ہماری اوقات اور اکڑ دیکھیں


یہ کائنات کتنی بڑی ہے؟ شاید اتنی بڑی کہ لفظ ”بڑا‘‘ بھی بہت چھوٹا ہے۔ اب تک سب سے طاقتور دوربین ”ہبل‘‘ صرف تین ہزار کہکشائیں دیکھ پائی ہے جو بارہ ارب نوری سال کے دائرے میں پھیلی ہوئی ہیں۔ ( ایک نوری سال کا مطلب ہے وہ فاصلہ جو روشنی ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سیکنڈ کی رفتار سے ایک سال میں طے کرتی ہے۔ یعنی اس وقت آسمان پر جو ستارہ چمک رہا ہے اگر وہ زمین سے ایک نوری سال کے فاصلے پر ہے تو اس وقت ہمیں اس کی جو چمک نظر آرہی ہے وہ ایک سال پرانی ہے)۔

ہمیں بچپن سے پڑھایا جاتا ہے کہ زمین نظام شمسی کا تیسرا بڑا سیارہ ہے اور یہ نظامِ شمسی عطارد، زہرہ، مریخ، زمین، نیپچون، یورینس، پلوٹو، زحل اور مشتری نام کے نو سیاروں پر مشتمل ہے جو سورج دادا کے گرد چکر لگا رہے ہیں اور ہمارا یہ سورج اتنا بڑا ہے کہ اس کے سطح پر ایک قطار میں ہمارے سیارے جتنی ایک سو نو زمینیں سما سکتی ہیں۔

لیکن ہمارا یہ نظامِ شمسی اگر کائنات کے لق و دق میدان میں رکھ دیا جائے تو اس کا حجم اس میدان میں پھیلی گھاس کے ایک تنکے کی آدھی نوک سے بھی کم ہے۔ ہمارا یہ نظامِ شمسی جس کہکشاں کا حصہ ہے اس کا نام ہم نے مِلکی وے فرض کر لیا ہے اور یہ کہکشاں اتنی بڑی ہے کہ ہمارا نظامِ شمسی اس کے انتہائی سرے پر ایک ذرے سے زیادہ بڑا نہیں جسے ننگی آنکھ سے بمشکل دیکھا جا سکتا ہو۔ ہمارا سورج اپنی ہی کہکشاں کے مرکزی حصے سے تیس ہزار نوری سال کے فاصلے پر ہے۔ اس طرح کی کہکشائیں اور کتنی ہیں کوئی نہیں جانتا۔ ہم اپنی آسانی کے لیے فرض کر لیتے ہیں کہ یہ ایک ارب سے زائد ہیں۔

اپنی اس کہکشاں کے جن چند ستاروں کے بارے میں ہم اب تک دور بیٹھے جان پائے ہیں ان میں ایک ستارہ وائی کینس میجورس ہے۔ یہ ہم سے تین ہزار نو سو نوری سال کی دوری پر ہے۔ اس کے قطر کا اندازہ ایک ارب اٹھانوے کروڑ کلو میٹر لگایا گیا ہے۔ یعنی اس میں ہماری زمین جیسی چھ لاکھ چالیس ہزار زمینیں با آسانی سما سکتی ہیں۔ اس ستارے سے بھی بڑے اور کتنے ستارے صرف ہماری اپنی کہکشاں میں ہیں یہ ہم ابھی نہیں جانتے چنانچہ دیگر ایک ارب سے زائد کہکشاؤں کا تو ذکر ہی فی الحال فضول ہے۔

اب اگر ہمیں کائنات میں اپنی اوقات کا اندازہ ہو گیا ہو تو آئیے زمین پر اتر آئیں۔ کائناتی کیلنڈر کے پیمانے سے دیکھیں تو یہ زمین محض ایک گھنٹے پہلے ہی وجود میں آئی ہے (یعنی صرف ساڑھے چار ارب سال پہلے) اور اس میں زندگی کے ابتدائی آثار صرف پینتالیس منٹ پہلے ہی پیدا ہوئے ہیں ( یعنی صرف ساڑھے تین ارب سال پہلے) اور ہم اور آپ صرف پندرہ سے بیس منٹ پہلے پیدا ہوئے ہیں (یعنی کوئی ڈیڑھ ارب سال پہلے)۔

لیکن ہماری اکڑ؟ الامان و الحفیظ۔ ارسطو اور ٹولمی جیسے علما سمیت ہم سب کو ابھی چھ سو برس پہلے تک زعم تھا کہ یہ زمین ہی کائنات کا مرکز ہے۔ وہ تو میاں کوپر نیکس نے سولہویں صدی میں یہ کہہ کر نشہ خراب کر دیا کہ زمین تو خود سورج کی کرایہ دار ہے اور دن رات اس کے پیچھے پیچھے گھومتی رہتی ہے۔ پھر کوپرنیکس کے ستر برس بعد گیلیلیو نے یہ انکشاف کر کے رہی سہی عزت بھی خراب کر دی کہ سورج کی بھی کیا اوقات اس جیسے لا تعداد ستارے آسمانوں میں موجود ہیں۔

اس کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم اپنی کھال میں آ جاتے اور صبر شکر کے ساتھ کائنات کی فکر میں دبلے ہونے کے بجائے اپنے ہی گھر اور اس کے تمام انسانی و حیوانی باسیوں کی طرف مکمل توجہ دیتے۔ ابھی تو ہمیں یہی ٹھیک سے نہیں معلوم کہ اس زمین پر دراصل کتنی اقسام کی زندگی پائی جاتی ہے۔ چھیاسی فیصد نباتات، جمادات و حیوانات کا تو ہم ریکارڈ بھی حاصل نہیں کر پائے ہیں۔ اور جو زندگی ہمارے علم و دسترس میں آ چکی اس کی بھی دلجمعی سے ایسی تیسی کرنے پر تلے بیٹھے ہیں۔ بے شک انسان خسارے میں ہے۔

یہ کرہِ ارض ایک چوتھائی خشکی اور تین چوتھائی پانی پر مشتمل ہے۔ اس پانی میں سے صرف تین فیصد میٹھا ہے۔ اس میٹھے پانی میں سے بھی آدھا گلیشئیرز کی شکل میں منجمد ہے۔ گویا صرف اعشاریہ پچھتر فیصد پانی ہے جو ہم اور آپ اس وقت استعمال کر رہے ہیں۔ اور اس استعمال شدہ پانی میں سے بھی ساٹھ فیصد پانی ہم ترسیل و آبپاشی کے ناقص نظام میں ضایع کر بیٹھتے ہیں۔ ان بے اعتدالیوں کے نتیجے میں دریا، جھیلیں اور زیرِ زمین پانی کے ذخائر تیزی سے خشک ہو رہے ہیں یا پھر ہمارے ہی ذاتی و صنعتی فضلے سے آلودہ ہو رہے ہیں۔

ہم نے سادگی کو خیر آباد کہہ کے زندگی کو اتنا مشکل کر لیا ہے کہ اب ہر کام دھاتی گیجٹس کی زد میں آ گیا ہے۔ یہ گیجٹس مفت میں نازل نہیں ہوتے بلکہ زمین میں چھپی معدنیات اور زمین کے اوپر کی نباتات سے تیار ہوتے ہیں۔ ان میں سے آدھے گیجٹس اور آلات یقیناً کارآمد ہیں مگر آدھے اگر نہ بھی ہوں تو بھی زیادہ فرق نہیں پڑتا۔ لیکن دس کام کی اشیا کے مقابلے میں نوے فضول اشیا کی تیاری کا زخم زمین کا سینہ (نباتات و حیاتیات کی شکل میں ) اور زمین کا پیٹ (معدنیات کے ضیاع کی شکل میں) بھگت رہا ہے۔ نتیجہ ایک دن زمین کی موت کی صورت میں نکلے ہی نکلے۔

ہماری لالچ پچھلے سو برس میں پچاس فیصد دریافت شدہ حیاتیات کو نسل کشی کی کگار تک لے آئی ہے۔ اور اگلے پچاس برس میں آدھے چرند و پرند و آبی حیات ہمیں صرف تصاویر میں ہی دکھائی دے گی۔

لیکن کرہِ ارض کی صرف پچیس فیصد زمین پر بسنے والوں نے جو حشر پچھتر فیصد پانی کا کیا، اس کے لیے کم از کم لفظ ”ریپ ہے‘‘۔ سمندر میں تیل کی تلاش، رساؤ اور فضلے کی مسلسل نکاسی نے آدھے ساحلی علاقوں کو آلودگی کے بخار میں مبتلا کر دیا ہے۔ اگلے پینتیس برس میں سمندری حیات کا گھر کہلانے والی کورل ریفز نوے فیصد تک ختم ہو جائیں گی۔ پچھلے پینتالیس برس میں قابلِ خوراک مچھلیوں کی تعداد آدھی رہ گئی ہے۔ لہذا اب ایسے ٹرالرز سمندر میں اتارے جا رہے جن کے ہاتھ دو ہزار میٹر (لگ بھگ سات ہزار فٹ) کی گہرائی میں موجود شکار تک پہنچ سکتے ہیں۔ بحرالکاہل میں اب سے پچاس برس پہلے تک اربوں بلو فن ٹونا مچھلی تھی۔ آج ان کی تعداد چالیس ہزار رہ گئی ہے۔

ہمارے ہی کارخانوں نے اس قدر آلودگی خلا میں جمع کر دی کہ موسمیاتی سائیکل بھی پاگل ہو چکا اور سمندر کی روزمرہ بغاوت تو معمول بنتی جا رہی ہے۔

خشکی و بحری وسائل کے ایسے ریپ کے باوجود دنیا کی ایک تہائی آبادی اگلے کھانے کے لیے فکر مند ہے، ایک تہائی بچے اسکول نامی پرندے سے ناواقف ہیں اور آدھی آبادی کا آدھا بجٹ بیماریوں کو قابو رکھنے میں صرف ہو جاتا ہے۔ پینے کا پانی بوتل میں بک رہا ہے اور بنیادی غذاؤں کے بیج پیٹنٹ کر کے بیچے جا رہے ہیں اور ایک ایک مربع کلومیٹر کی ملکیت پر ریاستوں میں ایسے جنگیں ہو جاتی ہیں جیسے یہ مربع کلومیٹر قبر میں بھی ان کے ساتھ جائے گا۔

ہر تہذیبی گروہ کو سوائے اپنے سب کی نجات کی فکر ہے اور وہ اس فکر میں باقی دنیا کو مزید جہنم بنانے پر تلا بیٹھا ہے۔ ہم خود سے تو سنبھالے نہیں جا رہے مگر مریخ پر پانی تلاش کر رہے ہیں۔ مخلوقِ خدا کی آنکھیں پڑھنے کے بجائے دیگر سیاروں میں اپنے جیسی ” ذہین مخلوق‘‘ کے سگنلز وصول کرنے کے انتظار میں ہیں۔ مگر یہ سوچنے سے قاصر ہیں کہ ہو سکتا ہے کسی اور سیارے کی مخلوق بھی ہماری زمین پر یہ تحقیق کر رہی ہو کہ آخر یہاں طرح طرح کی رنگا رنگ زندگی کے باوجود عقل کیوں عنقا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).