فوج فعالیت کی بجائے آئینی کردار پر اکتفا کرے


افغانستان کے صدر اشرف غنی کی اس بات سے اختلاف ممکن نہیں ہے کہ جنگ جیتنے کی بجائے اسے ختم کرنے کے لئے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بات انہوں نے پاکستان کے مشیر برائے قومی سلامتی لیفٹیننٹ جنرل (ر) ناصر خان جنجوعہ کے ساتھ ملاقات میں کہی ہے۔ اسی ملاقات میں صدر اشرف غنی نے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو افغانستان کا دورہ کرنے کی دعوت بھی دی ہے تاکہ افغانستان میں امن کی کوششوں کے لئے لائحہ عمل تیار کیا جاسکے۔ افغان صدر نے یہ بھی کہا ہے کہ ہمیں ماضی کا قیدی بننے کی بجائے مستقبل کی طرف دیکھنا ہوگا اور امن کے لئے مل جل کر کوشش کرنا ہوگی۔ انہوں نے اس مقصد کے لئے پاکستان سے مدد کی درخواست کی ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان طویل تنازعہ اور بدگمانی کے ماحول کے بعد افغانستان کے صدرکی یہ پیشکش مستحسن اور قابل غور ہے۔ قومی سلامتی کے مشیر جنرل ناصر جنجوعہ کے ایک بیان میں اس پیشکش کو اندھیری سرنگ میں روشنی کی کرن قرار دیا گیا ہے۔ تاہم یہ مقصد حاصل کرنے کے لئے دونوں ملکوں کی قیادت کو صاف دلی سے اعتماد کا رشتہ استوار کرکے آگے بڑھنے کی ضرورت ہوگی۔

اس دوران وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے امریکہ کے نجی دورے کے دوران امریکی صدر مائیک پنس سے ان کے گھر پر ملاقات کی ہے اور دونوں ملکوں کے تعلقات کے حوالے سے بات چیت کی گئی ہے۔ امریکہ کے ساتھ پاکستان کے تعلقات اس وقت افغانستان کی صورت حال سے جڑے ہوئے ہیں، اس لئے فطری طور پر دونوں رہنماؤں نے افغانستان کی جنگ، وہاں امن قائم کرنے کی کوشش اور پاکستان کے کردار کے بارے میں گفتگو کی ہوگی۔ یہ بات چیت چونکہ دوبدو تھی اور اس میں میڈیا یا دوسرے حکام شریک نہیں تھے اس لئے اس کی زیادہ معلومات سامنے نہیں آسکی ہیں۔ لیکن امریکی ذرائع نے واضح کیا ہے کہ نائب صدر مائیک پنس نے وزیر اعظم عباسی کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ پیغام پہنچایا ہے کہ پاکستان کو افغانستان میں قیام امن کے لئے اور وہاں دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے مزید اقدامات کرنے ہو ں گے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اقتدار سنبھالنے کے بعد سے پاکستان پر دباؤ میں اضافہ کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے پاکستان کی امداد بھی معطل کی ہے اور واضح کیا ہے کہ اگر پاکستان نے دہشت گرد گروہوں کی امداد بند نہ کی تو امریکہ کے ساتھ پاکستان کے تعلقات مزید خراب ہو سکتے ہیں اور اسے سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ تاہم اس دوران دونوں ملکوں کے حکام نے باہمی مشاورت کا سلسلہ جاری رکھا ہے اور پاکستان نے بھی امریکہ کی اس خواہش کا احترام کرنے کا عندیہ دیا ہے کہ افغانستان میں امن کے لئے ہمہ قسم کوششوں کو تیز کرنے اور عسکری گروہوں پر دباؤ بڑھانے کی ضرورت ہے۔

اسی حوالے سے گزشتہ دنوں افغان صدر اشرف غنی نے طالبان کو مذاکرات کی غیر مشروط پیشکش بھی کی تھی اور اس مقصد کے لئے طالبان کو متعدد سیاسی مراعات دینے کا اعلان بھی کیا تھا۔ اشرف غنی کی یہ پیشکس بھی فراخدلانہ اور سیاسی طور سے جراتمندانہ اقدام تھا۔ اگرچہ یہ کہا بھی جا رہاہے اور یہ بات کسی حد تک قابل فہم بھی ہے کہ صدر اشرف غنی کی طرف سے طالبان کو سیاسی مراعات کا اعلان امریکہ کی مرضی اور صوابدید سے ہی سامنے آیا ہوگا لیکن اس حوالے سے سیاسی بازی بہر حال اشرف غنی نے ہی کھیلی ہے اور ان کی حکومت کا مستقبل ہی اس منصوبہ کی کامیابی یا ناکامی سے جڑا ہے۔ طالبان نے ابھی تک اس پیشکش کا جواب نہیں دیا ہے۔ لیکن ان کے ساتھ درپردہ رابطوں کا سلسلہ طویل عرصہ سے جاری رہا ہے اور صدر اشرف غنی کی طرف سے مذاکرات کی پیشکش کے بعد بھی یہ روابط موجود ہیں۔ جو لوگ اور عناصر ان مذاکرات کے لئے افغان طالبان اور حکومت کو قریب لانے کی کوشش کررہے ہیں، وہ اب بھی سرگرم ہیں۔ لیکن طالبان میں باہمی اختلافات موجود ہیں۔ داعش نے شام اور عراق میں شکست کے بعد افغانستان پر توجہ مبذول کی ہے۔ افغانستان میں اس کے زیر اثر عسکری گروہوں کی بڑھتی ہوئی قوت کی وجہ سے افغان طالبان پر بھی جنگ جاری رکھنے کے لئے دباؤ بڑھتا ہے۔ اس حوالے سے پاکستان کا کردار اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔ افغان طالبان کے ساتھ پاکستان کی ایجنسیوں کے طویل اور گہرے تعلقات رہے ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان میں طالبان قیادت کے اہل خاندان اور عزیز موجود ہیں اور اس حوالے سے بھی پاک فوج اور افغان طالبان کے درمیان رابطہ و تعلق قائم ہے۔

پاکستان نے آپریشن ضرب عضب اور آپریشن رد الفساد شروع کرنے کے بعد سے یہ دعویٰ کیا ہے کہ اس نے جنگ جوئی میں مصروف ہر قسم کے عسکری گروہ کے ساتھ رابطہ ختم کردیا ہے اور پاکستان کی سرزمین سے ہر قسم کے دہشت گرد گروہوں کا خاتمہ کردیا گیا ہے۔ امریکہ اور افغانستان اس پاکستانی مؤقف کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ پاکستان حقانی نیٹ ورک اور طالبان کی قیادت کو تحفظ فراہم کرکے افغانستان میں دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کا سبب بن رہا ہے۔ پاکستان اگرچہ اس الزام کو سختی سے مسترد کرتا رہا ہے لیکن امریکہ کی طرف سے اس حوالے سے اصرار جاری ہے۔ اسی کا اظہار وزیر اعظم عباسی اور نائب صدر پینس کی ملاقات میں بھی ہؤا ہے۔ جبکہ قومی سلامتی کے مشیر جنرل جنجوعہ نے افغان صدر سے ملاقات کے بعد ایک بیان میں اس بات پر ایک بار پھر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ افغانستان کی صورت حال کے حوالے سے پاکستان کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ پاکستان اس کے برعکس افغانستان میں پاکستان دشمن عناصر اور بھارت کی طرف سے ان کی سرپرستی کی نشاندہی کے ذریعے یہ بتانے کی کوشش کرتا رہا ہے کہ اس تنازعہ میں اصل قصور وار بھارت ہے۔ اگرچہ اس پاکستانی مؤقف کو تسلیم نہیں کیا جاتا لیکن گزشتہ کچھ عرصہ میں امریکہ نے افغانستان میں مقیم پاکستان دشمن عناصر کے خلاف کارروائی کی ہے۔ ان اقدامات میں تحریک طالبان پاکستان کے قائد مولوی فضل اللہ کی گرفتاری یا ہلاکت کے لئے انعام کا اعلان بھی شامل ہے۔

پاکستان کو افغانستان میں حالات بہتر ہونے کی صورت میں سفارتی طور پر سہولت حاصل ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ افغانستان کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کا موقع بھی مل سکتا ہے۔ پاکستان کو یہ اندیشہ لاحق رہا ہے کہ بھارت نے افغان قیادت کے ساتھ گہرے مراسم کے ذریعے اسے پاکستان دشمنی پر آمادہ کرلیا ہے۔ ایسی صورت میں پاکستانی فوجی قیادت افغان طالبان کو مستقبل میں مغربی ہمسایہ ملک میں اپنے اثر و رسوخ کے لئے ضروری سمجھتی رہی ہے تاکہ مشرقی سرحدوں پر واقع بھارت سے مقابلہ میں سہولت حاصل کی جاسکے۔ یہ حکمت عملی مسلسل چیلنج ہو رہی ہے لیکن اعلانات کے باوجود پاکستان کی طرف سے اس میں واضح تبدیلی کے آثار دکھائی نہیں دیتے۔ اسی وجہ سے امریکہ پاکستان پر الزام عائد کرتا ہے اور اسی لئے کابل کےساتھ پاکستان کے تعلقات کشیدہ رہے ہیں۔ تاہم اب صدر اشرف غنی اگر نیک نیتی سے افغانستان میں امن کے لئے پاکستان کے تعاون کے خواہشمند ہیں تو پاکستان کو بھی اس حوالے سے موقع غنیمت جانتے ہوئے مثبت قدم اٹھانا چاہئے۔ اسی طرح پاکستان اپنے ہمسایوں کے علاوہ عالمی سطح پر درپیش مشکلات کا سامنا کرسکتا ہے۔

اگرچہ پاکستانی فوجی قیادت یہ کہتی رہی ہے کہ وہ افغانستان میں امن کے لئے ہر قسم کا تعاون کرنے کو تیار ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ملکی سیاسی معاملات میں بدستور بالادستی کا مظاہرہ کرکے یہ بھی واضح کیا جارہا ہے کہ بھارت اور افغانستان کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے فوج سیاسی قیادت کو اپنی فہم اور عوامی تائید کی بنا پر فیصلے کرنے کا حق دینے اور معاملات کی نگران سمجھنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ یہ رویہ جس طرح ماضی میں مشکلات کا سبب بنا ہے، اسی طرح مستقبل میں بھی اس کی وجہ سے افغانستان اور امریکہ کے ساتھ معاملات طے کرتے ہوئے الجھنوں میں اضافہ ہی ہوگا۔ پاک فوج کی قیادت کو اب سمجھنا ہوگا کہ انہیں خارجہ اور سیکورٹی تعلقات کے حوالے سے قیادت کرنے کی بجائے پارلیمنٹ کے فیصلوں کا پابند ہونا چاہئے۔ اس طرح دوسرے ممالک پر بھی یہ واضح ہو سکے گا کہ اب معاملات پارلیمنٹ میں طے ہوتے ہیں اور فوج حکومت کے ایک زیر نگیں ادارے کے طور پر صرف وہ فریضہ سرانجام دیتی ہے جو اسے تفویض کیا جاتا ہے۔

پاکستان کی فوج جب تک قومی سلامتی کے نام پر تمام فیصلے کرنے، خارجہ تعلقات میں کردارا دا کرنے اور ملک کے داخلی معاملات پر اپنا کنٹرول برقرار رکھنے کے دیرینہ طریقہ کار جاری رکھے گی اور اس ’حق‘ سے دستبردار نہیں ہوگی، ہمسایہ ملکوں کے ساتھ پاکستان کے تعلقات بہتر ہونے کا امکان نہیں ہے۔ افغانستان میں امن کے لئے بھی فوج کو اب فعالیت کی بجائے سیاسی قیادت کی تابعداری کے آئینی اصول کو تسلیم کرنا ہوگا۔ ماضی قریب کےتجربات سے واضح ہے کہ ہر شعبہ میں فوج کی مداخلت سے نہ صرف پاکستان کو عالمی تنہائی کا سامنا کرنا پڑا ہے اور معاشی حالات دگرگوں ہوئے ہیں بلکہ ملک کے سیاست دان بھی قومی مقصد کی تکمیل کی بجائے محدود اقتدار کےلئے فوج کی بی ٹیم کا کردار ادا کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ اس صورت حال کو بدلے بغیر کچھ بھی تبدیل ہونا ممکن نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2768 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali