راؤ انوار کو گرفتار کر لیا گیا


اسلام آباد: نقیب اللہ قتل کیس میں نامزد معطل ایس ایس پی راؤ انوار سپریم کورٹ میں پیش ہوگئے جس کے بعد عدالت نے انہیں گرفتار کرنے کا حکم دے دیا۔
سپریم کورٹ نے نقیب قتل کیس میں نامزد معطل ایس ایس پی راؤ انوار کو کئی بار طلب کیا تھا لیکن اس کےباوجود وہ پیش نہیں ہوئے تھے۔
گزشتہ روز چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے تھے کہ اگر راؤ انوار کا کوئی سہولت نکلا تو سخت کارروائی ہوگی جب کہ عدالت نے حکم دیا تھا کہ راؤ انوار خود سے پیش ہوجائیں تو بہتر ہے۔

راؤ انوار کی پیشی

سپریم کورٹ میں نقیب اللہ قتل کیس از خود نوٹس کی سماعت کے سلسلے میں راؤ انوار کو آج پھر طلب کیا گیا تھا جس پر وہ عدالت میں پیش ہوگئے۔
معطل ایس ایس پی راؤ انوار کو پولیس کی بھاری نفری میں اچانک سپریم کورٹ لایا گیا جب کہ انہیں ماسک لگا رکھا تھا۔
راؤ انوار کو سفید رنگ کی گاڑی میں سپریم کورٹ لگایا گیا اور اس موقع پر عدالت کے اطراف سیکیورٹی سخت تھی۔

کیس کی سماعت

سپریم کورٹ میں نقیب اللہ قتل کیس از خود نوٹس کی سماعت جاری ہے۔
سماعت کے آغاز پر راؤ انوار کے وکیل نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے عدالت کے سامنے سرنڈ کردیا ہے۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے قانون کے سامنے سرنڈر کرکے ہم پر کوئی احسان نہیں کیا۔
چیف جسٹس نے معطل ایس ایس پی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ جس دلیری سے آپ رہ رہے تھے اور جو خط آپ نے لکھے اس پر حیرت ہے، جو خط لکھے گئے ہیں ان کا تاثر درست نہیں۔

راؤ انوار عدالت میں خاموش رہے

جسٹس ثاقب نثار نے راؤ انوار سے استفسار کیا کہ کہ اتنے دن کہاں تھے؟ کیوں نہیں آئے؟ ہم نے موقع فراہم کیا تو کیوں نہیں سرنڈر کیا۔
اس پر راؤ انوار عدالت کے سامنے خاموش کھڑے رہے اور کوئی جواب نہیں دیا۔

راؤ انوار کے وکیل نے جواب دیا کہ ان کے مؤکل حفاظتی ضمانت چاہتے ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم کوئی حفاظتی ضمانت نہیں دے رہے اور گرفتاری کے احکامات جاری کررہے ہیں۔
جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ ہم کمیٹی بنارہے ہیں، راؤ انوار کو جوکچھ کہنا ہے وہ اس کے سامنے جاکر کہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سمجھ نہیں آتی کہ آپ اتنے دلیر ہوگئے، عدالت کے سامنے سرنڈ نہیں کیا، مہلت دی پھر بھی نہیں آئے۔

عدالت نے آئی جی سندھ سے انکوائری کمیٹی کے ممبران کی تفصیلات بھی طلب کی۔
راؤ انوار کے وکیل نے کہا کہ انہیں سندھ پولیس سے اختلاف ہے کیونکہ پولیس ان کے مخالف ہوگئی ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کس طرح آپ کی پولیس آپ کے مخالف ہوگئی، آپ اس پولیس کے ملازم ہیں اور وہی پولیس آپ کے مخالف ہوگئی۔

معطل ایس ایس پی کے وکیل نے استدعا کی کہ کمیٹی میں ایجنسیز کو شامل کیا جائے، اس پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کون سی ایجنسی کو شامل کیا جائے؟

راؤ انوار کے وکیل نے کہا کہ آئی ایس آئی اور آئی بی کو کمیٹی میں شامل کیا جائے، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ کیس سیدھا سیدھا ہے ان کا تفتیش سے کیا تعلق؟ مجھے معلوم ہے آپ یہ کس وجہ سے کہہ رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالتیں آزاد ہیں اور کسی کا اثر نہیں لیتی۔
عدالت نے کیس کی سماعت میں 10 منٹ کا وقفہ کیا اور وقفے کے بعد ایک بار پھر سماعت کا آغاز کرتے ہوئے راؤ انوار کے بینک اکاؤنٹس غیر منجمد کرنے کا حکم دیا۔
عدالت نے راؤ انوار سے تفتیش کے لیے ایڈیشنل آئی جی سندھ آفتاب پٹھان کی سربراہی میں جے آئی ٹی بھی تشکیل دے دی جس میں چار پولیس افسران شامل ہوں گے۔

نقیب اللہ قتل کیس— کب کیا ہوا؟

رواں ماہ 13 جنوری کو ملیر کے علاقے شاہ لطیف ٹاؤن میں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے نوجوان نقیب اللہ محسود کو دیگر 3 افراد کے ہمراہ دہشت گرد قرار دے کر مقابلے میں مار دیا تھا۔

بعدازاں 27 سالہ نوجوان نقیب محسود کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر اس کی تصاویر اور فنکارانہ مصروفیات کے باعث سوشل میڈیا پر خوب لے دے ہوئی اور پاکستانی میڈیا نے بھی اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اس معاملے پر آواز اٹھائی اور وزیر داخلہ سندھ کو انکوائری کا حکم دیا۔

تحقیقاتی کمیٹی کی جانب سے ابتدائی رپورٹ میں راؤ انوار کو معطل کرنے کی سفارش کے بعد انہیں عہدے سے ہٹا کر نام ای سی ایل میں شامل کردیا گیا، جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان کی جانب سے اس معاملے پر لیے گئے ازخود نوٹس کی سماعت جاری ہے۔
بشکریہ جیو نیوز۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).