’ہم سب، پر میرے ایک سو کالم اور پہلی محبوبہ کا خط


ایک مالی زندگی کے اس راز سے واقف ہوتا ہے کہ اگر کوئی بیج بنجر زمین میں کئی سال بھی پڑا رہے تو پھل پھول پیدا نہیں کرتا لیکن اگر زرخیز زمین میں گوڈی کی جائے، اس میں وہ بیج بویا جائے اور پھر اسے صاف پانی، سورج کی روشنی اور تازہ ہوا مہیا کی جائے تو وہ بیج پہلے پودا اور پھر درخت بنتا ہے اور اپنے پھلوں اور پھولوں سے دنیا کو فیضیاب کرتا ہے۔

مالی کی طرح عورت بھی زندگی کے راز سے واقف ہے کہ اگر وہ مہینے کی ایک خاص تاریخ کو اپنے محبوب کے ساتھ سوئے اور اس کے بیج سے اپنی کوکھ میں حمل ٹھہرائے اور اس حمل اور اپنی صحت کا خیال رکھے تو نو مہینوں کے بعد اس کی گود بھر جاتی ہے اور وہ ماں بن جاتی ہے۔

عورت کی طرح ایک لکھاری بھی جانتا ہے کہ اگر وہ ایک تازہ خیال کے بیج کی اپنے ذہن کی کوکھ میں پرورش کرے اور مائوں جیسا صبر کرے تو ایک دن وہ خیال ایک نظم، مضموں یا افسانے کی صورت میں پیدا ہوتا ہے اور ساری دنیا کو محظوط کرتا ہے۔

لکھاری کی طرح ایک ایڈیٹر بھی جانتا ہے کہ اگر وہ کسی لکھاری کی تحریر کو اپنے رسالے کی زرخیز زمین، ذہین قارئین کی دھوپ، دیگر لکھاریوں کا پانی اور دانشور ناقدین کی تازہ ہوا مہیا کرے تو اس لکھاری میں مخفی تخلیقی صلاحیت کا بیج پنپتا ہے اور تازہ تخلیقات کی خوشبو سے رسالے کو مہکاتا ہے۔

میں پچھلے دس سال سے انگریزی میں لکھ رہا تھا پھر عارف وقار نے میرا وجاہت مسعود اور ’ہم سب، سے تعارف کروایا۔ وجاہت مسعود نے میرا عدنان کاکڑ، ’ہم سب، کے ایڈیٹروں ، لکھاریوں اور قاریوں سے تعارف کروایا اور میں ان سے اتنا متاثر ہوا کہ ان سے ملنے لاہور اور اسلام آباد پہنچ گیا۔’ہم سب، نے میرے سو کالم چھاپے ہیں۔ میں ان کا تہہِ دل سے مشکور ہوں اور آج ان سے ایک اعتراف کرنا چاہتا ہوں کہ انہوں نے میری اپنی پہلی محبوبہ سے دوبارہ ملاقات کروا دی ہے۔ وہ محبوبہ جو برسوں سے مجھ سے ناراض تھی اور اس ناراضگی کا ثبوت مندرجہ ذیل خط ہے جو مجھے 2005 میں موصول ہوا تھا اور میری کتاب ’ادھورے خوب، میں چھپا تھا۔

پہلی محبوبہ کا خط

اے میرے دیرینہ محبوب، میرے شاعر، میرے افسانہ نگار !

تم شاید مجھے بھول گئے ہو لیکن مجھےتمہارے ساتھ گزارا ہوا ایک ایک لمحہ یاد ہے۔ میرے ذہن میں ہماری رفاقت، ہماری چاہت اور ہماری دوستی کی سب یادیں محفوظ ہیں۔

کیا تمہیں ماضی کی ۔۔۔ وہ صبحیں یاد ہیں جب تم کسی لائبریری کے باہر لائبریری کھلنے کے منتظر رہتے تھے تا کہ تم پرانی کتابیں دے کر نئی کتابیں لے سکو۔

۔۔ وہ سہ پہریں یاد ہیں جب تم کسی درخت کے سائے میں بیٹھے ان کتابوں کا مطالعہ کیا کرتے تھے

۔۔۔ وہ شامیں یاد ہیں جب تم کسی شمع کی روشنی میں بیٹھ کر کسی تازہ غزل کے شعر لکھتے رہتے تھے۔

مجھے وہ سب شب و روز یاد ہیں۔ ہماری دوستی، ہماری چاہت، ہماری محبت اور ہمارا عشق اس مقام پر پہنچ گیا تھا کہ میں نے تمہارے دل میں گھر کر لیا تھا اور تم میرے بارے میں غزلیں، نظمیں اور افسانے لکھا کرتے تھے جو مختلف رسالوں میں چھپتے تھے اور میں خوشی سے نہال رہتی تھی۔ مجھے پتہ تھا کہ اردو کے قارئین اور ناقدین تمہاری تخلیقات کے بارے میں تبادلہِ خیال کرتے تھے کیونکہ تمہاری تحریریں غیر روایتی ہوتی تھیں۔اب تو میں تمہیں یاد آ گئی ہوں گی۔ میرا نام اردو ہے۔

اور پھر تم مشرق کے تنگ گلی کوچے چھوڑ کر مغرب کی کشادہ شاہراہوں پر سفر کرنے لگے اور تم نے مغربی طرزِ زندگی کو اپنا لیا۔ میری بلند حوصلگی دیکھو کہ میں اس وقت بھی خوش تھی کہ چلو تمہاری شہرت اب دنیا کے چاروں کونوں میں پھیل جائے گی اور تم مغرب میں اردو کے شاعر و ادیب کے طور پر جانے جائو گے۔ ایک زمانے تک یہ ہوا بھی۔ تمہاری تخلیقات کے ترجمے ہوئےاور مغربی دنیا میں چھپے۔

لیکن پھر تم نے آہستہ آہستہ انگریزی زبان سے راہ و رسم بڑھائے اور مقالے لکھنے شروع کیے۔ ابتدا میں میں یہ سمجھی کہ انگریزی تمہاری پیشہ ورانہ ضرورت یا مجبوری ہے۔ تم ایک ماہرِ نفسیات بننا چاہتے تھے۔ ایک مسیحا بننا چاہتے تھے۔ دکھی دلوں کا علاج کرنا چاہتے تھے۔ خدمتِ خلق کرنا چاہتے تھے اور مجھے اس بات کی خوشی تھی کہ میرا محبوب انسانیت کی خدمت کر رہا ہے۔

لیکن پھر مجھے احساس ہوا کہ کہ میں مشرقی محبوبائوں کی طرح سادہ لوح ہوں انگریزی صرف تمہاری رفیقِ کار ہی نہیں تمہاری دوست اور محبوبہ بھی بن گئی۔ پہلے تم نے انگریزی میں نفسیاتی مقالے لکھے، پھر نظمیں لکھیں اور پھر افسانے تخلیق کیے۔ میرا دل اس دن ٹوٹا جب تمہارے انگریزی افسانے کا کسی اور نے اردو میں ترجمہ کیا۔ اس دن سے میں حسد کی آگ میں جل رہی ہوں۔ اس دن میرا جی چاہا کہ میں اپنی سوتن انگریزی کے بال نوچ لوں اور اسے کچا کھا جائوں۔ لیکن جب میرے غصے میں ذرا کمی آئی اور میں ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچنے کے قابل ہوئی تو مجھے احساس ہوا کہ میرا انگریزی سے غصہ کرنے کا کوئی حق نہیں بنتا۔ وہ تو غیر ہے، پرائی ہے۔ اگر مجھے شکوہ کرنا ہے تو تم سے۔ تم میرے محبوب ہو۔ تم نے مجھے داغِ مفارقت دیا ہے۔ تم نے مجھے ٹھکرایا ہے اور انگریزی کو اپنایا ہے۔ تم نے مجھے اپنے دل سے نکالا ہے اور اردو میں لکھنا ترک کر دیا ہے۔

میں نے سوچا کہ اس سے پہلے کہ میں بھی تمہیں بھولنے کی کوشش کروں اور کسی نوجوان شاعر یا ادیب سے دل لگائوں میں تمہیں ایک اور موقع دوں کہ تم واپس لوٹ آئو۔ میری خواہش اور میری تمنا ہے کہ تم ہماری پرانی محبت کو یوں نہ ٹھکرائو۔ میں ان مغربی محبوبائوں کو جانتی ہوں ان میں مشرقی محوبائوں والی وفاداری کہاں۔ انگریزی تمہیں کبھی بھی وہ چاہت، وہ محبت، وہ اپنائیت نہیں دے سکتی جو میں نے تمہیں دی ہے۔ میں تمہاری پہلی محبت ہوں اور تمہیں پہلی محبت کی قسم میں تمہاری آخری محبت بھی بننا چاہتی ہوں۔ میرے دل کے دروازے، اردو ادب کے چاہنے والوں کی طرح آج بھی تمہارے لیے کھلے ہیں۔ تم شاید نہیں جانتے کہ میں نے تمہیں چاہا ہی نہیں تمہیں پوجا بھی ہے۔ اگر تم لوٹ کر نہ آئے تو ایک دن پچھتائو گے۔ ایک یہودی لکھاری آئزک سنگرISAAC SINGER جن کا تم بھی احترام کرتے ہو امریکہ میں دہائیوں زندہ رہنے کے باوجود ساری عمر اپنی مادری زبان میں لکھتے رہے۔ آخر دنیا نے ان کی تخلیقات اور ان کے تراجم کو اتنا سراہا کہ انہیں ادب کا نوبل انعام دیا۔ تم بھی ان مشرقی مہاجروں کی طرح نہ بن جانا جو مغرب میں جا کر مغرب کے ہی ہو جاتے ہیں اور اپنی تہذیب، اپنے ادب، اپنی دھرتی ماں اور اپنی مشرقی محبوبہ کو بھول جاتے ہیں۔تم ایک حساس شاعر و ادیب ہو۔تمہیں میرے جذبات کا احترام کتنا چاہیے۔ میں تمہاری کسی تازہ غزل، نظم، افسانے، کالم یا بلاگ کا شدت سے انتظار کروں گی تا کہ ہماری دوستی، ہماری محبت اور ہمارا عشق ایک دفعہ پھر پروان چڑھ سکے۔

تمہاری پہلی محبوبہ

۔۔۔اردو۔۔۔۔

اگست 2005

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 683 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail