قائد اعظم کیسا پاکستان چاہتے تھے؟


\"fazleپرنٹ اور سوشل میڈیا پر اکثر و بیشتر یہ مباحث چلتے رہتے ہیں کہ بانیِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح ایک روشن خیال اور لبرل پاکستان چاہتے تھے یا ان کی خواہش ایک مذہبی ریاست کا قیام تھی۔ اس حوالے سے قائداعظم کی تقاریر کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ لبرل اور روشن خیال پاکستان کے حامی ان کے 11 اگست کی تقریر کا حوالہ دیتے ہیں اور مذہبی نقطہ نظر کے حامی قائد کی ان تقاریر کو سامنے لاتے ہیں جن میں انھوں نے ریاستی خطوط کو قرآن کے احکامات کے تابع وضع کرنے کی بات ہے۔

 

11 اگست 1947ء کو قائداعظم نے اس وقت کی قانون ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا:

\’\’آپ آزاد ہیں، آپ مکمّل آزاد ہیں کہ اپنے مندروں میں جائیں۔ آپ کو پوری آزادی ہے کہ اپنی مسجدوں کا رُخ کریں یا پاکستان کی ریاست میں جو بھی آپ کی عبادت گاہیں ہیں، ان میں آزادی سے جائیں۔ آپ کا کوئی بھی مذہب، ذات یا مسلک ہو سکتا ہے۔ ریاست کے اُمور کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔\’\’

 

اسی خطاب میں انہوں نے مزید فرمایا:

\’\’اس کے بعد آپ دیکھیں گے کہ کچھ عرصہ گذرنے کے بعد ہندو ہندو نہیں رہیں گے اور مسلمان مسلمان نہیں رہیں گے۔ میں یہ بات مذہبی معنوں میں نہیں کہہ رہا ہوں، کیوں کہ یہ تو ہر فرد کے نجی عقیدوں کا معاملہ ہے، بلکہ ریاست کے باشندے ہونے کی بنا پر سیاسی معنوں میں۔\’\’

 

2 جنوری 1948ء کو کراچی میں اخبارات کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے قائد اعظم نے ارشاد فرمایا:

\’\’اسلامی حکومت کے تصور کا یہ امتیاز پیش نظر رہنا چاہیے کہ اس میں اطاعت اور وفا کا مرکز اللہ تعالٰی کی ذات ہے جس کی تعمیل کا عملی ذریعہ قرآن کے احکام و اصول ہیں۔ اسلام میں اصلاً نہ کسی بادشاہ کی اطاعت ہے، نہ پارلیمنٹ کی، نہ کسی شخص یا ادارے کی۔ قرآن کریم کے احکام ہی سیاست و معاشرت میں ہماری آزادی اور پابندی کی حدیں مقرر کر سکتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں اسلامی حکومت قرآنی احکام و اصولوں کی حکومت ہے۔\’\’

13اپریل8194ء کو اسلامیہ کالج پشاور میں تقریر کرتے ہوئے بانیِ پاکستان نے فرمایا:

\’\’ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا بلکہ ہم ایسی جائے پناہ چاہتے تھے جہاں ہم اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی بسر کر سکیں۔\’\’

 

یہ اور اس طرح کی ان کی دیگر کئی تقاریر ہیں، جن سے لبرل اور مذہبی طبقے اپنی من مرضی کے اقتباسات پیش کر کے کوئی قائد کو لبرل اور روشن خیال ریاست کا حامی قرار دیتا ہے اور کوئی ان کو مذہبی ریاست کے قیام کا متمنی خیال کرتا ہے۔

یہ تمام مباحث اپنی جگہ لیکن اگر ہم حقیقت میں دیکھیں تو پاکستان نہ تو مذہبی ریاست بن سکا ہے اور نہ ہی ایک لبرل اور روشن خیال ریاست کا روپ دھار سکا ہے بلکہ جس پاکستان کو ہم اور دنیا کھلی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے، وہ کسی اچھی شہرت کا حامل نہیں ہے۔ وہ ہر شعبۂ زندگی میں زوال اور درماندگی کا شکار ہے۔

 

اس بات سے قطع نظر کہ قائد پاکستان میں کون سا نظام نافذ کرنا چاہتے تھے لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ پہ موجود ہے کہ وہ پاکستان میں آئین اور قانون کی بالادستی چاہتے تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ نو آزاد ریاست اپنے شہریوں کو امن و انصاف دے اور یہاں رہنے والے خواہ وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم سب کو یکساں شہری حقوق حاصل ہوں۔ کوئی کسی کو مذہبی عقیدے کی بناء پر قتل نہ کرے، کوئی کسی پر اپنی مرضی کے نظریات مسلط نہ کرے۔ خواہ ان نظریات کا تعلق مذہب سے ہو یا سیکولر ازم سے۔ ہر شخص عقیدے میں آزاد ہو۔ قائد کی زندگی اگر ان سے وفا کرتی تو وہ یقیناً پاکستان میں عدل و انصاف کا نظام قائم کرتے۔ وہ پاکستان کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ایسا نظام دیتے جس سے پاکستان اقوام عالم میں باعزت مقام حاصل کرتا۔ وہ ایسی سیاست کو فروغ دیتے جس کا مطمح نظر عوام کی خدمت و خوشحالی اور ملک کی ترقی اور وقار ہوتا۔

 

قائداعظم کے حوالے سے لبرل اور مذہبی ریاست کے حوالے سے جو بحث کی جاتی ہے، اس کے نتیجے میں کوئی اتفاق رائے پیدا ہونا تو دور اس سے پڑھنے والوں کو یہ تاثر ملتا ہے کہ قائداعظم شاید خود بھی ذہنی الجھاؤ کا شکار تھے کہ نئی ریاست کا نظام کیسا ہونا چاہئے۔ اس بحث سے پڑھنے والوں کو یہ پیغام بھی ملتا ہے کہ کہیں قائد تضادات کا شکار تو نہیں تھے؟ قائداعظم نے ہمیں ایک آزاد ملک دیا ہے۔ اب یہ ہماری ذمہ داری بنتی تھی کہ ہم اس بحث میں پڑے بغیر کہ پاکستان کو مذہبی ریاست ہونا چاہئے یا سیکولر، اس کو امن و انصاف اور ترقی و خوشحالی سے ہم کنار کرتے۔ اس کو مذہبی جنونیت کا اکھاڑہ نہ بننے دیتے۔ مذہب کو اپنی سیاسی اغراض کے لیے استعمال نہ کرتے۔ قائد کے نظریات اپنی جگہ اہمیت ضرور رکھتے ہیں اور بابائے قوم کے ناطے ہمیں ان کے افکار و اعمال سے روشنی ضرور حاصل کرنی چاہئے لیکن اس لاحاصل بحث میں پڑنے کی بجائے اگر ہم سیدھے سادے انداز میں اس بات کا جائزہ لیں کہ نئے دور کے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ پاکستان کیسا ہونا چاہئے۔ جس میں امن و انصاف ہو، جس میں ہر شخص کو بنیادی ضروریات میسر ہوں، جس میں تعلیم عام ہو، جس میں ہر شہری کو علاج معالجہ کی بہترین سہولتیں میسر ہوں، جس میں مذہبی انتہاپسندی اور دہشت گردی کا قلع قمع ہو۔ کسی کا گلا مخالف عقیدے کی بنیاد پر نہ کاٹا جائے۔ جس میں ہر صوبے کو مساوی حقوق دئیے جائیں۔ جس میں ہر ادارہ اپنی آئینی حدود میں رہے۔ جہاں قانون سب کے لیے یکساں ہو۔ جس میں لوٹ مار اور بدعنوانی کرنے والے افراد کو بلا تخصیص عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے۔ جس میں قانون کی عمل داری کے حوالے سے کوئی سوال نہ اٹھا سکے۔

 

کیا ہم مذہبی شدت پسندی اور لبرل انتہاپسندی کے بیچ کوئی ایسا راستہ تلاش نہیں کر سکتے جو اعتدال پر مبنی ہو اور جس میں ہر شعبۂ زندگی خواہ وہ انفرادی ہو یا اجتماعی اعتدال کی حدود میں رہے۔ جس میں مخالف موقف کو صبر و برداشت کے ساتھ سنا جاسکے۔ یہ وقت لایعنی مباحثوں کا نہیں ہے، عمل کا ہے اور ایسے عمل کا جس کے نتیجے میں پاکستان ایک جمہوری، روشن خیال اسلامی فلاحی مملکت بن سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments