غریبی اک بد صورت بلا ہے


\"almas

ایک کوڑے کے ڈھیر پراک ضعیف العمرشخص بیٹھا، دور سے ایسے محسوس ہورہا تھا جیسے وہ رفع حاجت کے لئے  بیٹھا ہے لیکن قریب پہنچے تو دیکھ کر دل مردہ سا ہو گیا کہ ا س کی حاجت کچھ اور نہیں، بھوک تھی جسے وہ مٹا رہا تھا، کچھ گلے سڑے پھل اورروٹیوں کے ٹکڑے گلے سے نیچے اتار رہا تھا۔ سٹرک پر ٹریفک کا ہجوم رواں دواں تھا، زندگی مصروف ِکاروبار تھی۔یہ شخص نہ جانے جرمِ ضعیفی کی سزا بھگت رہا تھا یا غربت کی بد صورت بلاکے آسیب میں تھا۔یہ منظر دیکھ کرمجتبٰی حیدر شیرازی کا وہ شعریاد آگیا کہ

غریبی اک بد صورت بلا ہے

کئی پریوں کے پیکر کھا گئی ہے

کسی پری پیکر کے اس شہزادے پر کیا گزری کہ بھوک مٹانے کے لئے  فقط کوڑے کا ڈھیر ہی میسر آیا۔ اگر گداگری کرتا تو سمجھا جاتا کہ یہ تو ہے ہی پیشہ ور اِن پر پشیماں ہونا ضروری نہیں، کئی سوال ذہن میں آئے، اس کا ذہنی توازن تو بگڑا ہوا نہیں ہے؟ اس کے بچے کہاں ہیں؟ وہ بھی تو ناخلف ہو سکتے ہیں، بیو ی زندہ ہے، بھائی کہاں ہیں؟ چارہ گر، خیر خواہ اور دوست سب کہاں مر گئے۔ زندگی کے آخری ایام میں کوئی تو داد رسی کرتا؟ کیا حالات تھے کہ کوڑے کے ڈھیر پر پہنچ گیا۔ جہاں تک ریاست کی بات اس کی ترجیحات میں غربت کاخاتمہ کبھی ترجیح نہیں رہا۔ غربت نہ تو حکومت کا مسئلہ ہے اور نہ ہی حزب اختلاف کی جماعتوں کا جبکہ ذرائع ابلاغ مصنوعی بحرانوں میں مشغول ہے۔

شنید ہے کہ حکومت نئی غربت کی لکیر یا خط غربت کے تعین میں مصروف ہے، ایک خط ِغربت تھا جس میں فقط خوراک اور توانائی تک رسائی کوہی پیمانہ بنایا گیا تھا، یعنی جنہیں خوراک اور توانائی جیسی تعیشات میسر تھیں وہ غریب کہنے کا مستحق نہیں تھا اور جو تمام تر مشقتوں اور تدابیر کے باجود ان دونوں تک رسائی سے محروم تھا حکومت کے نزدیک غریب کہلانے کا حق صرف اسے حاصل تھا۔ منصوبہ سازوں کے پرانے فارمولے کے مطابق پاکستان میں اس لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والے افراد کی تعداد مجموعی آبادی کا 9 فیصد بتائی جاتی ہے۔

 اب کہ کچھ \’\’خط ِغربت \’\’کے نئے پیمانوں کی بنیاد پر خدو خال وضع کئے جارہے ہیں۔غربت کی اس لکیر میں خوارک اور توانائی دیگر بنیادی ضروریاتِ زندگی جن میں تعلیم، صحت، سفری سہولیت، سماجی تحفظ تک عدم رسائی سمیت کئی اہم اشاریوں کو شامل کرنے کے بارے میں غور و غوض جاری ہے۔ اس نئی غربت کی لکیر کو اختیار کئے جانے کے بعد ملک میں آبادی کا 29 فیصد سے زائد افراد غربت کی نچلی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جب کہ اس غربت کی لکیر سے ذرا اوپر آبادی کا اتنی ہی شرح جو کسی بھی حادثے کی صورت میں اس لکیر سے نیچے گر سکتے ہیں۔

پرانے فارمولے کے حساب سے حکومتی اور ماہرین معیشت کے مطابق گذشتہ کچھ سالوں میں اس نچلی لکیر زندگی بسر کرنے والوں کی تعداد میں تیزی سے کمی واقع ہوئی ہے۔ یعنی 2011-12 سے لے کر 2013 -14 میں 25 فیصد لوگ پھلانگ کر اس لکیر سے اوپر چلے گئے ہیں۔ گذشتہ دنوں منصوبہ بندی کمیشن میں پاکستان اور عالمی بنک کے ماہرین کی ایک مشترکہ ورکشاپ کے دوران خط غربت کے تعین کے نئے طریقہ کار بحث بھی ہوئی ہے جس میں عالمی بنک کے پاکستان میں کنٹری ڈائریکٹر اور دیگر اعلی حکام بھی موجود تھے۔ اس موقع پر پاکستان کے وزیر خزانہ محمد اسحاق ڈار نے بتایا کہ ہم نے ملک میں خط غربت کا ازسرنو تعین کرنے کے لئے  عالمی طور پر مسلمہ اصولوں کو اپنایا ہے، غربت کی شرح میں کمی ہوئی لیکن ہم یہ چیلنج قبول کرنے کے لئے  تیار ہیں کہ اسے ٹھوس بنیادوں پر کم کرنے کے لئے  قومی سطح پر حکمت عملی بنائی جائے۔

حکومتی دعوے کچھ بھی ہوں جو اعداد و شمار کے مطابق غربت کے تعین کر کے عوام کو بیوقوف بنانے میں مصرف رہتے ہیں۔ گذشتہ تین دہائیوں سے تیزی سے برھتی ہوئی آبادی، سکڑتے ہوئے پیداواری ذرائع، ناقص منصوبہ بندی، دہشت گردی، غیر ملکی سرمایہ کے لئے  ناموزوں ماحول اور حکومتی ترجیحات کے سبب لوگوں کی زندگی مشکل سے مشکل ترین ہوتی جارہی ہے۔ نہ جانے کتنے لوگ اُ س ضعیف العمر شخص کی طرح کوڑے کے ڈھیر سے اپنا پیٹ بھر کر زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔

الماس حیدر نقوی
Latest posts by الماس حیدر نقوی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments