’جب عرفات کے قتل کے بدلے اسرائیل اپنے شہری کی جان لینے پر تیار تھا‘


بیروت کے گرم موسم میں ٹریفک کی لمبی قطار میں موجود گاڑیاں کنکریٹ کے بلاکس اور خاردار تاروں کے درمیان سے گزر رہی تھیں۔

شہر کے مشرق اور مغرب کو الگ کرنے کے لیے سنہ 1982 میں لبنان اور اسرائیل کے درمیان جنگ کے دوران بنائی جانے والی چیک پوسٹ کو ہزاروں افراد فائر بندی کے وقت عبور کرتے تھے۔

اس بارے میں مزید پڑھیے

وہ جنگ جس نے مشرقِ وسطیٰ کو بدل کر رکھ دیا

’موساد نے بھی تصدیق کر دی تھی‘

ان افراد کے درمیان ایک میگزین کے مدیر اعلیٰ اوری ایونرے بھی موجود تھے۔ انھیں فلسطین لبریشن آرگنائزیشن، پی ایل او کی چیک پوسٹ پر اپنی شناخت کو ظاہر کرنے کو کہا گیا تھا۔ یہ چیک پوسٹ بیروت میوزیم کے قریب تھی۔

ایونرے وہ پہلے اسرائیلی بننے والے تھے جن کی رسمی طور پر پی ایل او کے سربراہ یعنی یاسر عرفات سے ملاقات ہونے والی تھی۔

اپنے ملک کے سب سے بڑے دشمن کے ساتھ اپنی ملاقات کو یاد کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ کچھ خطرناک تھا۔ جنوبی بیروت سے پی ایل او ہاؤس تک کے ٹیڑھے میڑھے راستوں پر جانے سے پہلے انھیں مسلح مرسیڈیز میں بٹھایا گیا۔

انھوں نے مجھے بتایا کہ ہم نے امن کے بارے میں بات کی، اسرائیل اور فلسطینی ریاست کے درمیان امن کے بارے میں۔

لیکن عرفات سے ایونری کی ملاقات ان کے میگزین کو ایک غیر معمولی رسائی ملنے تک ہی ختم نہیں ہوئی۔

تین دہائیوں سے زیادہ کا عرصہ گزر جانے کے بعد اس میں ایک نیا رخ آیا اور وہ یہ الزام تھا کہ اسرائیلی کمانڈوز نے اپنے ہی ہم وطن کا اس وقت پیچھا کرنے کی کوشش کی جب وہ پی ایل او کے سربراہ سے ملاقات کر رہے تھے اور وہ اسے قتل کرنے کے لیے تیار تھے۔

اپنی حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب میں اسرائیلی صحافی رونین برگمین نے پی ایل او کے سربراہ کو اسرائیل کی جانب سے مبینہ طور پر قتل کرنے کی متعدد کوششوں کے بارے میں لکھا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے اس علاقے میں سینکڑوں اہم افراد کے انٹرویوز کیے جن کے نتیجے میں بہت زیادہ شکوک و شبہات سامنے آئے اور یہ موضوع اسرائیل میں بڑے پیمانے پر مختلف سطحوں پر موجود تھا۔

انھوں نے کہا کہ جب وہ اپنی تحقیق کر رہے تھے تو فوج کے سربراہ نے ان پر ’جاسوسی کا الزام‘ لگایا۔

بیروت کا محاصرہ سنہ 1982 میں ہوا۔ برگمین کہتے ہیں کہ ایک اعلیٰ کمانڈر جسے عرفات کو مارنے کے لیے منتخب کیا گیا تھا کا خفیہ نام سالٹ فِش تھا۔

انھوں نے دعویٰ کیا ہے کہ اوری کی ملاقات کا فائدہ اٹھایا گیا اور صحافی اور ان کے دو ساتھیوں کو پی ایل او کے رہنما کے ساتھ آگے جانے دیا گیا۔

مسٹر برگمین لکھتے ہیں کہ ’سالٹ فش کے ٹیم ممبران کے درمیان بحث چھڑ گئی کہ کیا یہ ٹھیک ہے کہ اسرائیلی شہریوں کو خطرے میں ڈالا جائے اور ممکنہ طور پر قتل ہونے دیا جائے؟ اس کے جواب میں ان کا فیصلہ تھا ہاں۔‘

لیکن وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ سالٹ فش بیروت میں اس کوشش میں ناکام ہو گئے۔

اشتعال انگیزی

اوری اونرے کو عرفات سے ملاقات بہت اچھی طرح یاد ہے کیونکہ انھوں نے اس کا احوال لفظ بہ لفظ شائع کیا تھا۔ اب ان کی عمر 94 برس ہے۔ تل ابیب میں واقع اپنے اپارٹمنٹ نے انھوں نے مجھ سے بات کی۔

انھوں نے بتایا کہ سنہ 1982 میں جب انھوں نے عرفات کا انٹرویو کیا تو اسرائیلوں کو اس پر بہت غصہ آیا اور حکومت نے اس کی تحقیقات کا حکم دے دیا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اٹارنی جنرل نے فیصلہ دیا کہ میں نے کوئی قانون نہیں توڑا کیونکہ اس وقت پی ایل او کے کسی رہنما سے ملاقات کے خلاف کوئی قانون نہیں تھا۔‘

لیکن پھر اس دعوے کے متعلق کیا ہے کہ عرفات سے ان کی ملاقات میں ان کی زندگی بھی داؤ پر لگ سکتی تھی؟

وہ کہتے ہیں مجھے اس بارے میں کچھ شکوک و شبہات ہیں۔ اس کی وضاحت انھوں نے کچھ یوں کی کہ یہ ملاقات 24 گھنٹوں کے اندر اندر طے پائی اور اس کے لیے انھوں نے فون کال کی۔

لیکن پھر ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی کہا ’مگر۔۔۔ اگر وہ اتنے تیز تھے کہ وہ میری فون کال سن سکتے تھے، مجھے پکڑ سکتے ہیں اس پوائنٹ پر جہاں میں نے فرنٹ لائن عبور کی اور ہماری گاڑی کا پیچھا کر سکتے تھے تو ہاں یہ ممکن ہے۔‘

’جنگ اندھی ہوتی ہے‘

سالٹ فِش کی یونٹ کے سربراہ اوزی ڈیان تھے جو پھر اسرائیلی فوج کے ڈپٹی کمانڈر بنے۔

انھوں نے مجھے بتایا کہ ان کی ٹیم نے عرفات کی جان لینے کے لیے آٹھ سے دس بار کوشش کی۔

جب ان سے پوچھا کہ کیا ان حملوں میں شہری ہلاک ہوئے تھے تو ان کا جواب تھا’ جہاں تک میرے علم میں ہے نہیں۔‘

لیکن ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’جب معصوم لوگوں کی بات کریں تو ان کا سٹاف بھی معصوم ہے؟ نہیں۔ کیا ان کے ایک سٹاف ممبر کی بیوی معصوم تھی؟ اس کے بارے میں سوچا جا سکتا ہے اگر وہ اپنے ساتھ بچہ بھی لے کر آئی ہوں؟‘

’اور اگر ہمیں معلوم ہو کہ وہاں شہری بھی تھے تو ہم اسے ٹارگٹ نہیں کہیں گے۔ لیکن آپ کو معلوم ہے کہ جنگ اندھی ہوتی ہے۔ آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ آپ کے ہمسائے میں کسی کو نقصان ہوا ہے۔‘

’پاگل پن پر مبنی خیال‘

بیروت پر اسرائیلی محاصرے کے دوران یہ دیکھا گیا کہ اس وقت کے وزیر دفاع ایریل شیرون نے اپنے ساتھی وزرا کے بہت سے اختیارات بھی چھین لیے۔

میجر جنرل ڈیان پی ایل او کی جانب سے اسرائیلوں کی ہلاکتوں یا پھر لبنانی اڈوں سے کیے جانے والے حملوں کی وجہ سے اپنے مشن پر بھی کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کرنا چاہتے تھے۔

لیکن وہ اس بات سے انکاری ہیں کہ ان کی یونٹ اس مبینہ حملے کے پیچھے تھی جس کا ذکر رونن برگمین نے کیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’یہ سوچنا پاگل پن ہے کہ ایک اسرائیلی افسر یا اسرائیلی وزیر دفاع یا اسرائیلی وزیراعظم نے عرفات کو قتل کرنے اور اسی وقت کچھ اسرائیلیوں بشمول اوری ایونرے کو جو ان سے ملاقات کر رہے ہوں کو قتل کرنے کی اجازت دی ہو گی۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ایسی صورتحال کے بارے میں وہ کچھ نہیں جانتے۔

جنرل ڈیان نے اپنی گفتگو میں ’چھپ کر قتل‘ کے لفط کے استعمال سے گریز کیا اور کہا کہ ان کا مقصد تھا عرفات ’زندہ نہ رہیں۔‘

کئی برس بعد جب اسرائیل اور فلسطین نے امن مذاکرات کیے تو جنرل ڈیان اور عرفات کی کئی ملاقاتیں ہوئیں۔

جنرل ڈیان کہتے ہیں کہ انھوں نے پی ایل او کے سربراہ سے کبھی بھی ان پر حملے میں اپنے ملوث ہونے کے بارے میں بات نہیں کی لیکن ان کا خیال ہے کہ شاید وہ اس بارے میں جانتے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32538 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp