جوگی مت جا، مت جا…


22 اگست 2006 کی صبح تھی۔ میں ایسٹ لنڈن کی کٹیا میں اکیلا بیٹھا تھا۔ خبر آئی کہ استاد بسم اللہ خان صاحب نہیں رہے۔ موت کی خبر کا فوری صدمہ چند لحظے کے لئے زلزلے کے جھٹکے کی مانند طاری ہوتا ہے اور پھر اس بے بسی کے احساس کی طرف بڑھتا ہے کہ موت حتمی، غیر مشروط اور دوٹوک واقعہ ہے۔ موت سے مذاکرات نہیں ہوتے، اس کے سامنے بتھیار ڈالنا پڑتے ہیں۔ خیال آیا کہ استاد بسم اللہ خان کی موت پر لکھنے کے لئے مصدق سانول سے درخواست کی جائے۔ مصدق سانول زندہ تھا تو دوست تھا، اب چلا گیا ہے تو معلوم ہوا کہ وہ دراصل ایک گرو، مرشد، استاد اور رہنما تھا۔ ملامتی صوفی نے دوستی کا چولا اوڑھ رکھا تھا کہ مجھ جیسے کم مایہ کو احساس کمتری نہ ہو۔ مصدق کو فون کیا تو اس نے بتایا کہ وہ تو اٹلی کی شمالی پہاڑیوں میں کہیں جہان گردی کر رہا ہے اور استاد بسم اللہ پر لکھنے سے معذور ہے۔ یوں اس نے یہ ذمہ داری مجھے سونپ دی۔ مجھے اس امانت کے بوجھ کا احساس تھا۔ استاد بسم اللہ تو دیوتا سمان تھے۔ میں تو اس حرم کے طواف کا قرینہ بھی نہیں جانتا تھا۔ نہ معلوم کیسے کی بورڈ پر انگلیاں رکھیں اور دھندلائی ہوئی آنکھ سے استاد مرحوم کے بارے میں چند سطریں لکھ کر بی بی سی کو بھیج دیں۔ بارہ برس گزر چکے ہیں۔ 21 مارچ استاد بسم اللہ خان کا جنم دن ہے۔ عزیز بھائی سجاد پرویز نے حکم دیا ہے کہ وہ تحریر “ہم سب” پر آج پھر سے پیش کی جائے۔ تعمیل ارشاد کرتا ہوں۔

٭٭٭  ٭٭٭

26 جنوری، 1951 آزاد ہندوستان کا پہلا یوم جمہوریہ تھا۔ پنڈت نہرو، راجندر پرشاد اور مولانا آزاد لال قلعے کی تقریبات میں شریک تھے۔ کوئی 35 برس کا ایک فنکارشہنائی ہاتھ میں لیے سٹیج پر نمودار ہوا اور راگ کافی کی دھن چھیڑ دی۔ شہنائی کے واضح اور بھرپور سر فضا میں پھیل گئے۔ لال قلعے کی فصیلوں پر ابابیلیں اترنے لگیں۔ قریب ہی ہمایوں کے مقبرے کی سیڑھیوں پر سے وہ تلچھٹ دھلنے لگی جو میجر ہڈسن نے بہادر شاہ ظفر کو یہاں گرفتار کر کے ہندوستان پر تھونپی تھی۔ شہنائی کے یہ جادوگر فنکار بسم اللہ خاں تھے۔

مندروں کے شہر بنارس میں گنگا کنارے بسنے والے بھارت رتن استاد بسم اللہ خاں کا کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے تن تنہا شہنائی کی سیتا کو ڈوم ڈھاریوں کے نرغے سے نکال کر موسیقی کے بلند ترین معیار سے روشناس کرایا۔ شہنائی فٹ بھر کی نرسل ہی تو ہے مگر لکڑی کا یہ بے جان ٹکڑا بسم اللہ خاں کے ہونٹوں سے چھو جاتا تو نرتے سمراٹ ہو جاتا۔ شہنائی کے ساز پر بسم اللہ خاں انگلیاں رکھتے تو کاشی دوار میں مندروں کے کلس سنہری ہو جاتے، دلوں میں مسرت آمیز نیکی کا وفور ہونے لگتا۔

1937 کا برس تھا۔ کلکتہ میں کل ہند موسیقی کانفرنس میں استاد بسم اللہ خاں نے شہنائی بجائی تو راگ ودیا کے پارکھ اس ساز کے امکانات سے آگاہ ہوئے۔

 بسم اللہ خاں نے تب سے مڑ کر نہیں دیکھا۔ ممبئی میں سر سنگار سمیلن ہر برس اپریل میں منعقد ہوتا ہے۔ کوئی 40 برس اس سنگت کا آغاز استاد بسم اللہ کی شہنائی سے ہوا کیا۔ بھارت کا کونسا رہنما ہے جس نے بسم اللہ خاں کی شہنائی نہیں اٹھائی۔ پدم شری، پدم بھوشن، اور پھر پدم وی بھوشن سے لے کر بھارت رتن تک ہندوستان کا کونسا اعزاز تھا جو بسم اللہ خاں پر نچھاور نہیں کیا گیا۔

