جوتے تو ہم سب کو پڑ رہے ہیں!


مذمت بھی کرنی چاہیے اور اخلاقیات کا درس بھی دینا چاہیے۔ لیکن کم از کم ادھورا سچ نہیں بولنا چاہیے۔ سچ اور صرف پورا سچ۔ تو جناب عالی پورا سچ یہ ہے کہ جوتے صرف سیاستدانوں کو ہی نہیں پڑ رہے بلکہ پوری قوم جوتے کھا رہی ہے۔ اور اس کیذمہ دار بھی خود ہے۔ لیکن خبر صرف ان لوگوں کی آ رہی ہے جو عالی مرتبت اور معزز ہیں۔ خبر یہ ہے کہ سیالکوٹ میں ایک کنونشن کے دوران ایک شخص نے پاکستان کے وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف پر دوران تقریر سیاہی پھینک دی۔ اور پھر خبر آئی کہ سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف پہ کسی شخص نے جوتا پھینک دیا۔ میاں صاحب اس سے پریشان ہوئے، خطاب مختصر کیا اور چلے گئے۔ اور تازہ ترین خبر یہ ہے کہ عمران خان کو بھی جوتا مارنے کی کوشش کی گئی جو ناکام ہوئی۔ لیکن ایک خبر اور ہے اور وہ آپ تک کوئی نہیں پہنچا رہا۔ وہ یہ کہ 14 اگست 1947 سے لے کر آج تک اسلامی جمہوریہ پاکستان میں عام، غریب، کیڑے مکوڑے عوام کو جوتے پڑ رہے ہیں۔ میں مذمت کرتا ہوں اس سب کی۔ جو کچھ خواجہ آصف کے ساتھ ہوا، جو کچھ نواز شریف اور خان صاحب کے ساتھ ہوا۔ اور جو کچھ عوام کے ساتھ ہو رہا ہے۔ سب قابل مذمت ہیں۔

بدقسمتی سے ہمارے سیاستدانوں نے جمہوریت، آئین، قانون، ووٹ کا تقدس، پارلیمنٹ کا تقدس اور اخلاقیات وغیرہ وغیرہ کو صرف اور صرف کتابی باتوں تک محدود رکھا ہے۔ معذرت کے ساتھ، اب عوام جان چکے ہیں کہ ہر کوئی اپنا الو سیدھا کرنے میں لگا ہوا ہے۔ اور اگر اخلاقیات کی بات کریں تو پھر کونسی اخلاقیات؟ مسلم لیگ نون کی اخلاقیات یا پھر تحریک انصاف کی اخلاقیات؟ جو کچھ تحریک انصاف کے متوالے سوشل میڈیا پر مریم نواز کے بارے میں اظہار کرتے ہیں۔ وہ والی اخلاقیات؟ یا پھر وہ والی جو مسلم لیگ نون والے عمران خان کی نجی زندگی اور ان کی بیگمات کے بارے میں ظاہر کر رہے ہیں۔ خواتین کا احترام، احترام انسانیت، مخالف کا بھرم، لحاظ، شائستگی، کسی کے عیب پر پردہ ڈالنا، کسی کے بارے میں غلط خبر سن کر پہلے تحقیق کر لینا۔ ان سب اخلاقیات کا تماشا ہم نے مل جل کر اڑایا ہے۔ اب کیا فکر لاحق ہو رہی ہے ہمیں؟ جو قوم کو سکھایا ہے قوم وہی کر رہی ہے۔

افسوس صد افسوس۔ ہمارے لیے صرف وہی بات درست ہے جو ہماری اپنی ذات کے لیے ہے۔ دکھ کے ساتھ یہ بات لکھ رہا ہوں اور اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ میرے نزدیک یہ بات دوسرے واقعہ کی دلیل ہے۔ ایک ویڈیو سوشل میڈیا پہ وائرل ہے جس میں میاں نواز شریف طاہر القادری کی نقل اتار رہے ہیں۔ ہوا کچھ یوں تھا کہ اسلام آباد دھرنے کے دوران طاہر القادری اسٹیج پہ بیٹھے تھے۔ بجلی کی کوئی تار جلنے سے دھماکے کی آواز آئی۔ اس سے وہ بری طرح ڈرے اور اپنی کرسی پر ایک طرف اکٹھے ہوئے۔ یہ ایک قدرتی اور فطری طرز عمل ہے۔ قادری سے لکھ اختلافات سہی لیکن اس بات پہ مذاق اڑانا بہت ہی قابل افسوس ہے۔ میاں صاحب نے طاہر القادری صاحب کی اس حرکت کی باقاعدہ نقل اتاری۔ انہوں نے یہ کام ایک بڑے جلسے میں پوری قوم کے سامنے کیا۔ اور جب انہوں نے یہ کام کیا تو وہ پاکستان کے 3 دفعہ سابق وزیر اعظم رہ چکے تھے۔ اب بتائیں کونسی اخلاقیات؟

اور رہی بات عام آدمی کی تو اس کا مقدر جوتے ہی ہیں۔ تھانہ، کچہری، نادرا دفتر، واپڈا دفتر، ہسپتال، سیکرٹریٹ۔ ہر جگہ جوتے پڑتے ہیں۔ اور کوئی اس مقدر کو بدلنے کے لے سنجیدہ بھی نہیں ہے یہاں تک کہ عام آدمی بھی نہیں۔ ہم خود بھی غصے کا اظہار صرف بدترین غیر اخلاقی حرکت کے ذریعے ہی کر سکتے ہیں۔ کسی پہ سیاہی پھینک دی، کسی پر جوتا اچھال دیا۔ اور جب ووٹ کا وقت آیا تو اپنا ووٹ بیچ دیا۔

آخر میں ایک تاریخی واقعہ سنیں۔ ہماری قوم کے ساتھ کوئی مماثلت محض اتفاقیہ ہے۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی ریاست کا بادشاہ بہت ظالم تھا۔ اس کی ساری پالیسیاں عوام مخالف تھیں لیکن کہیں سے کوئی صدائے احتجاج بلند نہیں ہوتی تھی۔ ایک دن اس نے اپنے وزیر خاص کو بلایا اور کہا کہ ہمارا جو طرز حکومت ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ عوام ہمارے خلاف کوئی احتجاج نا کر دیں۔ وزیر نے کہا کہ بادشاہ سلامت یہ قوم مردہ ہو چکی ہے۔ ایسا نہیں ہو گا۔ آپ خود بھی مزے کریں اور ہمیں بھی کرنے دیں۔ لیکن بادشاہ کو ڈر تھا کہ کہیں کوئی بغاوت نا ہو جائے۔ وزیر نے تسلی دی کہ کچھ نہیں ہو گا۔

بادشاہ نے پھر خدشے کا اظہار کیا تو وزیر نے کہا کہ آپ آزما کے دیکھ لیں۔ اگلے دن چینی مہنگی کر دی گئی لیکن کوئی احتجاج نا ہوا۔ پھر بجلی مہنگی ہوئی۔ پھر بھی کوئی احتجاج نہیں ہوا۔ وزیر نے کہا میں نے آپ کو کہا تھا کہ یہ قوم احتجاج نہیں کرے گی۔ بادشاہ کو یقین نہیں آتا تھا کہ لوگ اتنے مردہ کیسے ہو سکتے ہیں۔ پھر اس نے ایک ظالمانہ حکم جاری کیا اور وزیر سے کہا کہ اب تو احتجاج ضرور ہو گا۔ ہر روز ریاست کے لوگ صبح کے وقت شہر کے مرکزی دروازے سے گزر کر دوسرے شہر مزدوری کرنے جاتے تھے۔ بادشاہ نے حکم صادر فرمایا کہ ہر روز صبح مرکزی دروازے سے گزارنے والے شخص کو مرغا بنا کر فی کس دو جوتے مارے جائیں۔ اور ساتھ ہی وزیر سے کہا کہ کہیں کوئی احتجاج ہو تو مجھے خبر کرو۔

تین دن بعد بہت سارے لوگ اکٹھے ہو کر سراپا احتجاج محل پہنچ گئے۔ وزیر بھاگتا ہوا بادشاہ کے پاس آیا کہ کچھ لوگ آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ بادشاہ نے وزیر سے کہا کہ دیکھا میں نے تمیں کہا تھا کہ اس فیصلے پہ احتجاج ضرور ہو گا۔ دربار لگایا گیا، بادشاہ اپنے تخت پہ بیٹھا اور لوگوں سے بات کرنے کو کہا۔ ایک نمائندہ کھڑا ہوا اور بولا کہ حضور ہمارا ایک مسئلہ ہے اور ہم حل چاہتے ہیں۔ بادشاہ نے کہا کہ بیان کریں۔ وہ گویا ہوا کہ حضور ہم لوگ صبح کام پر جاتے ہیں۔ مرکزی دروازے پر فی کس دو جوتے مارے جاتے ہیں۔ بہت سارے لوگ جوتے کھانے کے لیے قطار میں کھڑے رہتے ہیں۔ آپ نے جوتے مارنے کے لیے صرف ایک شخص مقرر کیا ہے۔ جس کی وجہ سے اکثر لوگوں کی باری دیر سے آتی ہے اور ہم کام پر پہنچنے سے لیٹ ہو جاتے ہیں۔ جناب سے گزارش ہے کہ جوتے مارنے والے بڑھائے جائیں تا کہ ہم لیٹ نا ہوں۔
یہ سن کر بادشاہ نے جوتے مارنے والوں کی تعداد زیادہ کر دی اور سب ہنسی خوشی رہنے لگے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).