شناخت کا بیل یا عصبیت کا کتا….؟


اس ملک کی نظریاتی سرحدوں پہ کیا برف کی دیواریں کھنچی ہوئی ہیں جو سورج کی ایک کرن سے ان کا سینہ چھلنی ہوجاتا ہے؟ شور قیامت اٹھایا جا رہا ہے کہ ہم سندھی، سرائیکی، بلوچی اور پٹھان کو اپنی عصبیت پہ اصرار کا جواز مہیا کررہے ہیں۔ لاحول ولاقوہ۔ شرق و غرب کی کشادگیوں میں عیش اڑاتے ذرے کو زیب بھی کہاں دیتا ہے کہ وہ علاقائیت کے گنبد میں بیٹھ کر گھٹن کے شب وروز گنتا رہے۔ طے یہ کرنا ہے کہ کوئی آشفتہ سر اگر مٹی سے محبت کرتا ہے تو یہ فطرت کے عین مطابق ہے کہ نہیں؟َ اگر نہیں تو سمجھا دیجئے کہ کیسے نہیں؟ اگر ہے تو پھر سماج سے آپ اسے بے دخل کیوں کردینا چاہتے ہیں؟ کوئی خاص وجہ؟

رکئے، پہلے یہ فرض کر لیتے ہیں کہ قومی لسانی اور علاقائی فخر ایک لعنت ہے۔ سچ یہ ہے کہ اسے لعنت سمجھنے والے گنتی میں زیادہ ہیں۔ محراب چوڑے ہوجاتے جارہے ہیں منبر کے زینے پہ زینہ چڑھا جارہا ہے، مینار بلند سے بلند تر ہورہے ہیں، گنبد مسلسل گونج رہے ہیں، لاوڈ اسپیکر کی آواز سے عرش کانپ رہا ہے، مدارس کی دیواریں اٹھتی چلی جارہی ہیں علمائے کرام ومشائخ عظام کی تعداد تیسرے آسمان کو چیر کر چوتھے سپتک کو چھونے کی فکر میں ہیں۔ تنظیم سے تنظیم پیدا ہوتی جارہی ہے ایک کتاب کے اکیسویں صفحے پہ پہنچیئے کہ پیچھے سے دوسری کتاب چلی آرہی ہے۔ صحافتِ اسلامیہ رنگ جماتی رہی ہے۔ دائیں ہاتھ والا قلم ایک جہاں کو مہکاتا چلا رہا ہے۔ سماجی ذرائع ابلاغ پہ فتوے کی فیکٹریاں اور اصلاح کے مراکز کھلتے چلے جارہے ہیں۔ پندار کے صنم کدے میں صدائیں پوری رفتار سے دم بدم اللہ ہو بڑھتی ہی جارہی ہیں مگر ساتھ ہی ساتھ میں قومی ولسانی عصبیت جیسی لعنت اس سے بھی دگنی رفتار کے ساتھ بڑھتی چلی جارہی ہے۔ یہ کیا ہے صاحب؟ الوہی تجزیہ؟

