”جاگے ہیں خواب میں“ ناول اور اس کا تخلیقی عمل


\"zahidناول تخلیق کرنا ایک نئی زندگی تخلیق کرنے کے مترادف ہے۔ زندگی بھی ایسی جس کو کوئی ”بج“ نہ لگا ہو یعنی ہر طرح سے مکمل۔ ہمارے یہاں مگر اس بات پر غور بہت کم ہوتا ہے۔ ہمارا معاشرہ چونکہ اپنی فطرت میں ’شعر اور شاعری زدہ معاشرہ‘ ہے اس لیے نثری فن کی باریکیوں کی طرف کم ہی توجہ دیتا ہے۔ پھر بھی بعض لکھنے والے ایسے ہیں جو کہانی کے پلاٹ، موضوع، زبان ، اسلوب اور محاورے کی ساخت پر نظر رکھتے ہیں۔ یوں پڑھنے والوں کے لیے اپنے لکھنے کا جواز لے آتے ہیں۔ اختر رضا سلیمی، ایسے ہی لکھنے والوں میں سے ایک ہیں۔ ان کا بنیادی تعارف شاعر کا ہے۔ اس کے پڑھنے والوں نے تو کیا شاید اس نے خود بھی یہ کبھی نہ سوچا ہو کہ مستقبل میں کبھی اس کی پہچان بطور ناول نگار کے ہو گی۔ اب مگر اس کی پہچان ایک ناول نگار کے طور پر بھی ہے۔ اس نے اڑھائی سو صفحات کے اریب قریب ناول لکھا ہے۔ ’جاگے ہیں خواب میں‘ ناول کی زبان خوبصورت ہے اور موضوع منفرد۔ اپنے ماضی اور ماضی میں سانس لے رہے وقت، اشیائ، لوگوں، عمارتوں اور اساطیر کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محفوظ کر لینے کی خواہش کا حامل یہ ناول اپنے اندر پڑھنے والوں کے لیے حیرتوں کے کئی جہان لیے ہے۔
بین السطور میں ناول میں ایسی کوئی شہادت نہیں ملتی جس کے برتے پہ ہم یہ کہہ سکیں کہ اس میں سیاسی معاملات کو چھیڑا گیا ہے۔ حقیقت مگر یہ ہے کہ کہانی کے بطون میں ماضی کی وہ سیاسی کہہ مکرنیاں ضرور دکھائی دیتی ہیں وہ دریائے کنہار کے کنارے آباد تہذیب میں بسنے والے انسانوں کے ہاتھوں وقوع پذیر ہوئیں۔ دریائے ہرو، کے کنارے سرسبز پہاڑیوں اور ان پر جھولتے قد آور، دیودار اور چیڑ کے درختوں کے پہلوﺅں سے چھلکتے \"scan0008\"آنسوﺅں کی کہانی۔
”چیڑ کے تنے پر زمین سے تقریبا ً تین فٹ اوپر ایک گہرا گھاﺅ ہے جو تنے کے کل کا ایک چوتھائی ہے …. کٹے ہوئے حصے سے ایک لیس دار مادہ رس رہا ہے جو نیچے، زمین سے فٹ بھر اوپر تنے میں نصب، ٹین کے ایک ڈبے میں گر رہا ہے۔ یہ لیس دار مادہ جسے مقامی زبان میں ”جیگن“ کہا جاتا ہے ، تنے سے نکلتے وقت خاصا نرم اور نسبتاً پتلا ہوتا ہے لیکن جیسے ہی اسے ہوا کے جھونکے چھوتے ہیں یہ بتدریج گاڑھا اور سخت ہو کر ایک دھار کی شکل اختیار کر لیتا ہے…. اسے ہتھیلی پر لگا کر مٹھی بند کر لی جائے تو دوبارہ کھولتے ہوئے خاصی دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔“
ناول، ایک ایسے جادوئی دروازے کے اندر کھلنے والے باغ کی مانند ہے جس کی کلید، خواب ہے۔ یوں خواب کی مسافرت سینکڑوں اور ہزاروں برسوں پر محیط تواریخ کو زینہ بہ زینہ اور قدم بہ قدم کھولتا چلا جاتا ہے ۔ اردو کے منفردشاعر، کہانی کار اور مترجم اسد محمد خاں، نے ناول کے بارے میں نہایت عمدہ اور جامع بات کی ہے۔
”کہیں پہاڑ ہیں تو کہیں غار، اس حیران کن علاقے کے طلسمی ماحول میں ایک کہانی جنم لیتی ہے اور قدیم قصوں اور تاریخی حوالوں کو ساتھ لیے ایک وارفتگی کے ساتھ آگے بڑھتی، کتنے ہی موڑ لیتی، حوصلہ مندی کے ساتھ اختتام کو پہنچتی ہے۔“
ہاں ۔ یہ حوصلہ مندی لازم ہے کہانی کے لیے اس قدر شاید نہیں جس قدر کہانی کار کے لیے اور ساتھ ہی ساتھ گارشیا مارکیز کے لفظوں میں احساس ذمہ داری بھی، اس نے اپنے ایک انٹرویو میں کہیں کہا ہے ۔ ” مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میں بہت زیادہ لوگوں کے لیے لکھ رہا ہوں جوکہ میں نے کبھی سوچا نہیں تھا۔ اس خیال سے ہی ایک ذمہ داری کا احساس اجاگر ہوا جو ادب اور سیاست دونوں سے جڑا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ خودداری سے جڑا ہوا ہے۔ پہلے کے کام کے مقابلے میں آج کا کام غیر معیاری ہو، ایسا میں نہیں چاہتا“۔
سو ، لکھتے ہوئے لکھنے والے کو بہت سی باتیں پیش نظر رکھنا پڑتی ہیں اور ناول لکھنے والے کو مارکیز کے لفظوں میں عام لکھنے والے سے زیادہ محنت، زیادہ تردد کرنا پڑتا ہے۔ ناول لکھنا کچھ عام لکھنا تو ہوتا نہیں۔ یہ تو ایک نئی زندگی تخلیق کرنے کے مترادف ہوتا ہے۔
اختر رضا سلیمی نے اپنے اس ناول ’جاگے ہیں خواب میں‘ میں پورا اہتمام کیا ہے۔ وہ متعلقہ کہانی اور اس کے بیانیے کو پورے طور پر بیان کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ اس کے پڑھنے والے اگلے ناول میں بھی اس سے یہی توقع رکھتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments