امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن کی یک دم معزولی کی وجوہات


ٹرمپ کا اپنے وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن کو یک دم معزول کر ڈالنا ان جیسے سے کچھ بھی اور کہیں بھی کر ڈالنے والی شخصیت کے طور پر کوئی اچنبھا نہیں ہے۔ حالانکہ اگر غیر ملکی دورے پر موجودگی میں ان کو برطرف نہ کیا جاتا تو امریکہ میں کوئی فرق نہ پڑتا۔ مگر اس طرح برطرف کر کے یہ واضح کیا گیا ہے کہ ٹرمپ ریکس ٹلرسن کی توہین بھی کرنا چاہتے تھے۔ بلکہ خبروں کے مطابق جب ریکس ٹلرسن نے اس انداز پر احتجاج کرنے کے لئے اپنے ایک دوست کے ذریعے وائٹ ہاؤس سے رابطہ کیا تو تضحیک آمیز جواب ملا کہ اس کو اس وقت فارغ کیا گیا جب وہ ٹوائلٹ میں بیٹھا اپنا معدہ صاف کر رہا تھا۔ اس انداز سے صدر ٹرمپ کی اپنے سابق وزیر خارجہ سے ناراضگی کی شدت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ وہ ناراضگی کی اس کیفیت تک کیوں پہنچا۔

حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ دسمبر میں ہی حالات ایسے ہو گئے تھے کہ ریکس ٹلرسن کا جانا ٹھہر گیا تھا۔ اختلافات کو شدت اس وقت نصیب ہوئی جب صدر ٹرمپ نے امریکی سفارتخانہ یروشلم منتقل کرنے کا اعلان کیا۔ ریکس ٹلرسن اس کے خلاف تھے اور سمجھتے تھے کہ اس اقدام سے غیر ضروری طور پر مشرق وسطیٰ سے امریکہ سے نفرت کو ہوا ملے گی۔ مگر یہ روز روشن کی طرح واضح ہے کہ ٹرمپ مشرق وسطیٰ کے حوالے سے تمام فیصلے اپنے داماد Jared Kushner کے زیر اثر کرتے ہیں۔ ان کے داماد خود صیہونی خیالات رکھتے ہیں اور ان ہی خیالات کی بدولت و ٹرمپ کو سفارتخانے کی منتقلی کے اعلان تک لے آئے۔ لیکن ٹلرسن کی مخالفت کو امریکہ میں موجود یہودی لابی اور اسرائیل میں سخت ناپسند کیا گیا اور ان کو منصب سے ہٹوانے کا فیصلہ کر لیا گیا۔

ریکس ٹلرسن کے اختلافات ایران کی نیوکلیر ڈیل کے حوالے سے بھی گہرے ہوتے چلے جا رہے تھے۔ صدر ٹرمپ ایران کے معاملے میں اس بات کے قائل ہیں کہ صدر اوباما نے نیوکلیئر ڈیل درحقیقت کریڈٹ لینے کی غرض سے کی تھی۔ صدر ٹرمپ اس ڈیل کو قتل کر ڈالنا چاہتے ہیں۔ یا اس حد تک سخت شرائط عائد کر دی جائے کہ جو ایران کے لئے تسلیم کرنا نا ممکن ہو۔ لیکن سابق امریکی وزیر خارجہ کا خیال تھا کہ اب ایسا کوئی اقدام غیر مناسب ہو گا۔ وہ خود بھی نیوکلیئر ڈیل کے خلاف ہیں۔ لیکن اب اس کے مکمل خاتمے کو درست اقدام تصور نہیں کرتے۔ ان کے اس مؤقف کی وجہ سے ان کی برطرفی کے دوسرے روز ویانا میں امریکہ، روس، یورپ، چین اور ایران کے سفارتکاروں کا اجلاس منعقد ہوا اور اس میں نیوکلیئر ڈیل کے حوالے سے امریکہ میں خارجہ ٹیم میں آنیوالی تبدیلیوں کے پس منظر میں مستقبل کے ممکنہ حالات کا جائزہ لیا گیا۔

اس طرح شمالی کوریا کے حوالے سے بھی ٹلرسن تحمل کی پالیسی کے حامی تھے۔ جبکہ ٹرمپ شمالی کوریا میں قیادت کی تبدیلی کے نظریے کو درست تصور کر رہے ہیں۔ شمالی کوریا کے تناظر میں ہی ٹرمپ کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر میک ماسٹر کی تبدیلی کی بھی افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ ان کی جگہ پر بش دور کے سخت خیالات کے حامل جان بولٹن کو تعینات کرنے پر سنجیدگی پر غور کیا جا رہا ہے۔ مگر جان بولٹن کے حوالے سے یہ اہم بات ہے کہ وہ شمالی کوریا پر حملہ کرنے کے حوالے سے ایک طاقتور آواز تصور ہوتی ہے۔ اور شمالی کوریا کی فوجی طاقت کو دیکھتے ہوئے صدر ٹرمپ براہ راست کسی فوجی اقدام سے گریز ہی کریں گے۔ کیونکہ شمالی کوریا کا رد عمل غیر معمولی طور پر تباہی کا باعث بن سکتا ہے۔

خیال کیا جا رہا ہے کہ جان بولٹن کی تقرری ابھی اسی مخمصے کی سبب سے نہیں ہوئی ہے۔ اسی طرح ایف بی آئی کے ڈپٹی ڈائریکٹر انڈریو کیب کو ان کی مدت ملازمت کے اس سطح پر پہنچنے کے قبل کے جس میں صرف دو روز رہ گئے تھے کہ وہ مکمل پنشن کے حقدار قرار پاتے ختم کر دی گئی۔ اور اس حوالے مؤقف یہ اختیار کیا گیا ہے کہ انہوں نے اخباری نمائندوں سے بات کی تھی۔ ان کی ملازمت سے رخصتی پر صدر ٹرمپ نے ٹویٹ کر کے اپنے جذبات کا اظہار ان الفاظ میں کیا کہ آج ایف بی آئی کے ملازمین کے لئے بہت خوشی کا دن ہے۔ حالانکہ انڈریو کیب کا کہنا ہے کہ مجھے انتقام کا نشانہ اس لئے بنایا گیا ہے کہ میں وہ متوقع گواہ ہو سکتا تھا جو کہ صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم اور کریملن کے درمیان روابط پر تحقیقات میں شامل ہوتا۔

صدر ٹرمپ نے سی آئی اے کے سربراہ مائک پومپیو کو نیا امریکی وزیر خارجہ مقرر کیا ہے۔ وہ کنساس سے کانگریس کے رکن بھی رہ چکے ہیں اور اس حوالے سے معروف ہے کہ ڈھکے چھپے لفظوں کی بجائے امریکہ کے دنیا میں کہیں بھی Covert Operation کی پالیسی کے حامی ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے خیالات ایران اور یروشلم میں امریکی سفارتخانے کی منتقلی کے حوالے سے بھی اسرائیلی لابی جیسے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ وہ خارجہ پالیسی کے معاملات اور گورنمنٹ کے کام کرنے کے طریقہ کار کے حوالے سے ناتجربہ کار نہیں ہیں۔ پھر ان کو ابھی تک ریکس ٹلرسن کی نسبت صدر ٹرمپ کا زیادہ اعتماد بھی حاصل ہے۔ ان کے سامنے اس وقت تین مسائل کھڑے ہیں کہ وہ شمالی کوریا سے ہونے والے مذاکرات کو کس طرح سے بہتر بناتے ہیں کیونکہ اگر کوئی بڑا بریک تھرو نہ ہوا تو بڑا بلنڈر ضرور ہو سکتا ہے۔ ایران سے نیوکلیئر ڈیل پر وہ کیا کرتے ہیں اور چین اور روس سے تعلقات کو کیسے بہتری کی جانب گامزن کرتے ہیں۔ اگر وہ ان حوالوں سے انتہاء پسندانہ رجحانات کے حامل رہے تو کوئی بڑی مصیبت سے دنیا کو سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).