سوال آپ کے کردار پہ پیدا ہوگیا۔ لوگ آپ کی کیوں نہیں سنتے؟ آپ کی بشارتوں سے غریب کی خوشگوا ریوں میں اضافہ کیوں نہیں ہوتا؟ آپ کی وعید سے بے کسوں کی سوگواری میں کمی کیوں واقع نہیں ہوتی۔ آپ کے کہنے سے جو لوگ داڑھیاں چھوڑ رہے ہیں، وہ عصبیت کیوں نہیں چھوڑ رہے؟ مسئلہ یہ ہے کہ مردار کتے کو آپ گہرائی میں چھوڑ کر پانی کے ڈھول نکالتے جاتے ہیں۔ پھر خوش گمان رہتے ہیں کہ ایک دن کنویں کا پانی صاف ہوجائے گا۔ پاکستان کے علاقائی کنویں میں محرومی نام کا ایک کتا نصف صدی سے پڑا ہوا ہے. نصف صدی سے پورے مغربی پاکستان کی جان عذاب کررکھی ہے۔ آلودہ پانی ہے جو مکین پینے پہ مجبور ہیں۔ مکین آواز دیتے ہیں کہ صاحب کنویں کا کچھ کیجئے، زندگی اجیرن ہوئی پڑی ہے۔ ذمہ دار آستین چڑھاتے ہیں، لنگوٹ کستے ہیں اور علاقے کی ترقی کے نام پہ پانی نکالنا شروع کر دیتے ہیں۔ اب کنواں صاف تو کیا ہوتا، مہربانوں نے منڈیر پہ رش اتنا لگا دیا کہ مکین آلودہ پانی نکالنے سے بھی عاجز ہیں۔ کتا نہیں نکلے گا، پانی صاف نہیں ہوگا۔ پانی صاف نہیں ہوگا تو کنواں مہربانوں کے قبضے میں رہے گا۔ جو پانی کی ماہیت کو رو رہے تھے، وہ رفتہ رفتہ کنویں کی ملکیت سے بھی گئے۔ اس کنویں کا معاملہ یہ ہے کہ دور سے دیکھئے تو لگتا ہے کچھ لوگ اہل محلہ کی مدد کر رہے ہیں۔ اہل محلہ کو ان مہربانوں پہ سوال اٹھاتا دیکھتے ہیں تو ان کو تہذیب کا ایک درس اور دینا شروع کر دیتے ہیں کہ حضور وہ تو آپ کی مدد پہ کمر بستہ ہیں اور آپ ہیں کہ گالیاں دیے جا رہے ہیں؟ یہ واعظانِ شہر قریب سے جا کر معاملہ دیکھتے نہیں۔ قبر کا حال تو ایک مردہ ہی جانتا ہے، سو وہی جھیلتا ہے۔ ستم بڑھتا چلا جائے تو اہلِ محلہ کی چیخ و پکار فطری نہیں ہوجاتی؟ یہ عین فطرت ہے، مگر قبضہ مافیا کیلئے کیا فطرت اور کیا قدرت۔ یہ اپنی چونی کیلئے جان ماردیں گے چاہے اس کیلئے کسی کا پانچ ہزار کا نوٹ کیوں نہ توڑنا پڑے۔ مسئلے ختم نہیں کریں گے اور اسلحہ اٹھائے پھریں گے۔ کمال ہے، صاحب ….

حقوق کی جائز جنگوں میں اٹھتی ہوئی آوازوں کو دبانے کے دو ہی طریقے ہیں۔ تلوار کھینچ لیجئے یا پھر الوہی تشریحات کا سہار لے کر نظریاتی خوف وہراس پھیلا دیجئے۔ تلوار کھینچنے کی ذمہ داری کس کی ہے وہ تو معلوم ہے، مگر یہ الوہی تشریحات مہیا کرنے والے کون ہیں؟ دائیں بائیں نہ دیکھیئے اپنی قباوں میں جھانکئے۔ ملک کے محافظوں نے کہا اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں، ہم ایک ہیں۔ آپ نے اس پہ گرہ لگا دی کہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو۔ اس پر جو مزید حاشیہ آپ لگاتے ہیں اس سے معاشرتی علوم کے نصاب نے جنم لے لیا۔ اس نصاب کے بین السطور مین درج ہے کہ وہ سارے بلوچ وحدت کے دشمن ہیں جو اپنا حق مانگتے ہیں۔ جو صوبہ کسی بھی منصوبے کی مد میں اپنی رائلٹی کی بات کرے اسے غدار تصور کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ کے وہ سانچے جو مطالعہ پاکستان نے ترتیب دیئے ہیں ان میں باچا خان، ولی خان، خیر بخش مری، میر غوث بخش بزنجو اور جی ایم سید کے نام توازن کے ساتھ نہیں بیٹھ پاتے۔ گاہے ذولفقار علی بھٹو کو بھی بمشکل اس سانچے میں بٹھانا پڑتا ہے۔ وحدت کے اس تناظر کو اگر موجودہ شکل میں سمجھنا ہو تو پھر وہ تمغے اٹھا کر دیکھ لیجئے جو ان دنوں اقتصادی راہداری میں اپنا جائز حصہ مانگنے والے سیاست دانوں اور دانشوروں کے سینوں پہ سجائے جارہے ہیں۔ کبھی غور سے دیکھیے گا ان تمغوں پہ لکھا کیا ہے۔ پھر سوچیئے گا کہ علاقائی تقسیم گہری سے گہری کیوں ہوتی جارہی ہے؟ گہرائی کی وجہ ہم عرض کئے دیتے ہیں گر قبول افتد….

قومی اور فکری تنوع ایک ایسی حقیقت ہے جس کا راستہ نہیں روکا جا سکتا۔ پھر اس تنوع سے تشکیل پانے والی عصبیت ایک دوسری حقیقت ہے جس کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔ کسی طور بھی ممکن نہیں ہے۔ جو چیز ممکن ہے وہ یہ کہ قومی وفکری تنوع رکھنے والے سماج میں مو جود عصبیتوں کی تزئین کی جائے، تہذیب کی جائے۔ موجود تقسیم کو تقسیم مان کر اطمینان کا سامان کیا جائے۔ عصبیت کا دھارا ایسی سمت میں موڑ دیا جائے جہاں سے ایک صحت مند مقابلے کی فضا پیدا ہو۔ مقابلے کی اس فضا میں معیشت سانس لے پاتی ہے اور علم و تحقیق کے دروازے کھلتے ہیں۔ عصبیت کی تزئین کا یہ سفر اس وقت تک کار آمد ہو نہیں سکتا جب تک کہ فکری وعلاقائی تقسیم کو مطلوبہ سہولیات اور ضروریات کی بنیاد پر مطمئن نہ کردیا جائے۔ سماج میں موجود تقسیم کو اگر حقیقت ہی تسلیم نہ کیا جائے تو انحراف کا جذبہ جنم لیتا ہے۔ منحرف طبعیتوں کو بروقت اگر مائل بہ کرم نہیں کیا جائے گا تشدد جنم لے گا۔ دستیاب تاریخ کا سبق ہے کہ تشدد کی یہ لہریں آسمانی تعلیمات سے کبھی ختم ہوسکی ہیں اور نہ منطق کے قضیوں سے۔ خون آلود سوالیہ نشان کا جواب صرف ریاضی کے پاس ہے مگر مشکل یہ ہے کہ فقیہ شہر مال ودولت کو فتنہ اور حق کے مطالبے کو لسانی لعنت قرار دیکر پیٹ کو پل دو پل کیلئے ہراساں کردیتا ہے۔ مگر تابکہ؟

کیجئے، ہراساں کیجئے، ہم کیا کر سکتے ہیں؟ لے دے کے ہم ایک سوال ہی تو کر سکتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر عصبیت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہی مسئلے کا حل ہے تو پھر وضو کیجئے اور پہلے فرقہ واریت کا خاتمہ کر کے مثال قائم کر دیجئے۔ یہ رہا گھوڑا اور یہ رہا میدان۔ شیوخ و سالک میں کون ہے جو وحدت پہ ایمان نہیں رکھتا؟ کون ہے جو انتشار کے خلاف نہیں ہے؟ پھر یہ وحدت کی واؤ تک بھی حاصل کرنے میں کیوں ناکام ہیں؟ کیونکہ یہاں فرقہ واریت کے نہیں، مسلک کے خاتمے پہ اصحاب کمر بستہ ہیں۔ سنی یہ نہیں چاہتا کہ شیعہ کا مسلکی استحقاق تسلیم کر کے اسے جینے دیا جائے۔ وہ شیعہ نظریات ہی کا خاتمہ کردینا چاہتا ہے۔ شیعہ یہ سوچتا ہے کہ جب تک یہ ساری دنیا اپنے نظریات سے دستبردار ہوکر میرے عمامے کے سائے میں نہ آجائے اس وقت تک وحدت کیسے قائم ہوسکتی ہے؟ تو لگے رہیے پھر۔ کنویں میں کتا موجود اور منڈیر پہ کولہو کا بیل سلامت۔ رویئے زار زار کیوں، کیجئے ہائے ہائے کیوں….


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments