میں نے پوتن کی حریف کسینیا کو ووٹ کیوں دیا؟


مجھے روسی شہریت مئی 1999 میں ملی تھی۔ روس میں صدارتی انتخابات 2000 میں ہونے تھے، اس دوران میں امریکہ میں تھا اور پوتن کے جیتنے کے بعد دسمبر 2000 میں روس لوٹا تھا۔ امریکہ میں بش جونیئر اور الگور کے درمیان مقابلے کے بعد الیکٹرانک مشینوں میں خرابی پر تنازعہ طویل ہو گیا تھا۔ مجھے ایمسٹرڈیم کے ہوائی اڈے کے اندر نصب ٹی وی سے معلوم ہوا تھا کہ بالآخر بش کامیاب قرار دے دیے گئے تھے۔

مجھے پہلی بار 2004 میں روس کے صدارتی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا موقع میسّر آیا تھا۔ تب تک پوتن خاصے مقبول ہو چکے تھے۔ میں نے ”پرانی محبت“ میں کمیونسٹ پارٹی کے امیدوار گینادی زوگانوو کے حق میں ووٹ ڈالا تھا۔ چار سالوں میں دیکھ لیا کہ کمیونسٹوں نے حزب اختلاف ہوتے ہوئے حکومت کے شاید ہی کسی عمل میں رخنہ ڈالنے کی کوشش ہو۔ یوں کہہ لیجیے کہ کمیونسٹ پارٹی آف رشین فیڈریشن نے ”فرینڈلی اپوزیشن ” کا کردار ادا کیا تھا جو وہ اب تک کرتی چلی آ رہی ہے۔

2008 کے صدارتی انتخابات میں میری رائے ولادیمیر پوتن کے امیدوار دمتری مدویدیو کے حق میں گئی تھی چونکہ تب تک روس کو ”غنڈہ مافیا“ سے نجات مل چکی تھی۔ روس مستحکم ہونے لگا تھا۔ دمتری مدویدیو کو پوتن کی پالیسیاں ہی آگے بڑھانی تھیں۔ 2012 میں میں نے اپنا ووٹ ولادیمیر پوتن کے حق میں دیا تھا۔ اس کے بعد پوتن صاحب نے پہلا کام یہ کیا کہ ” ربر سٹیمپ پارلیمنٹ ” سے صدارتی مدت کا دورانیہ 4 سال کی بجائے 6 برس کروا لیا۔ ان کے اس دور میں کریمیا کو روس کے ساتھ ملحق کیے جانے کی وجہ سے امریکہ اور یورپ کی جانب سے روس پر مسلسل اقتصادی پابندیاں عائد ہوتی رہیں۔ جو اب تک نہ صرف جاری ہیں بلکہ بڑھتی جا رہی ہیں۔ بیچارے شہریوں کے بینکوں میں رکھے گئے روبلوں کی قدر نصف رہ گئی۔ میں بھی شدید متاثر ہوا تھا۔ شدید اس لیے کہ مجھ بیچارے کی بچت روبلوں میں تھی مگر ہم پاکستانی تارک وطن اسے پاکستان ڈالر کی شکل میں لے جاتے ہیں تو یوں بڑا نقصان ہو گیا۔

کریمیا روس کو سونے کے نہیں بلکہ ہیروں کے بھاؤ پڑا اور پڑ رہا ہے۔ روس میں ایک بار پھر روسی بوڑھے اور بوڑھیاں بھیک مانگتے دکھائی دینے لگے ہیں۔ ملازمتوں میں کٹوتیاں کی گئی ہیں اس کی زد میں ریڈیو وائس آف رشیا جسے بعد میں بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی ”سپتنک“ میں ضم کر دیا گیا تھا، کا اردو ہندی شعبہ بھی آیا جس کے باعث مجھ سمیت بہت سے بیروزگار ہو گئے۔ جو لوگ باروزگار ہیں ان کی ایک طرف تنخواہوں میں کمی کی گئی دوسری طرف مہنگائی کے سبب لوگوں کی قوت خرید کم ہوتی چلی جا رہی ہے۔

مگر یہ تمام عوامل اس کی وجہ نہیں بنے کہ روس کے مقبول ترین رہنما ولادیمیر پوتن جن کے ساتھ مجھے پیار ہے، کو میں نے ووٹ نہیں دیا۔ پیار اس لیے کہ پوتن نے روس کے لیے بہت کچھ کیا ہے۔ نئی صدی میں پہلی بار روس کی خارجہ پالیسی کئی بار کامیاب رہی۔ مغرب خاص طور پر امریکہ روس کے پیچھے پڑ گیا مگر روس نے پیٹھ نہیں دکھائی۔ اردگان کو اپنی غلطی پر معافی مانگنی پڑی۔ سعودی عرب تیل کی قیمتیں مسلسل اس لیے کم کرتا چلا گیا تاکہ روس کو نقصان پہنچے اور اس کی چیں بول جائے کیونکہ روس سعودی عرب کے بعد تیل پیدا کرنے والا دوسرا بڑا ملک ہے اور اوپیک سے باہر پہلا بڑا ملک۔ مگر اس سے الٹا جہاں سعودی عرب کی معیشت کو نقصان پہنچا وہاں سعودی حکام کو خجل ہو کر تیل کی نکاسی سے متعلق روس کے ساتھ معاہدے کرنے پڑے۔ مغرب شام کے صدر کو معزول کرنے کے درپے تھا اور ہے مگر وہ اب بھی شام کے صدر ہیں، یہ بھی روس کی حمایت اور مدد سے ممکن ہو سکا ہے۔ شام میں دہشت گردوں کا خاتمہ کرنے میں روسی فوجیوں اور مشیروں نے جان کی قربانیاں دیں۔ یوں امریکہ کے غرور کو توڑا۔ پاکستان کے ساتھ تعلقات اچھے کیے۔ افغانستان کے سلسلے میں مثبت کردار ادا کیے چلا جا رہا ہے۔

پھر ایسا کیوں ہوا کہ میں نے ووٹ کسینیا سوبچاک کو دیا یہ جانتے ہوئے کہ پوتن ہی جیتیں گے اور میرا ووٹ ایک طرح سے ضائع جائے گا۔ اس کی ایک وجہ تو کسی کے مطابق میرا ”بنیاد پرست جمہوری“ ہونا رہا مگر درحقیقت بڑی وجہ روس میں جمہوریت کی پیش رفت کا مسلسل رکے رہنا بنی۔

سوویت یونین کے انہدام کے بعد روس سمیت جتنے بھی نئے ملک نقشے پر نمودار ہوئے ان میں ماسوائے یوکرین اور پری بالٹک ریاستوں کے سبھوں میں جمہوری عمل نام نہاد رہا ہے۔ ازبکستان میں اسلام کریموو، ترکمانستان میں سپرمراد عطائیوچ نیازوو، آذر بائیجان میں گائیدر علی رضا اوگلو علی بائیو تا دم مرگ صدور رہے۔ ان کے بعد کسی دوست، کسی ذاتی ڈاکٹر یا بیٹے نے ان کی جگہ لے لی۔ کزاخستان میں نور سلطان نذر بائیو اسی سال سے زائد عمر کے ہونے کے باوجود مسلسل صدر بنے چلے آ رہے ہیں۔ بیلاروس میں الیکساندر گریگوریوچ لوکاشینکو کو اب تک کوئی نہیں ہلا سکا۔ روس میں 2000 سے 2008 تک ولادیمیر ولادیمیرووچ پوتن صدر رہے۔ آئین کے مطابق ایک صدارتی مدت کے لیے امیدوار نہیں بنے بلکہ اپنی جگہ اپنے وزیراعظم دمتری مدویدیو کو صدر منتخب کروا دیا اور خود ان کے وزیر اعظم بن گئے۔ 2012 میں تیسری بار خود صدر منتخب ہو کر دمتری مدویدیو کو اپنا وزیر اعظم مقرر کر دیا۔ اب پوتن صاحب 2024 تک صدر تو رہیں گے ہی۔

ایک پروگرام ہے ” کے وے این یعنی خوش باش حاضر جواب لوگوں کا کلب“ جس میں مختلف علاقوں، خطوں، ملکوں، یونیورسٹیوں کی اداکار صداکار ٹیمیں طنز و مزاح کے جوہر دکھاتی ہیں۔ یہ پروگرام ربع صدی سے زیادہ عرصے سے کامیاب ترین چلا آ رہا ہے۔ اس کے ایک پروگرام میں جسے دیکھنے کو صدر پوتن بھی سامعین میں بیٹھے تھے ایک سات سال کا بچہ صدر پر طنز کرتا ہے اور آخر میں ایک نظم سناتا ہے کہ:

”ابھی مجھے بہت انتظار کرنا ہوگا، ملک کا صدر بننے
کے لیے مجھے 35 سال کا ہونا ہوگا، میں ابھی پہلی
جماعت میں ہوں یعنی سات سال کا ہوں تو یوں میں
آپ کی صدارت تمام ہونے کے فوراً بعد صدر بن جاؤں گا۔ “

ایک جانب تو یہ اچھی بات ہے کہ صدر پر برسرعام تنقید کی جاتی ہے چاہے طنز کی شکل میں سہی اور اسے برداشت کیا جاتا ہے۔ روس میں کسی قسم کا کوئی جبر نہیں ہے، یہاں میں خود کو امریکہ میں ہونے کی نسبت زیادہ آزاد خیال کرتا ہوں مگر یہاں سیاسی پارٹیوں خاص طور پر فعال مخالف پارٹیوں کو نمو پانے کے مواقع میسر نہیں ہیں اور اس بات کو چھپایا بھی نہیں جاتا۔ پوتن نے خود کہا تھا کہ ہمارے ہاں ”کنٹرولڈ ڈیموکریسی“ ہے۔ اس طرز حکومت کو ایک طرح سے مطلق العنان ہونے کی نرم شکل کہا جا سکتا ہے۔

وجہ شاید یہ ہو کہ سختی سے دبی ہوئی سیاست بھی دبے ہوئے مضبوط سپرنگ کی مانند ہوتی ہے جسے اگر یک لخت چھوڑ دیا جائے تو فائدے سے زیادہ نقصان پہنچنے کا احتمال ہوگا۔ یوکرین میں یہی ہوا کہ وہاں دو بار انقلاب کے میدان سجے، دوسرا میدان تو خونریز تھا اور اس کے بعد کریمیا سے روس کو نکالنے کی کوشش کے نتیجے میں کیا ہوا سب جانتے ہیں جس سے سب کو ماسوائے کریمیا میں بسنے والے لوگوں کے نقصان ہی اٹھانا پڑا ہے۔ یوکرین میں نسل پرست الٹرا رائٹسٹوں نے طوفان برپا کیا ہوا ہے، غربت اور جرائم کا دور دورہ ہے۔ ملک کے ایک حصے نے کئی سال سے اس سے علیحدہ ہونے کا اعلان کیا ہوا ہے۔

یوں میں نے کسینیا اناطولیونا سوبچاک کو اس لیے ووٹ دیا کہ وہ سیاست کو زیادہ کھولنے کی بات کرتی ہیں۔ اگرچہ وہ پوتن کے محسن اور استاد، پیرسترائیکا کے ایک رہنما اور ایک زمانے میں سینٹ پیٹرز برگ کے میئر اناطولی سوبچاک کی صاحبزادی ہیں اور کہا یہی جاتا ہے کہ وہ پوتن کی ”پاکٹ کینڈیڈیٹ“ تھیں، اسی لیے ان کے یکسر حکومتی پالیسی مخالف بیانات جسے کریمیا کو ملحق کرنے کی مخالفت کے باوجود انہیں گرفتار نہیں کیا گیا۔ مگر مجھے ایسا نہیں لگتا۔ مجھے لگتا ہے کہ پوتن انہیں اپنی بیٹیوں کی طرح پیار کرتے ہیں اور شاید آرزو کرتے ہوں کہ وہ ایک اچھی سیاستدان بن جائیں۔ ابھی کسینا صرف 37 برس کی ہیں۔ ان کے حصے میں، ملک میں ڈالے گئے کل ووٹوں کا محض ایک اعشاریہ سڑسٹھ فیصد حصہ آیا ہے۔ اس کے باوجود میں نہیں سمجھتا کہ میرا ووٹ ضائع گیا ہے۔ میں نے اپنے ضمیر کے مطابق جمہوریت کو آزاد کیے جانے کے حق میں ووٹ دیا ہے۔ نہ میں کسینیا کو جانتا ہوں اور نہ وہ مجھے جانتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).