی ہیں، اعتراض کر دیا جاتا ہے کہ آپ مردوں کو عورتوں کے مسائل کا زیادہ پتا ہے؟ چلیں بغرض بحث مان لیتے ہیں کہ آپ سے زیادہ نہیں پتا ہو سکتا مگر مطلق طور پر نہ پتا ہونا تو کوئی منطق نہیں ہے۔ ایک مثال سے آپ کو سمجھائے دیتے ہیں۔

جو خواتین اس تشدد پر ہلکان ہوئی پھرتی ہیں ان میں سے زیادہ تر تو خود اس مراعات یافتہ طبقے سے تعلق رکھتی ہیں جہاں ان معاملات پر گھریلو تشدد کے درد کو سمجھا ہی نہیں جا سکتا، تو ان کی بات کیسے سند ہوگئی اور اس مرد کی بات کیسے غیر مستند ہوگئی جس نے شاید یہ سب تشدد اپنی ماں بہن کے ساتھ ہوتا خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو اور اپنی بے بسی پر اپنے تکیے بھگوئے ہوں؟ بڑی سیدھی سی بات ہے، کسی کا درد سمجھنے کے لئے اور کسی کے مسئلے پر بات کرنے کے لئے اسی صنف سے ہونا ضروری نہیں ہے۔ جیسے جینڈر رول کہیں نہیں لکھے ویسے یہ بھی کہیں نہیں لکھا۔

دیکھیں، سادی سی بات ہے، آپ کو مردوں کے ساتھ لڑائی کرنی ہے یا آپ کو اپنی پسند اور اپنے اختیار کے ساتھ مکمل عزت و احترام چاہئیے۔ کیا آپ کسی بھی خاتون کے اپنے آزادانہ اختیار کو کھلے دل سے تسلیم کرتی ہیں کہ وہ پڑھ لکھ کر جاب کرنے کی بجائے ہاؤس وائف بن کر رہے؟ اگر آپ یہ اختیار تسلیم کرتی ہیں تو پھر مان لیں کہ جس خاتون نے گھر سنبھالنا اپنی مرضی سے اپنی ترجیح بنایا ہے اس کے لیے کھانا گرم کرنا کوئی ایشو نہیں ہے۔ ہاں مرد کی طرف سے اس بات پر عورت پر تشدد ضرور ایشو ہے جس پر بات بھی ہونی چاہئیے اور جس کے تدارک کے لئے عملی اقدام بھی کرنے چاہئیں مگر اس طرح کے بیوقوفانہ بینر اور اس کا غیر ضروری دفاع اور طعنہ زنی سے کچھ نہیں ہونے والا۔

تشدد کا تو کوئی جواز ہی نہیں ہے، عورت پر تشدد اور وہ بھی کھانا گرم کرنے جیسی معمولی بات پر تو بالکل قابل قبول نہیں، مگر یہ انتہائی استثنائی صورتیں خواتین کا عمومی مسئلہ نہیں ہیں۔ اس پر غیر ضروری بحث کر کے آپ خواتین کے اصل مسائل کو پس پشت ڈال رہے ہیں۔ بیٹیوں کے مقابلے میں بیٹوں کے ساتھ ترجیحی سلوک، بیٹیوں کی پڑھائی، بیٹیوں کی پسند کی شادی و غیر شادی، بہوؤں کے ساتھ حسن سلوک، گھریلو تشدد، گھر کا خرچ، ماؤں کی اپنے بچوں کی زندگی کے بارے میں رائے، جاب کرنے کا اختیار، وغیرہ وغیرہ چند بنیادی باتیں ہیں جن پر دھیان دینے کی ضرورت ہے، ان پر بات کریں گے تو معاشرے میں جو تبدیلی آئے گی اس سے کھانا گرم کرنے جیسی ضمنی بحث خودبخود حل ہو جائے گی۔

سچی پوچھیں تو یہ انتہائی سطحی باتیں ہیں کہ ہم بھی جاب کر سکتی ہیں، ہم یہ بھی کر سکتی ہیں ہم وہ بھی کر سکتی ہیں۔ بالکل کر سکتی ہیں ہم نے نہیں روکا ہے مگر جس طرح آپ کے لئے جینڈر رول کسی نے ڈیفائن نہیں کیا ہے اسی طرح مردوں کے لئے بھی تو کسی نے نہیں ڈیفائن کیا۔ مرد ہی کیوں صبح بچوں کو سکول چھوڑنے جائے، مرد ہی کیوں رات گئے تک آفس بیٹھ کر کام کرے، مرد ہی کیوں چار پانچ گھنٹوں کی لانگ ڈرائیو کرے، مرد ہی کیوں اپنی ماں بہن کے لئے بکواسات سنے، مرد ہی کیوں انیس لیٹر کی بوتل ڈسپنسر پر لگائے، مرد ہی کیوں خرچ برداشت کرے، وغیرہ وغیرہ۔ اب اگر آپ کہیں کہ یہ سب کام آپ کرتی ہیں تو کھانا بھی بہت سے مرد گرم کر لیتے ہیں۔ بات تو عمومی رویے کی ہے نہ کہ میری اور آپ کی۔ کہنا کتنا آسان ہے کہ ہم جاب کر لیں گی آپ مرد گھر سنبھالیں جب کہ یہ انتہائی غیر حقیقی مفروضہ ہے کیونکہ بہت ساری خواتین تو جاب کرنا ہی نہیں چاہتیں بلکہ گھر سنبھالنا چاہتی ہیں، تو ان کے بارے آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا ان کو آپ کی طرف سے کھانا گرم کر کے دینے کی اجازت ہے؟ آپ کی مان بھی لیں تو خاوند جو لاکھوں کما رہا ہے وہ گھر بیٹھ جائے اور بیگم کتنے ہزاروں کما کر گھر کا خرچہ چلائے گی؟ تھوڑا عقل نو ہتھ مارو۔

بغاوت کرنا ایسا فیشن ہوتا جا رہا ہے کہ سوچے سمجھے بغیر ہر رطب و یابس کا دفاع شروع کر دیا جاتا ہے۔ برداشت برداشت کا درس دینے والے طعنہ زنی اور یاوہ گوئی پر اتر آتے ہیں۔ صبر سے بات سن کر صحتمند بحث کی بجائے فضول ناموں سے پکارنا شروع ہو جاتے ہیں۔ گھریلو تشدد ایک گھمبیر مسئلہ ہے جس پر بات ہونی چاہئیے اور عورت کی عزت اور اس کا احترام معاشرے میں قائم کرنا ایک ایشو ہے جس پر توجہ دینا انتہائی ضروری ہے۔ خدارا ان فضول بحثوں سے نکل کر خواتین کی بہتری کے لئے کوئی ڈھنگ کا کام کیجئیے۔
(اس آرٹیکل کو لکھنے کے دوران بھی اپنا کھانا خود گرم کیا ہے)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).