آپ کہاں کے صحافی ہو؟


\"omairدفتر سے واپسی پر ایک بیکری نما جنرل اسٹور سے گھر کے لیے چیزیں خریدتا ہوں۔ بیکری مالک خوش مزاج شخص ہیں۔ کبھی فراغت ہو تو گپ لگا لیتے ہیں۔

آج اطلاع نما سوال کیا، پھر جا رہا ہے وزیراعظم؟

میں نے کہا فی الحال تو ایسے کوئی آثار نہیں۔

کہنے لگے، “میں آپ کو اندر کی خبر دیتا ہوں۔ نوازشریف اگلے مہینے استعفیٰ دے دے گا۔اور برطانیہ کا وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون ایک ہفتے کے اندر اندر مستعفی ہو جائے گا۔ ”

یعنی ان صاحب کو پاکستانی وزیراعظم کےساتھ ساتھ برطانوی وزیراعظم کے ارادوں کا بھی علم ہے! میں مرعوب سا ہوا۔

پوچھنے لگے، “آپ کو پتہ ہے پانامہ لیکس کی گیم ڈالی کس نے ہے؟”

کم علمی کا اعتراف کیے بغیر چارہ نہ تھا۔

فاتحانہ نظروں سے مجھے دیکھ کر کہنے لگے، “شہباز شریف نے۔”

دنیا کے بڑے بڑے سربراہوں اور سرمایہ کاروں کی خفیہ دولت بے نقاب کرنے کے پیچھے وزیراعلیٰ پنجاب کا ہاتھ ہو گا۔۔۔ میں بھونچکا رہ گیا۔

لیکن بھیا! پانامہ لیکس کے حمام میں تو شہباز شریف کے اپنے بھائی بے لباس ہوئے ہیں؟

میرے سوال پر فاتحانہ مسکراہٹ مزید گہری ہو گئی۔ کہا، دراصل شہباز شریف اور نواز شریف کی آپس میں نہیں بنتی۔ آپ نے دیکھا نہیں شہباز شریف نے اسلام آبادمیں مولوی بھجوائے تو نواز شریف نے پنجاب میں فوج بھجوا دی۔

گویاپارلیمنٹ پر مذہبی جماعتوں کی چڑھائی شہباز شریف کی سازش تھی، اور لاہور گلشن پارک دھماکے کے بعد پنجاب میں فوجی آپریشن دراصل نواز شریف کی انتقامی کارروائی تھی؟ میں حیرت کے سمندر میں غوطے کھانے لگا۔ آخر دو سگے بھائیوں میں اختلافات کی خلیج اتنی گہری کیوں ، کب اور کیسے ہوئی؟ میری آنکھوں میں استعجاب تھا، اور سوال تھے۔

بولے، شہباز شریف اور ان کے اہل خانہ جلتے ہیں کہ نواز شریف کے بیٹوں نے برطانیہ میں اتنی پراپرٹی کیسے بنا لی۔ حمزہ شہباز تو یہاں تک کہتے ہیں،” کیا میاں شریف کا ایک نواز شریف ہی بیٹا تھا؟” دونوں بھائیوں اور اہل خانہ میں بگاڑ اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ کہیں کہیں تو تکار کے ساتھ ساتھ ہاتھا پائی بھی ہوئی ہے۔

یہ تمام انکشافات سننے کے بعد مبینہ صحافی اپنی لاعلمی پر شرمسار کھڑا تھا۔۔۔ ان کے اختتامی فقرے نے میری نام نہاد صحافت کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دیا۔ پنجابی میں گویا ہوئے

تسی پتہ نہیں کادے صحافی او۔۔۔اندر دیاں خبراں تے ساریاں میرے کول نیں۔۔(آپ پتہ نہیں کہاں کے صحافی ہیں، اندر کی ساری خبریں تو میرے پاس ہیں۔)

اس وقت سے سوچ رہا ہوں، صحافت چھوڑ کر بیکری ہی کھول لوں۔

عمیر محمود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عمیر محمود

عمیر محمود ایک خبری ٹیلی وژن چینل سے وابستہ ہیں، اور جو کچھ کرتے ہیں اسے صحافت کہنے پر مصر ہیں۔ ایک جید صحافی کی طرح اپنی رائے کو ہی حرف آخر سمجھتے ہیں۔ اپنی سنانے میں زیادہ اور دوسروں کی سننے میں کم دلچسپی رکھتے ہیں۔ عمیر محمود نوک جوک کے عنوان سے ایک بلاگ سائٹ بھی چلا رہے ہیں

omair-mahmood has 47 posts and counting.See all posts by omair-mahmood

Subscribe
Notify of
guest
10 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments