ہائے میری کام والی۔۔۔۔


پہلی نظر اس کے چہرے پر پڑی تو تھوڑا منفی سا احساس ہوا۔ مگر چپ رہی۔ کیا کرتی مجبوری بھی تھی اور پھر یہ بھی ڈر تھا کہ بڑی مشکل سے اسے حاصل کیا ہے اور ابھی کوئی اور انتظام بھی نہیں ہو سکتا۔ اعتراض کیا یا اپنے تحفظات کا اظہار کیا تو شوہر کہے گا کہ میں تو ہر کسی میں کیڑے نکالتی ہوں، میرے لئے تو اللہ میاں کسی کو خاص طور پر تخلیق کر کے آسمان سے اتاریں گے۔

تھی وہ دھان پان سی عمر سترہ سال مگر پہلے والیوں سے کام میں تیز۔ پہلے دن ہی اس نے میر ے بچے کو بڑی اچھی طرح سے سنبھال لیا۔ اور گھر کے چھوٹے موٹے کام بھی بنا پوچھے خود اپنی مرضی سے کر ڈالے۔ وہ مجھے خوش کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہی تھی۔ مجھے بھی لگا کہ شاید میرے تحفظات غلط تھے مگر ابھی تو چند ہی گھنٹے گزرے تھے اسے گھر میں قدم رکھے۔ رات جب میں اپنے بچے کو سلانے کے لئے تیار کر رہی تھی تو وہ پاس آکر کھڑی ہوئی اور جن رشتہ دار کے ہاں سے اسے بلایا تھا، ان کے گھر کے قصے سنانے کی تمہید باندھنے لگی۔ میں نے وہیں اسے پیار سے چپ کرا دیا اور سمجھایا کہ ہمارے گھر میں کوئی بھی دوسروں کے گھروں کی کہانیاں سننا پسند نہیں کرتا، وہ آئندہ احتیاط کرے۔

گھر میں سرونٹ کوارٹر نہیں ہے اس لئے اسے لاؤنج کے بڑے صوفے پر بستر لگا دیا۔ صبح ہوئی تو دیکھا دس بجے تک وہ سو رہی تھی۔ امی اور بھائی بغیر آواز نکالے باورچی خانے میں کھڑے ناشتہ کر رہے تھے۔ خیر ساڑھے دس کے قریب وہ انگڑائیاں لیتی اٹھی اور پونے گھنٹے بعد پورے ہار سنگھار کے ساتھ باتھ روم سے برآمد ہوئی۔ میں نے کچھ نہیں کہا یہ سوچ کر کہ چلو ابھی تو بچہ سویا ہوا ہے اور یہ تو اچھی بات ہے کہ وہ صاف ستھرا رہنا پسند کرتی ہے۔

اسے میں نے صرف بچے کی دیکھ بھال کے لئے رکھا تھا وہ بھی تب جب میں اس کے پاس نہ ہوں۔ دفتر سے گھر آتے ہی میں اپنے بیٹے کو اپنے پاس بلا لیتی اور اسے بریک دے دیتی۔ میں نے اسے پوچھا کہ تمہارا دل لگ گیا تو بولی جی باجی میں بہت خوش ہوں، کوئی کام تو کرتی نہیں بس بچے کے ساتھ کھیلتی رہی تو دن کا پتا ہی نہیں چلا۔

اصل کہانی شروع ہوئی تقریباً ایک ہفتہ بعد جب اس نے مجھ سے نویں جماعت کے کورس کی کتابوں کا مطالبہ کیا ( وہ آٹھ جماعتیں پڑہی ہوئی تھی)۔ میں نے وعدہ کر لیا کہ جلد اسے لا دوں گی۔ میں خوش بھی ہوئی کہ چلو بچی پڑھنا چاہتی ہے تو کیوں نہ اس کی مدد کر دوں۔ یہ انگریزی کے کافی الفاظ بولتی تھی باقی میرا بچہ اسے سکھا رہا تھا اپنے آئی پیڈ کے ذریعے۔ میں نے بھی اسے آئی پیڈ کا پاس ورڈ بتا دیا۔ میرا بچہ یو ٹیوب پر کچھ ایسی ویڈیوز دیکھتا ہے جو چھوٹے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے مخصوص ہیں۔ اس کے علاوہ اس آئی پیڈ پر اور کوئی کچھ نہیں دیکھتا۔

ایک دن دفتر میں بیٹھی تھی تو اچانک میری فیس بک پر نوٹیفیکیشنز آنے لگیں کہ کسی نے میری حالیہ اپ لوڈڈ تصویر کو پسند کیا ہے۔ سوچا میں نے تو کوئی تصویر اپ لوڈ نہیں کی۔ پھر دماغ کی گھنٹی بجی۔ فوری گھر فون کیا اور امی سے بولا آئی پیڈ جس کے بھی پاس ہے اس سے لے کر بند کر دیں۔ وہ تصویر آئی پیڈ میں موجود میری گیلری سے فیس بک پر شئیر ہوئی۔ غصہ تو بہت آیا مگر پی گئی۔ واپسی پر پوچھ گچھ کرنے پر الزام میرے بیٹے پر آگیا۔ وہ جانتی تھی کہ ابھی بچہ اتنی تفصیلات نہیں بتا سکتا۔ بولی آپ کا بیٹا ہی استعمال کرتا ہے مجھے تو استعمال کرنا بھی نہیں آتا۔

ایک دو روز ہی گزرے تھے کہ پھر سے ایک واقعہ ہوا۔ آئی پیڈ کی آواز کسی نے پوری بند کر رکھی تھی۔ مجھے پھر تشویش ہوئی پوچھنے پر الزام پھر میرے بچے کے سر آیا۔ اتنی دیر میں میرے بیٹے نے ایک ویڈیو کی فرمائش کر دی۔ جب ویڈیو ڈھونڈنے کے لئے سرچ بار کھولی تو میرا یک رنگ آیا اور ایک گیا۔ وہاں کچھ ایسی ویڈیوز سرچ کی گئیں تھیں جنہیں ہم پورن کے نام سے جانتے ہیں۔ مجھے لگا میرے کانوں سے دھواں نکل رہا ہو۔ فکر یہ تھی کہ کہیں میرے اڑہائی سالہ بچے کو تو یہ گند نہیں دکھایا گیا۔ میں نے فوراً آئی پیڈ کا پاس ورڈ تبدیل کر دیا۔ اس روز میں نے اپنے بیٹے کو اس کے پاس نہیں جانے دیا۔ میرے شوہر نے جب تحقیقات کیں اور اس سے پوچھا تو وہ مان گئی اور رونے لگی معافیاں مانگنے لگی اور وعدہ کیا کہ آئندہ وہ ایسا کچھ نہیں کرے گی۔

آہستہ آہستہ دن گزرتے گئے۔ میرے بچے کے رویے میں بہت تبدیلی آرہی تھی وہ جیسے ہر وقت غصہ میں رہتا تھا۔ میں روز رات کو اسے یہ سمجھاتی کہ اگر اسے کوئی کچھ کہے، ڈانٹے یا مارے تو وہ فوراً مجھے یا اپنے بابا کو بتائے۔ مجھے اس کی ٹانگ پر کچھ نشان بھی نظر آئے جیسے کسی نے اسے چٹکیاں کاٹی ہوں۔ میری والدہ سارا دن اس کے سر پر ہوتی تھہیں مگر کبھی نہ کبھی تو میرا بچہ اس کے ساتھ اکیلا بھی ہوتا ہوگا۔ عجیب مشکل میں جان پھنسی تھی، نوکری کرنا مجبوری تھی اور دفتر جانا تھا۔۔۔ ورنہ اپنے بچے کو ایک منٹ بھی اس کے ساتھ اکیلا نہ چھوڑتی۔

میری راتوں کی نیند اڑتی جا رہی تھی اور وہ اپنی چھوٹی بہن کو بھی ہمارے ہاں ملازمت پر رکھنے کے مشورے میری امی کو دے رہی تھی۔ دیتی بھی کیو ں نہ۔ گھر کا ایسا ما حول اس نے شاید پہلی بار دیکھا تھا جہاں اس میں اور کسی گھر والے میں کوئی فرق نہیں رکھا جاتا تھا۔ نہ کھانے پینے کی روک ٹوک نہ کہیں اٹھنے بیٹھنے کی۔ آتے ہی نئے جوڑے بھی ملے جوتے بھی اور تنخواہ کے علاوہ پیسے بھی۔ ہمارا حال تو یہ تھا کہ اگر کبھی کسی ریستوران میں کھانا کھاتے تو اس کی مرضی کی چیز منگواتے اور اسے کہتے کہ پہلے وہ کھا لے اتنی دیر ہم بچے کو دیکھتے ہیں اور ہم بعد میں کھا لیں گے۔ ہاں ایک کام ضرور کرتی تھی کہ اس کی کھانا کھاتے ایک تصویر ضرور لے لیتی تھی ثبوت کے طور پر کہ کہیں بعد میں ہمارے کھانے کے دوران کوئی اس کی تصویر کھینچ کر اس کیپشن کے ساتھ کہ” ظالم لوگ،بچی کو بھوکا کھڑا کیا ہو ا ہے” کے سٹیٹس کے ساتھ سوشل میڈیا پر نہ چلا دیں۔ ہمارے حسن سلوک کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ اسے دیکھ کر لوگ حیرت سے یہ کہتے تھے کہ کیا واقعی وہ ہماری اجیر ہے یا کوئی رشتہ دار؟

باقی حصہ پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2