رسوماتِ جوتا


برصغیر کی تاریخ میں جوتوں سے متعلق بہت ساری رسومات رائج رہی ہیں۔ ان میں سے اکثر کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے، جتنی کہ خود جوتے کی؛ تاہم قیام پاکستان کے بعد ان رسوم نے ہمارے ہاں جتنا فروغ پایا، اس پر خود جوتے بھی حیران ہیں۔ شاید اسی لیے دنیا ہمیں توہمات اور رسومات کا اسیرکہتی ہے۔ چیدہ چیدہ رسوماتِ جوتا ملاحظہ فرمائیے۔

جوتاپھینکنا: یہ خالص سیاسی رسم ہے۔ اس کی ادائیگی کے پیچھے ہمیشہ سیاسی مخالفین کا ہاتھ تلاش کیا جاتا ہے، جیسے دہشت گردی کی ہر واردات کے پیچھے کارفرما بیرونی ہاتھ ڈھونڈا جاتا ہے۔ کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ یہ رسم معدوم ہو گئی ہے۔ پھر اچانک اس کی ادائیگی کا کوئی واقعہ سامنے آتا ہے تو کھلتا ہے کہ اس کی مقبولیت میں کوئی کمی نہیں آئی۔

جیسے ماضی قریب میں ارباب غلام رحیم اور شیرافگن پر جوتے پھینکے گئے اور پھر خاموشی چھا گئی۔ آج کل یہ رسم پھر سے زور پکڑ رہی ہے۔ اس کے پیچھے یہ حکمت عملی پوشیدہ ہے کہ اپنی نئی نسل کو بھی اس رسم سے روشناس کرایا جائے تاکہ انہیں بوقت ضرورت اس کی وساطت سے اپنے جذبات کے اظہارکا سلیقہ آ سکے۔ حال ہی میں جامعہ نعیمیہ لاہور میں نواز شریف پر جوتا پھینکا گیا۔

فیصل آباد اور گجرات میں عمران خان کی طرف بھی جوتے اچھالے گئے۔ اس رسم کی چند ذیلی رسوم بھی ہیں، جیسے سیالکوٹ میںخواجہ آصف پر سیاہی اور بہاولپور میں عائشہ گلالئی پر انڈے اور ٹماٹر پھینکے گئے۔ اس کی کچھ ذیلی رسوم عملاً نہیں بلکہ زبانی ادا کی جاتی ہیں، جو ادا کنندگان کے لئے ذہنی عیاشی اورعوام کے لئے انٹرٹینمنٹ کا بہترین ذریعہ ہیں، جیسے سیاسی مخالف کو سڑکوں پر گھسیٹوں گا یا مونچھوں سے پکڑ کرجیل لے جائوں گا، وغیرہ وغیرہ۔

جوتا دکھانا: رسم بالا یعنی جوتا پھینکنا دراصل جوتا دکھانے کی ایک جدید شکل کہی جا سکتی ہے۔ ماضی میں صرف جوتے دکھائے جاتے تھے، جیسے ایک جلسے میں بھٹو کو دور سے جوتے دکھائے گئے۔ یہ رسم ترقی کرتے اب جوتے پھینکنے تک آ گئی ہے۔ بارِدگر عرض ہے کہ یہ رسوم صرف سیاستدانوں کے لئے مختص ہیں؛ تاہم یہ امر بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ ہر دو رسوم دو طرفہ طور پر اداہوتی ہیں اور جوتا وصول کنندگان بھی موقع آنے پر تھرو کرنے والوں کے خلاف جواباً یہی رسم ادا کرتے ہیں۔

جوتیاں سیدھی کرنا: بنیادی طور پر یہ رسم حاملِ جوتا کے احترام اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ادا کی جاتی ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ماضی میں یہ رسم اہلِ علم کے جوتوں سے متعلق تھی اور لوگ صاحبانِ علم و دانش کی جوتیاں سیدھی کرنے میں فخر محسوس کرتے تھے، لیکن وقت کے تقاضوں کے ساتھ یہ رسم بدلتے بدلتے اہلِ ثروت و اقتدار کے جوتوں پر آ کر ٹھہر گئی۔ آج کل اہلِ علم کے جوتے اس لئے بھی سیدھے نہیں کئے جاتے کہ وہ (اقتصادی وجوہ کی بنا پر) خاصے بوسید ہ ہوتے ہیں اور ان سے ہاتھ خراب ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔

جوتیاں چاٹنا: یہ رسم عام طور پراس وقت ادا کی جاتی ہے جب حاملِ جوتا سے غرض یا مفاد وابستہ ہو۔ مطلب حاصل کرنے کے لئے جوتیاں چاٹنا یا بدونِ سینگ ایک جانور کو باپ بنا لینا، ایک ہی مفہوم کی رسوم ہیں۔ رسمِ ہٰذا دربار داری کے تقاضے پورے کرنے کے لئے بھی ادا ہوتی ہے۔
جوتے چھپانا: یہ سب سے مقبول عوامی رسم ہے جو شادیوں سے لے کر مسجدوں تک‘ بغیر کسی وقفے کے جاری ہے۔ شائقینِ جوتا چھپائی میں سے کسی نے کیا خوب کہا ہے:

چل چلیے مسجد دی اس نکرے
جتھے جُتیاں دی لمبی قطار ہووے
اک توں چُک لے، اک میں چُک لاں
ساڈی عید بڑی مزے دار ہووے

جوتے گھسانا: یہ خالصتاً عوامی رسم ہے۔ خواص کو اس سے پالا نہیں پڑتا۔ یہ رسم پبلک ڈیلنگ کے سرکاری محکموں میں ادا کی جاتی ہے۔ سائلان کی درخواستیں سرکاری اداروں میں دفتر در دفتر اور میز در میز رسوا ہوتی ہیں اور وہ ان دفاتر کے چکر پہ چکر لگا کر اپنی جوتیاں گھساتے رہتے ہیں۔ کبھی شناختی کارڈ بنوانے کے لئے، کبھی بجلی کا بل ٹھیک کرانے کے لئے، کبھی ایف آئی آر کٹوانے کے لیے، کبھی فردِ ملکیت حاصل کرنے کے لیے اور کبھی انصاف کے حصول وغیرہ وغیرہ کے لئے۔

جوتے چھوڑ کر بھاگنا: اس رسم کا تعلق عشاقِ عظام سے ہے۔ پیشہ ور عشاق کو نہ چاہتے ہوئے بھی یہ رسم ادا کرنا پڑتی ہے۔ رسمِ مذکور کو دہرانے میں کیدو کی نسل کا کلیدی کردار ہے۔ دو دلوں کے ملاپ کی تقریبِ سعید کے دوران کیدو اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں اور عاشقوں کو اپنے جوتے وہیں چھوڑ کر بھاگنا پڑتا ہے۔
جوتے کی نوک پر رکھنا: یہ بھی ایک قدیم رسم ہے۔

اگرچہ نوکدار جوتے کا رواج کم ہو گیا ہے لیکن رسمِ ہٰذا کی مقبولیت میں کوئی کمی نہیں آئی۔ اس کا تعلق اربابِ اقتدار و اختیار سے ہے۔ ان کے جوتوں کی نوکیں اتنی مضبوط ہوتی ہیں کہ وہ کروڑوں لوگوں کے مسائل اور جذبات کا بوجھ باآسانی سہار سکتی ہیں۔

جوتے کے برابر سمجھنا: اغراض و مقاصد اور مفہوم میں یہ رسم، رسمِ بالا سے مماثلت رکھتی ہے۔ یہ رسم بھی خواص ہی ادا کرتے ہیں۔ عوامی مسائل اور مطالبات چاہے پہاڑ جتنے ہوں مگر اربابِ بست و کشاد انہیں حجم میں اپنے جوتوں کے برابر ہی سمجھتے ہیں۔

جوتوں کی چاپ سننا: اس رسم کو ”بھاری بوٹوں کی چاپ سننا‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ جب وطن عزیز میں جمہوریت کا وقفہ طویل ہو جائے اور عوام اور سیاستدان خود کو بااختیار سمجھنے کے عارضے میں مبتلا ہونا شروع ہو جائیں تو ان کی صحتیابی کی خاطر یہ رسم ادا ہوتی ہے۔ جن خود ساختہ لیڈروں کو عوام روزِ اول سے انتخابات میں مسترد کرتے چلے آئے ہیں وہ بے تابی سے اس رسم کی ادائیگی کا انتظار کرتے ہیں تاکہ ان کے دال دلیے کا بندوبست ہو سکے۔ ایسے لوگوں کو ہر وقت بھاری بوٹوں کی چاپ سنائی دیتی رہتی ہے، بلکہ ان کے نیک دل تو دھڑکتے ہی ان بوٹوں کی چاپ کی دھن پر ہیں۔

جوتا لٹکانا: یہ بڑی دلچسپ رسم ہے مگرتیز رفتار ترقی کی گرد میں ناپید ہوتی جا رہی ہے۔ یہ ایک خاص عمل میں وقفے کے دوران ادا ہوتی ہے۔ خصوصاً دیہات میں پڑوسی خواتین باہمی زبانی لڑائی میںطعن و تشنیع کے اپنے لافانی فن کامظاہرہ کرتے ہوئے ایک دوسرے کے کردار کے خفیہ گوشوں سے پردہ اٹھاتی ہیں۔

ایسے میں اگر باہمی دلچسپی کے امور پر یہ تند و تیز گفتگو طوالت اختیارکر جائے اور شام ہو جائے مگر ترکش میں ابھی تیر موجود ہوں تو ایک خاتون گھرہستی کی مصروفیات کی بنا پر اپنی جوتی اتارکر صحن یا گلی میں لٹکا دیتی ہے۔

اس میں فریق مخالف کے لیے واضح پیغام ہوتا ہے کہ اب تمہارے ہر طعنے کا جواب میری یہ جوتی دے گی، جبکہ صبح اٹھتے ہی میں دوبارہ اپنا چارج سنبھال لوں گی۔ جواب میں مخالف خاتون بھی یہی عمل دہراتی ہے اور اہلِ محلہ کو رات کی حد تک عارضی ریلیف مل جاتا ہے؛ تاہم وہ اثنائے وقفہ ہٰذا اپنے جنرل نالج میں اضافے سے محروم رہتے ہیں۔

بشکریہ دنیا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).