نقیب اللہ محسود قتل کیس میں راؤ انوار 30 دن کے ریمانڈ پر پولیس کے حوالے


راؤ انوار

کراچی میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے نقیب اللہ محسود قتل کیس میں سابق ایس پی ملیر راؤ انوار کو 30 روز کے جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا ہے۔

30 روز کے طویل ریمانڈ کی وجہ سکیورٹی خدشات کو قرار دیا گیا ہے جبکہ سماعت کے موقع پر صحافیوں کو کمرہ عدالت سے دور رکھا گیا۔

جمعرات کو ملزم راؤ انوار کو بکتر بند گاڑی میں پولیس کی دیگر متعدد گاڑیوں کے حصار میں انسداد دہشت گردی کی جج خالدہ یاسمین کی عدالت میں پیش کیا گیا، تفتیشی پولیس نے ملزم کا 30 روز کا جسمانی ریمانڈ طلب کیا۔

اس بارے میں مزید پڑھیے

نقیب اللہ قتل کیس: راؤ انوار کو گرفتار کر لیا گیا

’خفیہ اداروں کی رپورٹس لیکن گرفتاری میں پیش رفت نہیں‘

نقیب اللہ کیس: راؤ انوار کی تین روز میں گرفتاری کا حکم

عدالت نے ملزم راؤ انوار سے دریافت کیا کہ انھیں کوئی اعتراض تو نہیں جس پر راؤ انوار نے کہا کہ وہ پولیس افسر ہیں انھیں معلوم ہے کہ تفتیش کے لیے ریمانڈ کی ضرورت پڑتی ہے۔

عدالت نے واضح کیا کہ سکیورٹی وجوہات کی بنا پر ان کا 30 روز کا ریمانڈ دیا جا رہا ہے۔

عدالتی احاطے میں ملزم راؤ انوار کی آمد سے لیکر عدالت میں پیشی تک صحافیوں کو دور رکھا گیا جبکہ راؤ انوار کے وکیل جاوید چھتیاری نے سماعت کی تفصیلات بیان کیں۔

اس سے قبل جمعرات کی صبح عدالت میں نقیب اللہ قتل کیس کی سماعت کے موقعے پر ایس ایس پی قمر احمد سمیت گرفتار 10 پولیس اہلکاروں کو پیش کیا گیا۔

مقدمے کے تفتیشی افسر ایس پی عابد قائم خانی نے عدالت کو آگاہ کیا کہ نقیب اللہ قتل کیس میں پولیس نے جو اسلحہ اور بارود ظاہر کیا تھا اس مقدمے میں راؤ انوار کا ریمانڈ لینے کے انسداد دہشت گردی کی عدالتوں کے انتظامی جج (جو سندھ ہائی کورٹ کے جج ہیں) کی عدالت میں پیش کیا جا رہا ہے۔

نقیب اللہ کیس: راؤ انوار کو عہدے سے ہٹا دیا گیا

’راؤ انوار طاقتور حلقوں کے بھی نور نظر‘

عدالت نے حکم جاری کیا کہ ملزم کو پہلے اس عدالت میں پیش کیا جائے جس کے بعد پولیس کی مرضی ہے اسے جہاں بھی پیش کرے۔

ایس پی عابد قائم خانی نے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے راؤ انوار کو غیر معمولی سکیورٹی میں عدالت میں پیش کیا گیا۔

راؤ انوار نے کئی ماہ کی روپوشی کے بعد بدھ کے روز خود کو سپریم کورٹ میں پیش کیا تھا، جہاں سے انھیں گرفتاری کے بعد کراچی پہنچایا گیا ہے۔ اس سے قبل انسداد دہشت گردی کی عدالت راؤ انوار کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کر چکی ہے۔

ملیر کے سچل تھانے میں ایس ایس پی راؤ انور کے خلاف قتل اور انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقتول نقیب اللہ کے والد کی درخواست پر مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔

راؤ انوار نے عثمان خاصخیلی گوٹھ میں ایک مقابلے میں ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا اور ان کا تعلق تحریک طالبان سے بتایا تھا۔

نقیب اللہ کے والد محمد خان محسود نے ایف آئی آر میں بتایا ہے کہ تین جنوری کو مبینہ طور پر راؤ انوار کے سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکار ان کے بیٹے نقیب اللہ اور حضرت علی اور قاسم کو اٹھا کر لے گئے بعد میں 6 جنوری کی شب حضرت علی اور قاسم کو سپر ہائی وے پر چھوڑ دیا لیکن راؤ انوار نے نقیب اللہ کو قید رکھا اور اس کے موبائیل فون بھی بند کر دیا۔

ایف آئی آر میں بتایا گیا ہے کہ نقیب اللہ کے رشتے دار اس کی تلاش کرتے رہے لیکن معلوم نہیں ہوا۔ ان کے والد نے ایف آئی آر میں کہا کہ 17 جنوری کو ٹی وی اور اخبارات سے انھیں معلوم ہوا کہ ان کے بیٹے کو راؤ انوار اور اس کے اہلکاروں نے جعلی مقابلے میں ہلاک کردیا لہٰذا ان کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا جائے۔

پولیس انسپیکٹر شاکر نے ایف آئی آر میں تحریر کیا ہے کہ اس واقعے کی وجہ سے عوام میں دہشت اور خوف و ہراس پھیلا اس لیے اس میں انسداد دہشت گردی کی بھی دفعہ شامل کی گئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp