اور بیگم کلثوم نواز رو دیں۔۔۔


مجھے یوں لگا جیسے میرا سوال غلط تھا یا پھر میں نے غلط موقع پر سوال داغ دیا۔ میرے سوال نے پوری محفل کا مزاج سنجیدہ اور سوگوار کر دیا تھا۔ یہ سنہ دو ہزار کے مئی یا جون کی بات ہے۔ جب میاں نواز شریف، شہباز شریف، حسین نواز، پرویز رشید اور چند دوسرے لیگی رہنما جیل میں تھے۔ جبکہ بہت سے لیگی رہنما زیر زمین چلے گئے یا جنرل مشرف کے خوف کے تحت مسلم لیگ سے منہ موڑ چکے تھے۔ میں ان دنوں ایک انگریزی روزنامہ دی سن کا چیف رپورٹر تھا۔

شریف خاندان کے مردوں کی گرفتاری کے بعد یوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے مسلم لگ نواز کا کوئی پرسان حال نہیں اور یہ جماعت اپنے منطقی انجام تک پہنچ گئی ہے۔ دانشور اور تجزیہ کاروں کا بھی خیال تھا کہ میاں نواز شریف ایک بڑی مصیبت میں گرفتار ہو چکے ہیں جس سے ان کا جلدی چھٹکارا ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے قریبی رفقاء کار اپنی اپنی کھالیں بچانے کے چکروں میں پڑے تھے۔ یہ وہی دور تھا جب پاکستان پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور بہت سی دوسری چھوٹی سیاسی جماعتیں نواب زادہ نصراللہ خان کی زیر قیادت گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے پلیٹ فارم پر اکٹھی تھیں لیکن جمہوریت کی بحالی کے لئے ابھی تک کوئی مربوط تحریک سامنے نہیں آئی تھی۔

اسی سیاسی ہو کے عالم میں یکا یک بیگم کلثوم نواز نے اپنے شوہر کی رہائی کے لئے جدوجہد شرو ع کی۔ یہ ایک بڑا تاریخی لمحہ تھا جب ایک گھریلو خاتون، جن کو ذاتی طور پر سیاست سے دلچسپی نہ ہو، سیاسی افق پر نمودار ہوئیں اور مٹھی بھر پارٹی کارکنان کے ساتھ مل کر لاہور کی سڑکوں پر جنرل مشرف کو للکارنے نکل آئیں۔

میں اور میرے قبیل کے دوسرے صحافی نظریاتی بنیادوں پر میاں نواز شریف کی سیاست سے اختلاف رکھنے کے باوجود بیگم کلثوم نواز کی جراءت کی داد دیے بغیر نہ رہ سکے اور ان کی جدو جہد کوایماندارانہ کوریج دی۔ اسی دوران ایک دن بیگم کلثوم نواز کو دی سن/ روزنامہ دن کے فورم پر مدعو کیا گیا۔ وقت مقررہ پر بیگم صاحبہ، تہمینہ دولتانہ اور جاوید ہاشمی کے ہمراہ فورم میں پہنچ گئیں۔ ہمارے پینل میں اجمل نیازی، طارق ممتاز، تیمور حسن، خواجہ نصیر اور راقم شامل تھے۔

بیگم کلثوم نواز ایک چادر میں لپٹی ہوئیں پرسکون چہرے سے ہر سوال کا جواب دے رہیں تھیں۔ ان کے لہجے میں ایک ٹھہراؤ اور عزم واضع تھا۔ وہ ہر سوال کا جواب بڑے ٹھوس انداز میں دے رہیں تھیں۔ جہاں پر انہیں کسی سوال کے جواب میں مدد کی ضرورت پڑتی تو وہ ہاشمی صاحب یا تہمینہ دولتانہ کی جانب دیکھتیں جس پر ان دونوں میں سے ایک جواب دے دیتا۔ جب سیاسی گفتگو حدت پکڑتی تو اجمل نیازی بیگم صاحبہ سے اورینٹل کالج کی باتیں شروع کر دیتے جس کا جواب وہ مسکراہٹ سے دیتی (اجمل نیازی اور بیگم کلثوم نواز اورینٹل کالج میں ہم جماعت تھے)۔

اسی ماحول میں جب سیاسی گفتگو اپنی انتہا پر تھی اور بیگم کلثوم اپنے عزم کو دہرا رہیں تھیں کہ وہ میاں نواز شریف کی رہائی تک چین سے نہیں بیٹھیں گی کہ میں نے اچانک سوال کیا، “بیگم صاحبہ، حسین نواز کے بارے میں کیا اطلاعات ہیں، وہ کہاں ہیں اور کس حال میں ہیں؟” میں ان سے توقع کر رہا تھا کہ میرے سوال کے جواب میں وہ ہمیں کچھ اطلاعات فراہم کریں گی لیکن انہوں نے سر جھکا دیا اور تھوڑی دیر بعد جب انہوں نے سر اٹھایا تو ان کی آنکھیں برسات کا منظر پیش کر رہی تھیں۔ انہوں نے کچھ بولنے کی کوشش کی لیکن شدت غم سے کچھ نہ کہہ پائیں۔ آخر کار اسی سوگوار ماحول میں ہمیں فورم کا اختتام کرنا پڑا۔

اپنے شوہر کی محبت نے انہیں ایک مضبوط عورت میں ڈھالا یہاں تک کہ وہ ایک طاقتور فوجی آمر کے ساتھ ٹکرانے کو تیار ہو گئیں لیکن بیٹے کے لئے ممتا بھرے جذبات نے اسی مضبوط عورت کو ایک لمحہ میں نمناک کر دیا۔

میں آج تک سوچتا ہوں شاید میرے سوال کی ٹائمنگ ٹھیک نہیں تھی۔

اطلاعات کے مطابق آج وہ مضنوعی تنفس کی مدد سے سانس لے رہی ہیں اور یقیناً ان کے اہل خانہ بھی انتہائی تکلیف میں ہیں۔ قوم بیگم کلثوم کی صحت یابی کے لئے دعا گو ہے۔ سیاسی مخالفین کو ایسی صورتحال میں سیاسی تدبر اور شعور کا مظاہرہ کرنا چاہئیے۔ نہ کہ شریف فیملی کی اس کربناک گھڑی کا استحصال۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments