“کھانا خود گرم کرلو” سے آگے ایک مکالمہ


 “ہم سب” کے قارئین نے کل پرسوں ہی رابعہ بصری صاحبہ کا کالم پڑھا “کھانا خود گرم کر لو” جو انہوں نے ینگ ویمن رائٹرز فورم میں بھی شئیر کیا۔ وہاں جو مکالمہ ہوا وہ بھی قارئین کی نذر ہے۔ اس مکالمے میں محترمہ بشریٰ اقبال ملک ( ینگ ویمن رائٹرز فورم کی فاؤنڈر) محترمہ رابعہ بصری صاحبہ ( ینگ ویمن رائٹرز فورم کی کو فاؤنڈر ) اور رضوانہ نور (کمیٹی اورگنائزر) نے جزوی اور میں نے یعنی ابصار فاطمہ ( کمیٹی اورگنائزر) اور ثروت نجیب ( سیکریٹری کمیٹی) نے نسبتا زیادہ حصہ لیا۔ آپ بھی پڑھیے کہ ہم اس کھانا گرم کرنے سے جڑے مزید کن معاشرتی مسائل کو زیر بحث لائے۔

ابصار فاطمہ

ایک اعتبار سے دیکھیں تو پلے کارڈ بے تکا تھا مگر اس کا جو ریسپونس آیا اس سے اندازہ ہوگیا کہ تیر نشانے پہ لگ گیا بہت زور سے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ ایسے پلے کارڈز اور باتیں ایک طرف تو ہمارے مردانہ معاشرے کی ذہنیت کھول کے دکھا دیتے ہیں مگر ساتھ ہی خواتین کے لیے مثبت کام کرنے والوں کے کام کو مشکل بنا دیتے ہیں۔ ایک ایسی فضول کنٹروورسی جس پہ جوابی کارروائی بھی احمقانہ طریقے سے ہورہی ہے کہ خود دہی لے آو یا خود نان لے آو۔ اس سب رسہ کشی میں بنیادی مسائل کہیں گم ہوجاتے ہیں۔ کھانا خود گرم کرنا ہمارے لیے کتنی چھوٹی سے بات ہے مگر ایک سطحی ذہن کے مرد کے لیے یہ کتنا بڑا طعنہ بن گئی جبکہ یہ پلے کارڈ بنیادی طور پہ اتنا غیر اہم تھا کہ اسے با آسانی نظر انداز کیا جاسکتا تھا۔

رابعہ بصری

یہ پوسٹر مجھے پورا دن تنگ کرتا رہا تھا میں توجہ دینا نہیں چاہتی تھی لیکن میں یہ بھی بتانا چاہتی تھی کہ بہنو ہمارے معاشرے میں خواتین کا سب سے بڑا مسئلہ کھانا گرم کرنا نہیں ہے ۔۔۔ تعلیم ، صحت ، بہتر خوراک ، صاف پانی ، انصاف کی جلد از جلد فراہمی ، ایک لمبی لمبی لسٹ ۔۔جو انتہائی اہم ایشوز ہیں ۔۔ خدارا گھر پر پراپنے باپ ، بھائی ، شوہر اور اوربیٹے سےاس بات پر الجھنے کی بجائے اہم مسائل پر بات کریں۔

رضوانہ نور

معذرت کے ساتھ لیکن یہاں میں اپنا ایک نقطہ نظر بھی بتانا چاہتی ہوں کہ اس پلے کارڈ “کھانا خود گرم کر لو” سے جس بحث نے جنم لیا ہے میرا نہیں خیال کہ اس سے کوئی مثبت لہر معاشرے میں گئی ہے بے شک اس کا مقصد محض توجہ حاصل کرنا ہی تھا…..لیکن اس توجہ نے جو رخ اب اختیا ر کیا ہے وہ مزید توجہ طلب ہے۔ آخر مقصد کیا ہے تانیثیت کا..عورت کو مرد کے مقابل لانا یا عورت کو اس کے جائز حقوق دلانا…..اس پلے کارڈ نے ان مرد حضرات کے ذہنوں میں بھی سوال پیدا کر دئیے ہیں جو کل تک بڑے جوش و خروش سے خواتین کے حقوق کی بات کر رہے تھے…اس طرح کے مطالبات کو محض بچکانہ کہہ کر ٹالا نہیں جا سکتا کیوں کہ وہ جو راستے کسی حد تک خواتین کے لیے کڑی تگ ودو کے بعد آزاد ہوئےتھے….وہ بھی بند ہونے کے خطرات لاحق ہیں….کیوں کہ ہمارے معاشرے کا مرد اتنا میچور نہیں ہے کہ وہ اس بات کو کسی اور رخ سے دیکھے…. اس سے ہم جیسے لوگ جن کا مقصد کچھ اور ہے ان کی راہ میں بھی مشکلات کھڑی ہوں گی… میم رابعہ کا اس پلے کارڈ کی تردیدی تحریر پڑھ کر دل خوشی ہوئی اور چاہتی ہوں سب کچھ اس حوالے سے لکھیں تاکہ ہمارا امیج جو دھندلا گیا ہے تھوڑا مزید واضح ہو……

