اسٹیفن ہاکنگ ۔ پاکستانی لڑکیوں کے لئے سائنس دان ہیرو


آج کہا جاتا ہے کہ آج کے عظیم لوگ پہلے آنے والے لوگوں کے کاندھوں پر کھڑے ہو کر دنیا کو دیکھتے ہیں۔ جیسے اسٹیفن ہاکنگ کے کندھوں پر کتنے ہی لوگوں نے کھڑے اور کائنات اور اس کے اسرار کے بارے میں جانا ہے۔ انھوں نے فزکس کے خشک موضوع کو عام آدمی کیلیے گلیمرس بنایا۔ مجھے ٖفخر ہے کہ میرا تعلق بھی اسٹیفن ہاکنگ کی پہلی یونیورسٹی آکسفورڈ سے رہا جہاں آج بھی ہاکنگ طالب علموں کے لئے استقامت اور ہمت نہ ہارنے کی نشانی سمجھا جاتا ہے -اسٹیفن ہاکنگ بلاشبہ ایک غیر معمولی انسان تھا ۔ سب سے پہلے، وہ آج کی دنیا کے سب سے زیادہ مشہور ماہر طبیعیات تھے جنہوں نے کائنات اور بلیک ہول جیسے موضوعات پر کیئی نئی دریافتیں کیں۔ دوسرا یہ کہ صرف اکیس سال کی عمر میں ان کو موٹر نیورون کی بیماری میں ڈاکٹر وں نے فقط دو سال جینے کی پیش گوئی کی تھی، مگر ہاکنگ اپنی قوت ارادی کے بل بوتے پر 76 برس کی عمر تک جیئے اور کیا ہی جئیے۔ سوم، وہ “وقت کی مختصر تاریخ”، جیسی کتاب کے مصنف بنےجس نے عام لوگوں کو سائنس کے خشک تصورات سے متعارف کرایا ہے۔ یہ کتاب اپنی 1988 اشاعت سے اب تک 20 سال میں 12 ملین سے زائد کاپیاں فروخت کر چکی ہے

لیکن سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ انھوں نے بچوں کو اپنے کندھوں پر کھڑے ہو کر مختلف طریقے سے دنیا کو دیکھنے کے لیئے مواقع فراہم کئے۔ یہ بات لوگ کم جانتے ہیں کہ اسٹیفن ہاکنگ نے اپنی بیٹی لوسی کے ساتھ مل کر بچوں کے لئے چار کتابیں لکھیں جنہوں نے فزکس کے تصورات کو آسان بنا کر کہانی کی صورت بچوں کو سکھایا۔ اس کہانی کو میں نے چند سال پہلے اپنی بیٹی کو سنایا۔

بچیاں عموما فزکس جیسے مضامیں میں دلچسپی نہیں رکھتی مگر ہاکنگ کی کہانی نے میری بیٹی اور اس جیسی کئی بچیوں کو فزکس پسند کرنے کی ترغیب دی۔ ھاکنگ کی اپنی کہانی ہمت کی کہانی ہے، میری بیٹی نے کہا کہ جب ہاکنگ اتنی جسمانی بیماریوں کے باوجود اتنا کچھ کر سکتا تو وہ بھی سب کچھ کر سکتی ہے۔ آج وہ سائینسدان بننا چاھتی ہے اور ہاکنگ اس کا آئیڈئل ہے۔

 نوجوان بچوں اور خاص طور پر لڑکیوں کو سائنسی علوم میں دلچسپی حاصل کرنے کے لئے رول ماڈل کی ضرورت ہے۔ اسٹیفن ہاکنگ کی دلچسپ زندگی اور کام نوجوان لوگوں کو خاص طور پر سائنس میں تعلیم اور پیشے کو اپنانے کی ترغیب میں لڑکیوں کے لئے ایک رول ماڈل ہو سکتا ہے۔ اس کی ضرورت اس لیئے ہے کہ ابھی بھی دنیا میں خواتین سائنسدانوں کی تعداد مرد سائنسدانوں کی تعدادسے بہت کم ہے۔ گزشتہ 20 سال سے پوری دنیا میں طالبات کی طرف سے کالج کی سطح پر فزکس کا انتخاب بیس فیصد سے بڑھ نہیں پایا۔ مستقبل قریب میں بھی یہ رجحان تبدیل ہوتا لگتا نہیں ہے۔ صنفی عدم مساوات سے نبرد آزما پاکستان کو بھی فیزیکل سائینس میں لڑکیاں نظر نہیں آتیں۔۔

یونیسکو کے انسٹی ٹیوٹ کے اعدادوشمار کے مطابق، 2015 میں خاتون محققین کی تعداد کا 37 فیصد میڈیکل سائنسز سے تعلق رکھتا ہے، پاکستان میں خواتین محققین کی 33۔8٪ قدرتی سائنس سے تعلق رکھتے ہیں، 11 فیصد زرعی سائنس سے تعلق رکھتے ہیں جبک صرف 15.4 فیصد انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی سے تعلق رکھتی ہیں۔ ایچ ای سی کے اعدادوشمار کے مطابق لڑکیوں کے سکول جانے کی شرح میں اضافہ ہوا ہے، اب اس شرح کا اثر تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ گو کہ لڑکیاں میڈیکل سائنس بہت بڑی تعداد میں پڑھ رہی ہیں مگر ہارڈ ساینسی سبجیکٹ جیسے کہ فزکس، کیمیسٹری، ٹیکنالوجی میں پاکستانی خواتیں کی تعداد نہ ہو نے کے برابر ہے۔ آج بھی پاکستان میں ایجادات کے پیٹنٹ درج کرانے والے موجدوں میں صرف دس فیصد خواتین ہیں۔ ایسے میں لڑکیوں کے لئے فزکس جیسے مضامیں پڑھنے کے لیئے ترغیب کی سخت کمی ہے۔ گو کہ کچھ پاکستانی سائنسدان خواتین کا نام دنیا میں کافی روشن ہےمگر یہ خال خال ہیں۔ جیسے کہ نرگس ماوال والا جو فزکس میں بڑا نام ہیں۔ اسی طرح تسنیم زہرہ حسین پاکستان سے پہلی خاتون سائینسدان ہیں جو سٹرنگ تھیوری پر کام کر رہی ہیں اور اب اسی موضوع پر اک ناول بھی لکھا ہے۔

خواتین کو اب بھی اس شعبے میں آنے میں دلچسپی کم ہے، فزیکل سائنس کو آج بھی مردوں کا میدان سمجھا جاتا ہے جہاں خواتین رول ماڈل کم ہیں۔ ایسے میں اسٹیفن ہاکنگ کی کتب اور ان کی وراثت لڑکیوں کو ٖسایئنس کے میدانوں کی طرف راغب کر سکتی ہے۔ پاکستان کو بھی ان کتب اور اسٹیفن ہاکنگ کے خیالات کو سکولوں میں متعارف کرانے کی ضرورت ہے۔شاید ایسے ہی پاکستان کے مستقبل میں مزید خواتین سائنس دانوں کے لئے جگہ بنا سکیں۔

قرۃ العین فاطمہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

قرۃ العین فاطمہ

قرۃ العین فاطمہ آکسفورڈ سے پبلک پالیسی میں گریجویٹ، سابق ایئر فورس افسراور سول سرونٹ ہیں۔

quratulain-fatima has 16 posts and counting.See all posts by quratulain-fatima