عورت مارچ سے اتنا طوفان کیوں اٹھا؟


اس سال خواتین کے عالمی دن پر کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں عورتوں نے اپنے حقوق کے حصول کے لیے عورت مارچ میں حصہ لیا۔ ان سب میں کراچی میں ہونے والا عورت مارچ خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ اس کی سب سے اہم وجہ اس کا عام عورتوں سے وابستہ ہونا تھا۔

کراچی میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے آٹھ اداروں نے مل کر اس مارچ کی تیاریاں کی تھیں لیکن ان میں سے کسی نے بھی اس مارچ کو اپنے ادارے کی تشہیر کے لیے استعمال کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اس مارچ کو خالصتاً ایک عام عورت سے منسوب رکھا گیا جو کہ قابلِ تحسین ہے۔

اس عورت مارچ میں ہر طبقے کی عورت شامل تھی۔ یہ تمام عورتیں ناچ رہی تھیں، گا رہی تھیں اور جشن منا رہی تھیں۔ ان عورتوں نے فریری ہال پر سٹیج لگایا جہاں مختلف طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والی خواتین نے تقاریر کیں، رقص کیا، غزلیں پڑھیں اور خواتین کے حقوق کے لیے آواز اٹھائی۔

کچھ دن بعد سوشل میڈیا پر عورت مارچ کی تصاویر گردش کرنے لگیں۔ کچھ پوسٹرز سوشل میڈیا بحث کا موضوع بن گئے۔ ایک پوسٹر پر لکھا تھا، کھانا خود گرم کر لو، ایک پر لکھا تھا میرا جسم میری مرضی، ایک پر لکھا تھا میرا جسم آپ کا میدانِ جنگ نہیں ہے۔

ان میں سے کھانا خود گرم کر لو بہت مشہور ہوا۔ بہت سے مرد اور عورت اس پوسٹ کی حمایت اور مخالفت میں بولنے لگے۔ کچھ لوگ یہ بھی کہنے لگے کہ یہ فیمینسم نہیں ہے۔ ہماری خواتین کے مسائل کھانا گرم کرنے سے کہیں زیادہ ہیں تو کیا ان مسائل کا تذکرہ عورت مارچ میں نہیں کیا گیا؟

عورت مارچ “ہم عورتوں” سے متعلق تھا۔ اس میں ہر اس مسئلے کی نشاندہی کی گئی جس کا ہم عورتوں اپنی روزمرہ زندگی میں سامنا کرنا پڑتا ہے۔

عورت مارچ 2018ء کے چند اہم مقاصد یہ تھے۔

عورتوں پر ہونے والے گھریلو تشدد کا خاتمہ
کام کرنے والی عورتوں کے حقوق کا تحفظ
تمام عورتوں کے لیے تولیدی معاملات میں برابر کے حقِ رائے دہی کا حصول
تمام عورتوں کے لیے عوامی جگہوں پر جانے کی برابر آزادی

کیا یہ سب مقاصد فیمینیسم کے دائرہ کار میں نہیں آتے؟ ایک پوسٹر کو اپنی مرضی کا مطلب دینا اور پھر یہ اخذ کرنا کہ اس مارچ میں عورتوں کے دیگر مسائل پر بات نہیں کی گئی، سراسر غلط ہے۔ اس عورت مارچ میں نہ صرف عورتوں کے مختلف مسائل پر بات کی گئی بلکہ زمانے کو یہ بھی بتا دیا گیا کہ آج کی عورت ایک گھوری، ایک تھپڑ یا ‘لوگ کیا کہیں گے’ سے ڈر کر اپنے حقوق سے دستبردار نہیں ہونے والی۔

ہمارے معاشرے میں ہر قدم پر انسانیت کی توہین ہوتی ہے۔ کہیں کوئی آدمی عورت کو اپنی نظروں کے ذریعے ہراساں کر رہا ہوتا ہے تو کہیں کوئی عورت کسی آدمی کو اپنی باتوں کے جال میں پھنسا کر دو چار ہزار روپے بٹور رہی ہوتی ہے۔ کسی گھر میں بیوی کے بیمار ہونے پر آدمی خود آٹا گوندھ رہا ہے تو کہیں عورت اپنے جلے ہوئے ہاتھ کی تکلیف بھلائے گھر والوں کے لیے کھانا بنا رہی ہے۔

یہاں پر ہمیں ایک بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہر ایک کی زندگی ہماری زندگی جیسی نہیں ہوتی۔ ہر ایک کے الگ مسائل اور الگ حالات ہوتے ہیں۔ اگر اللہ نے آپ کو پریشانیوں سے دور رکھا ہوا ہے تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ سب لوگ ایسی ہی زندگی گزار رہے ہیں۔

کچھ خواتین اپنی مرضی سے ایک ایسی زندگی جیتی ہیں جہاں ان کا کردار صرف اپنے گھر تک محدود ہو کر رہ جاتا ہے تو کچھ عورتیں اس زندگی سے بڑھ کر بھی کچھ چاہتی ہیں۔ جو خواتین اپنی مرضی سے اپنے حقوق سے دستبردار ہوتی ہیں کیا آپ کو واقعی لگتا ہے کہ ان حقوق کو چھوڑنے کے پیچھے ان کی اپنی مرضی شامل تھی؟

ہم اپنی بیٹیوں کو تابعدار بہو کے طور پر پروان چڑھاتے ہیں۔ ان کے سامنے صرف ایک دروازے کے سوا باقی سب دروازے بند کر دیتے ہیں۔ کھلا رہنے والا دروازہ وہ ہوتا ہے جس سے گزرنے کے بعد انہیں اپنی مرضی، خواہشات اور اپنی ذات کو چھوڑنا پڑتا ہے۔ بعض والدین کی خوشی یا عزت کی خاطر یہ زندگی جیتی ہیں تو بعض لوگوں کی باتوں کے خوف کی وجہ سے تو کچھ اسی زندگی کو اصل زندگی سمجھ چکی ہوتی ہیں۔ وجہ جو بھی ہو اگر آپ نے یہ زندگی اپنی مرضی سے چنی ہے تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ آپ ان تمام عورتوں کو برا بھلا کہیں جو ایسی زندگی کو اپنے لیے نا پسند کرتی ہیں۔ ان کی ہمت کی داد دیں، وہ معاشرے کی بیڑیوں کو توڑ کر آگے بڑھ رہی ہیں اور اپنے جینے کا حق مانگ رہی ہیں۔ وہ حق جو آپ تو چھوڑ چکی ہیں لیکن شائد آپ کی بیٹی نہ چھوڑے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).