ثروت نجیب

کل میرے بچے کھیل رہے تھے میرے بیٹے نے بہن سے کہا تم ایسا کر سکتی ہو! اور لمبی چھلانگ لگائی ـ وہ ہلکی پھلکی سی تو ہے، اٹھی اور بیڈ کے سرے تک چڑھ گئی کہا تم ایسا کر سکتے ہو ـ ـ وہ ایسا کرنے کے چکر میں پھسل گیا اور گر گیا ـ ـ اور غصے سے قلابازی کھائی کہ ایسا کر کے دیکھاؤ اب ـ ـ ـ بس یہ حال آج کل عورت اور مرد کا ہے ـ

ابصار فاطمہ

یہ بھی صحیح کہا بچکانہ مقابلہ بازی۔ مگر مسئلہ تب ہوتا ہے جب عورت کے جائز حقوق مانگنے پہ بھی یہ کہا جائے کہ تم مرد کی برابری یا مقابلہ بازی کر رہی ہو۔ ایک پے اسکیل کی مثال لے لیں۔ اور فیمنزم کی بات آجائے تو سیدھا مسئلہ بھی حل ہوتے ہوتے مزید پیچیدہ کردیا جاتا ہے۔ بنیادی مسئلہ پتا نہیں کہاں رہ جاتا ہے اور بحث شروع ہوجاتی ہے کہ “یہ” عورتیں مادر پدر آزادی چاہتی ہیں۔

ثروت نجیب

سچ کہا بہن. مگر فیمنیزم یا نسوانیت بذاتِ خود اتنا پیارا لفظ ہے جس عورت میں نسوانیت نہ ہو وہ تو مرد یا تیسری جنس کہلائے گی ـ دوسری بات فیمنسٹ کا مطلب عورتوں کو ان کے حقوق دینا ـ ـ حقوق کمزور طبقے کے ہی استحصال ہوتے ہیں ـ ـ میں اس لحاظ سے عورت کو کمزور مانتے ہوئے ان کے حقوق کی بات کرتی ہوں ـ جہاں ہم فیمنسٹ دیکھتی ہیں کہ عورت مرد کے حقوق غصب کر رہی ہے تب بھی بولتے ہیں ـ ـ ـ اور انسانیت کے بل بوتے پہ بولتے ہیں ـ ـ میں سمجھتی ہوِ عورت مرد بننے کے بجائے اپنے عورت ہونے پہ فخر ہونا چاہیے ـ ـ ـ یہ نزاکت ‘ یہ حسن یہ ادائیں ‘ناز و نخرے ـ ـ ـ عورت کی سنگھار ـ ـ ـ کیا دل موہ لینے والی جنس ہے عورت

ابصار فاطمہ

ثروت یہ ناز نخرے اور سنگھار والی بات سے مجھے تھوڑا اختلاف ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ جب عورت کو معاشرے سے عملی طور پہ الگ کردیا گیا تو اس کے لیے یہ ایک غیر منطقی توجیہہ کے طور پہ مسلط کیا گیا کہ اسے خوبصورت لگ کر ناز نخرہ دکھا کر مرد کی توجہ حاصل کرنی ہے ورنہ اس کا معاشرے میں کردار ہی کیا ہے۔ ایک بندی جو پورا دن بچوں کی دیکھ بھال کرتی ہو یا باہر نکل کر کام کرتی ہو عملی طور پہ اسے خود کو سنوارنے کا وقت نہیں ملتا مگر وہ معاشرے میں قبولیت کے لیے وقت نکالتی ہے۔ وہ کھانا کم کھالے مگر فیشل مہینے میں اتنے ہی کروائے گی۔ ہمارا معاشرہ دھوپ میں سنولایا ہوا رنگ مرد کا تو پسند کرتا ہے عورت کا نہیں جبکہ محنت جو بھی کرے اس کے چہرے سے پتا چلنا ہی ہے۔

وہی بات جو جون ایلیا نے کہی کہ

یہاں تو جاذبیت بھی ہے دولت ہی کی پروردہ

یہ لڑکی فاقہ کش ہوتی تو بد صورت نظر آتی

اور حقیقت ہے آپ سوپر ماڈل کو بھی دو مہینے پارلر سے دور رکھیں تو وہ کسی عام لڑکی جیسی ہی دکھے گی بے رونق اور غیر اہم

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ پر کلک کریں

ابصار فاطمہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

ابصار فاطمہ

ابصار فاطمہ سندھ کے شہر سکھر کی رہائشی ہیں۔ ان کا تعلق بنیادی طور پہ شعبہء نفسیات سے ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ناول وافسانہ نگار بھی ہیں اور وقتاً فوقتاً نفسیات سے آگاہی کے لیے ٹریننگز بھی دیتی ہیں۔ اردو میں سائنس کی ترویج کے سب سے بڑے سوشل پلیٹ فارم ”سائنس کی دنیا“ سے بھی منسلک ہیں جو کہ ان کو الفاظ کی دنیا میں لانے کا بنیادی محرک ہے۔

absar-fatima has 115 posts and counting.See all posts by absar-fatima