استاد عبدالکریم خاں اور پنڈت اوم کار ناتھ کے بعد استاد بسم اللہ خاں تیسرے فنکار تھے جنہیں سر میں الوہی کیفیت کی جستجو تھی۔ استاد بسم اللہ راگ میں ڈوب جاتے تو وارفتگی اور عبودیت میں فاصلہ نہیں رہتا تھا۔ سر ورشا سننے والوں پر یوں اترتی تھی جیسے کوئی عارف اپنے پیروکاروں میں گیان کے موتی بانٹتا ہے۔ شہنائی سے کھیلتی انگلیاں اور کہیں دور ٹکِی آنکھیں راگ کے وسیلے سے زندگی کے اس گیان کو پانا چاہتی تھیں جو فن کے بندھے ٹکے قاعدوں کی جکڑ میں نہیں آ سکتا۔

استاد فرماتے تھے کہ سر ایسا سچا موتی اور صاف جل ہے کہ اس میں کھوٹ اور کپٹ نہیں ہو سکتی۔ چاہو تو سر کے گھاٹ ہی پہ رہو اور چاہو تو اثر کے ساگر میں اتر جاؤ۔ حلال اور حرام کی جکڑ بندیوں میں الجھے کسی کٹ حجتی نے استاد کو دِق کیا تو قدرے جھلا کے کہا سات شدھ اور پانچ کومل سروں کی یہ مالا ہمارے لیے تو مالک تک پہنچنے کا وسیلا بن گئی۔ اگر یہ حرام ہے تو اور حرام کرو، اور حرام کرو۔ ’چرچل نے بھی تو کہا تھا کہ اگر جمہوریت میں خرابیاں ہیں تو جمہوریت تھوڑی زیادہ کر دو‘۔

سادھارن روپ میں جیون کرنے والا یہ کبیر پنتھی نئے بھارت میں مذہبی رواداری اور رنگا رنگ کشادگی کا نشان تھا۔ فجر کی نماز ادا کیے بغیر ریاض نہیں کرتے تھے اور ریاض برسوں بنارس کے وشواناتھ مندر میں کیا۔

ریکارڈنگ کے لیے چپکے سے کہہ دیتے کہ نماز سے پہلے ختم کر لی جائے۔ بنارس کے اہل تشیع مسلمان آئندہ محرم میں امام بارگاہ کے صحن میں کھڑے نیم کے پیڑ کے نیچے آنسوؤں میں بھیگا وہ باریش چہرہ نہیں دیکھیں گے جو سفید براق کرتا پہنے زمین پہ بیٹھا ہولے ہولے پڑھتا تھا ’آیا ہے کربلا میں غریب الوطن کوئی‘

فن کے اعلٰی ترین امکانات فنکار میں کیسے تجسیم پاتے ہیں، یہ جاننے کے لیے استاد بسم اللہ خاں کو دیکھنا کافی تھا۔ وضع قطع میں بانکپن مگر بانکا پن نہیں، روّیے میں معصومیت مگر لاعلمی نہیں، رکھ رکھاؤ میں رعونت نہیں، بس اپنے مقام کا ان کہا احساس۔ دنیا بھر کی یونیورسٹیوں سے اعلٰی ترین اعزازی ڈگریاں پانے والے بسم اللہ خاں سائیکل رکشہ پر سفر کرتے تھے۔ سستے سگریٹ کا رنج کھینچتے تھے۔ شہر سے باہر جانا ہوتا تو ریل کے دوسرے درجے میں سفر کرتے۔ مگر بسم اللہ خاں کی انگلیوں کا جادو بھارت ہی نہیں دنیا کے ہر اس کونے میں بول رہا ہے جہاں ہندوستانی موسیقی سنی جاتی ہے۔

استاد نے 21 مارچ 1916 کو بہار کے گاؤں دمراؤں (ضلع بکسر) میں جنم لیا تھا۔ 21 اگست 2006 کی صبح واراناسی کے Heritage (ورثہ) ہسپتال کے پیڑوں پہ چڑیاں چہچہا رہی تھیں اور دور کہیں بھیرویں کے بول ’جوگی مت جا مت جا مت جا…‘ ابھی ہوا میں رچ رہے تھے کہ استاد نے آنکھیں موند لیں۔ شہنائی خاموش ہو گئی۔

٭٭٭  ٭٭٭

لیجئے راگ بھیم پلاس میں استاد بسم اللہ خان کے ہنر کا ایک نمونہ بطور تبرک ملاحظہ فرمائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).