نو  بال پر وکٹ نہیں اڑتی


عمران خان وطن عزیز کے نامور کرکٹ رہے ہیں۔ بطور کھلاڑی عمران خان نے کھیل کے ہر شعبے میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے۔ عمران خان کی قیادت میں قومی کرکٹ ٹیم نے ورلڈ کپ جیتا، جس کے لیے قوم ان کی شکر گذار ہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد عمران خان نے اپنی والدہ مرحومہ کی یاد میں ایک عظیم الشان کینسر اسپتال بنایا اور اس کے بعد قوم کی مزید خدمت کرنے کے لیے سیاست کے میدان میں قدم رکھا۔ کھیل کے میدان اور سیاست کے میدان میں کیا فرق ہوتا ہے، اس کا اندازہ اب تک عمران خان صاحب کو ہو چکا ہے کیونکہ خان صاحب کا سیاسی اوور کچھ زیادہ ہی طویل ہوگیا ہے، جس کی وجہ سے خان صاحب کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز نظر آتا ہے۔ خان صاحب میدان سیاست میں قدم رکھنے کے بعد روز اول سے بدعنوان سیاست دانوں کے لتے لیتے آئے ہیں اور بعض دفعہ تو زور خطابت میں سیاسی مخالفین، انتظامیہ، معزز عدلیہ اور اس کے ججوں کے خلاف ایسے الفاظ اور جملوں کا استعمال کر جاتے ہیں کہ نوبت معافی مانگنے تک پہنچ جاتی ہے لیکن کچھ عرصے بعد خان صاحب کے وہی رنگ ڈھنگ ہوتے ہیں۔

خان صاحب نے کوچہ سیاست میں قدم یقینا اقتدار کے حصول کے لیے ہی رکھا ہے کیونکہ قوم کی خدمت تو بے شمار لوگ بنا سیاست کر رہے ہیں۔ جب خان صاحب نے سیاست میں قدم رکھنے کا اعلان کیا، تو وطن عزیز کی بڑی سیاسی جماعتوں نے ان کا خیرمقدم کیا اور اپنی جماعت کے دروازے ان پر وا کیے، لیکن خان صاحب سیاست میں کسی بڑی تبدیلی کے خواہاں تھے اس لیے نوے کی دھائی میں اپنی سیاسی جماعت تشکیل دی جس کا نام تحریک انصاف تجویز ہوا۔ تحریک انصاف کے منشور کا بنیادی نکتہ انصاف پر مبنی معاشرے کا قیام ہے، گزشتہ عام انتخابات کے بعد خان صاحب اپنی تقاریر اور انٹرویو میں عوام سے وعدہ کرتے نظر آتے ہیں کہ تحریک انصاف اقتدار حاصل کرنے کے بعد، آزاد الیکشن کمیشن، آزاد عدلیہ اور آزاد احتساب بیورو کا قیام عمل میں لائے گی اور وطن عزیز سے بدعنوانی کا خاتمہ کرے گی۔ تحریک انصاف کی تشکیل کے بعد خان صاحب اور ان کے رفقا نے قوم سے وعدہ کیا کہ بدعنوان عناصر کی تحریک میں کوئی گنجائش نہیں ہوگی، لیکن بظاہر ایسا نظر نہیں آتا۔

تحریک انصاف نے 2002ء کے عام انتخابات میں حصہ لیا اور قومی و صوبائی اسمبلی کی ایک ایک سیٹ ہی پر کامیابی حاصل کرپائی۔ لیکن خان صاحب نے حوصلہ نہ ہارا، کیونکہ وطن عزیز کے دو بڑے سیاسی رہنما بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف وطن سے دور تھے اور جنرل پرویز مشرف کے دور میں آئینی ترمیم کے ذریعے مذکورہ بالا دونوں رہنماﺅں کے تیسری دفعہ وزیر اعظم بننے پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔ جب جنرل پرویز مشرف کی حکومت پر گرفت کمزور ہوئی، تو ریٹائرڈ جنرل نے بین الاقوامی دباﺅ کے تحت مرحومہ بے نظیر بھٹو سے این۔ آر۔ او کیا۔ اب دونوں بڑی جماعتوں کے رہنماﺅں کی وطن عزیز میں آمد کی راہ ہموار ہوگئی۔ خان صاحب جنرل پرویز مشرف سے وعدہ ایفا نہ کرنے پر ویسے ہی ناراض بیٹھے تھے، بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کی یقینی آمد نے خان صاحب کا پارہ آسمان پر چڑھا دیا۔ بے نظیر بھٹو کی ناگہانی ہلاکت کے بعد خان صاحب نے عام انتخابات کا بائیکاٹ کردیا، یوں تحریک انصاف نے عام انتخابات 2008ء میں حصہ نہ لیا۔ عام انتخابات میں پیپلز پارٹی اکثریتی جماعت کے طور پر سامنے آئی اور میثاق جمہوریت کی و جہ سے مسلم لیگ (ن) کے ساتھ مل کر وفاق اور صوبہ پنجاب میں مخلوط حکومت بنائی۔

پیپلز پارٹی کی حکومت عوام کی توقعات پوری کرنے میں ناکام رہی، جس کا فائدہ تحریک انصاف نے اٹھایا اور روایتی سہولت کاروں کی مدد سے اکتوبر 2011ء میں لاہور میں ایک بڑا عوامی جلسہ کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ اب عمران خان روایتی سیاست پر آمادہ تھے اور 2013ء کے عام انتخابات سے قبل اپنی جماعت کو کافی حد تک منظم کرنے میں کا میاب ہو گئے اور عام انتخابات میں تیسری بڑی قوت کے طور پر ابھرے، بلکہ صوبہ خیبر پختون خواہ میں مخلوط حکومت بنانے میں بھی کامیاب ہوگئے۔ خان صاحب کا دعوی ہے کہ انتخابات میں دھاندلی نہیں ہوتی، تو تحریک انصاف وفاق میں بھی حکومت بنانے میں کامیاب ہوجاتی۔ عام انتخابات کے نتائج خان صاحب اور کچھ حلقوں کے لیے غیر متوقع تھے، اس  لیے خان صاحب نے دھاندلی کا نعرہ لگایا اور وفاقی دارالحکومت میں کئی ماہ دھرنا بھی دیا اور امپائر کی انگلی اٹھنے کے منتظر رہے، سانحہ آرمی پبلک اسکول کی وجہ سے دھرنا ختم پڑا، دھاندلی کی بھی تحقیقات ہوئیں لیکن تحریک انصاف دھاندلی کے ثبوت مہیا کرنے میں ناکام رہی۔

دھرنے کے بعد پانامہ لیکس کی وجہ سے ملکی سیاست میں ہلچل مچی اور معاملہ عدالت عظمی تک جا پہنچا، میاں صاحب کو عدالت عظمی کی جانب سے نااہلی کے فیصلے کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن اتنا سب کچھ ہوجانے کے باوجود، خان صاحب اقتدار کی دہلیز سے کوسوں دور ہیں اور خان صاحب کا سیاسی اوور طویل تر ہوتا جارہا ہے۔ خان صاحب کے میدان سیاست کے کھلاڑیوں میں بھی کافی تبدیلی آچکی ہے، جن سیاسی کھلاڑیوں کو ریلو کٹا اور پھٹیچر سمجھتے اور کہتے تھے، آج وہ تحریک انصاف کا حصہ ہیں۔ لیکن خان صاحب کا دعوی وہی پرانا ہے کہ دونوں وکٹیں ایک ساتھ اڑاﺅں گا۔ حالیہ چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخابات میں تحریک انصاف کی سیاسی حکمت عملی اورگزشتہ دنوں ڈاکٹرعامر لیاقت کی تحریک انصاف میں شمولیت کا بعد یہی کہا جا سکتا ہے کہ خان صاحب طویل سیاسی اوور کراتے کراتے تھک چکے ہیں اورنوبت نو بال تک پہنچ چکی ہے۔ سابق کھلاڑی ہونے کے ناتے خان صاحب یقینا نو بال کے قوانین سے آگاہ ہوں گے کہ نو بال کرانے پر اضافی رن کے ساتھ فری ہٹ بھی ملتی ہے اور نو بال پر وکٹ بھی نہیں اڑتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).