باجوہ ڈاکٹرائن، نواز ڈاکٹرائن اور نمو کی قوت


شہر اقتدار میں آج کل بہار کا موسم ہے اس موسم میں بہار کا “روایتی میلہ” لوٹنے والے آج کل انتہائی خوش وخرم اور مسرور نظر آتے ہیں۔ دارالحکومت میں نگران سیٹ اپ میں حصہ لینے کی خواہش میں پورے وطن سے بے شمار “صادق” اور “امین” حضرات بوریا بستر باندھ کر ڈیرے لگائے بیٹھے ہیں۔ شنید ہے کہ نگران سیٹ اپ کا دورانیہ اس بار طویل ہو سکتا ہے اور مقتدر قوتیں اس نگران حکومت میں صرف “باضمیر” اور ایماندار” افراد کو دیکھنا چاہتی ہیں۔ ایمان، ضمیر اور وفاداریوں کو ان دنوں طاقت کے ایوانوں کے بند کمروں میں ترازو سے تولا جا رہا ہے۔ جن صاحبان نے ضیاالحق اور مشرف کا ابتدائی دور دیکھا ہے وہ ان حالات و واقعات کو خوب اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ موجودہ حالات بھی کم و بیش انہی ادوار کی مانند ہیں بس فرق محض یہ ہے کہ اس بار کسی بھی ڈیکلیئرڈ “کو” کا اعلان موجود نہیں ہے۔ پی ٹی وی اور پارلیمنٹ پر ٹرپل ون بریگیڈ کی مدد سے اس بار قبضہ نہیں کیا گیا لیکن ایک جوڈیشیل مارشل لا کے ذریعے حکومت اور حکمران جماعت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔ ملک بھر سے آئے سیاسی پرندوں اور سرکاری منشیوں کو تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی میں شمولیت کا حکم دیا جا چکا ہے۔ جس سے امکان ظاہر ہو رہا ہے کہ اگر نگران سیٹ اپ طویل المعیاد ہوا تو تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی دونوں کو اس میں شامل کیا جا سکتا ہے۔

بڑے بڑے “رینٹ اے صحافی برجوں ” کو اس وقت باجوہ ڈاکٹرائن کے ہاتھوں شرف بیعت کا اعزاز حاصل ہو چکا ہے۔ آنے والے دنوں میں ٹیلیویژن چینلز کی اسکرینوں اور اخبارات کی سرخیوں میں عوام الناس کو اس ڈاکٹرائن کے قصیدے دیکھنے اور پڑھنے کو مسلسل دستیاب ہوں گے۔ حکمران جماعت حالات کا ادراک رکھتی ہے یہی وجہ ہے کہ کبھی وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی امریکی نائب صدر سے نجی ملاقات کر رہے ہیں تو کبھی شہباز شریف برطانیہ میں اہم شخصیات سے خفیہ ملاقاتییں کر رہے ہیں۔ بین الاقوامی ایسٹیبلیشمنٹ نواز ڈاکٹرائن کو سپورٹ کرتی ہے یا باجوہ ڈاکٹرائن کو اس کا فیصلہ دراصل وطن عزیز میں عام انتخابات کے منعقد ہونے یا نہ ہونے کا انجام طے کرے گا۔ باجوہ ڈاکٹرائن کم و بیش پرویز مشرف والی ڈاکٹرائن ہے جس کے مطابق وطن عزیز کے سارے مسائل کرپٹ سیاستدانوں اور بیوروکریسی کی وجہ سے ہیں۔ جبکہ ملک میں جتنے بھی اچھے اقدامات یا مثبت تبدیلیاں ہیں وہ افواج پاکستان کی مرہون منت ہیں۔ اس ڈاکٹرائن کے مطابق ملک سیکیورٹی یعنی دفاعی بیانئیے کے دم پر نہ صرف اب تک سلامت ہے بلکہ اسی کے دم پر دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کر سکتا ہے۔ ملک میں کون سیاست کرے گا اور کون نہیں اس کا فیصلہ بھی باجوہ صاحب کا ادارہ کر سکتا ہے اور ظاہر ہے کہ غداری اور حب الوطنی کی اسناد تقسیم کرنے میں تو ادارہ تمام جملہ حقوق اپنے نام محفوظ رکھتا ہے۔

عدلیہ اور نیب کے ذریعے اپنے تمام حریفوں کو چونکہ چاروں شانے چت کیا جا چکا ہے اس لئے اگر بین الاقوامی اسٹیبلیشمنٹ کے دباؤ پر بہ امر مجبوری انتخابات کا انعقاد کروانا بھی پڑ گیا تو اس امر کو یقینی بنایا جا چکا ہے کہ مرکز میں کسی بھی صورت “نافرمان” نواز شریف کی جماعت کو اکثریت نہ ملنے پائے۔ انتخابات کے نتیجے میں ایک مخلوط پارلیمنٹ معرض وجود میں آنے کی صورت میں باآسانی ایک “امین” کو وزیر اعظم کے طور پر منتخب کروایا جا سکتا ہے۔ چونکہ “صادق” کو ڈھونڈ کر اور تراش خراش کے سینیٹ کا چئیرمین بنوایا جا چکا ہے اس لئیے ایک “امین” کو وزیر اعظم بنوانے سے “صادق اور امین” کی جوڑی مکمل ہو جائے گی اور جنرل ضیالحق کی روح کو بھی سکون و قرار میسر آ جائے گا کہ جس آرٹیکل 62 اور 63 کو آئین میں شامل کر کے اس نے “فرشتوں” کی حکمرانی کا خواب دیکھا تھا وہ بالآخر پورا ہو گیا۔ اسے اگر ایک تیر سے دو شکار کرنا کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ ایک جانب مخالفین کو اس کی مدد سے ناک آوٹ کیا گیا ہے تو دوسری جانب جنرل ضیاالحق اور جسٹس منیر کی بدروحوں کو بھی پھر سے اقتدار کے ایوانوں میں نیا جنم لینے کا موقع فراہم کر دیا گیا ہے۔ دوسری جانب نواز شریف کی ڈاکٹرائن جو روشن خیالی، لبرل اکانومی، انفراسٹرکچر ڈیویلپمینٹ اور ہمسایوں سے امن و امان کے تعلقات پر مبنی ہے اس کیلئے سیکیورٹی ایسٹیبلیشمنٹ کے ہاں قبولیت کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔ منتخب نمائندوں کو محض فیتے کاٹنے اور معیثت کو درست کرنے کی اجازت حاصل ہے اس سے آگے اگر وہ معاشی وسائل کی تقسیم کو اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے وسائل کی تقسیم پر سوالات اٹھائیں یا کسی ادارے کو اخراجات کم کرنے کا کہیں تو پھر وہ وطن کیلئے سیکیورٹی رسک بھی ہو جاتے ہیں اور الف لیلوی کرپشن کی داستانوں میں ان کا نام بھی آ جاتا ہے۔

نواز شریف ڈاکٹرائن تو اس سے کہیں قدم آگے جا کر نہ صرف دفاعی بیانئیے کو چیلنج کر رہی تھی بلکہ ملک سے اندھیروں اور دہشت گردی کو مٹانے کا کریڈٹ بھی لے رہی تھی۔ اس ڈاکٹرائن کے تحت بترریج مقبول ہوتا ہوا ایک بلڈی سویلین منتخب نمائندہ پاک پوتر اور مقدس گائے کے رتبے پر فائز دفاعی ایسٹیبلیشمنٹ اور وطن عزیز پر قائم اس کی اجارہ داری کیلئے ایک بہت بڑا خطرہ بن چکا تھا ۔ اس لئیے روایتی ہتھکنڈوں سے اس کو قانون کے ترازو اور ہتھوڑے سے شکار کر کے ایک مصنوعی سیاسی منظر نامہ تشکیل دینے کی کوششیں جاری ہیں۔ قباحت یہ ہے کہ اس سعی لاحاصل کی آرزو ایوب خان، یحیی خان، جنرل ضیاالحق اور جنرل پرویز مشرف نے بھی کی تھی لیکن نہ تو دل ناشاد اس آرزو کے طفیل شاد و آباد ہونے پایا اور نہ ہی گلشن میں لگائے مصنوعی پھول خوشبو پیدا کرنے اور بہار لانے میں کامیاب ہوئے۔ اگر دل خوش کن کو پھر سے شوق کی تکمیل کی خاطر ایک نیا تماشہ بپا کرنے کا ارمان ہے تو یونہی سہی ۔مگر صنم کدوں میں رندوں کو پرانی مے کو نئے پیمانوں میں پیش کر کے محفل سجائی تو جا سکتی ہے لیکن محفل لوٹی نہیں جا سکتی ہے۔ نواز شریف کی ڈاکٹرائن موجودہ وقت میں پاپولر بھی ہے اور پنجاب کے ووٹرز کی اچھی خاصی تعداد محض اس ڈاکٹرائن کی وجہ سے اسے ووٹ دینے پر آمادہ بھی نظر آتی ہے۔ صاحبان وقار شوق سے اپنی ڈاکٹرائن بنائیں اور اسے پیش کر کے عملی جامہ پہنانے کی کوشش کریں لیکن کیا ہی اچھا ہو اگر وہ ایوب، یحیی، ضیا اور مشرف کی ڈاکٹراینز کی ناکامیوں کی وجوہات اور عوامل پر بھی غورو فکر کر لیں۔ یہ تمام ڈاکٹرائنز اس لئیے ناکام ہوئی تھیں کہ ان کو عوام کی اکثریت کی نا تو تائید حاصل تھی اور نہ ہی دفاعی ادارے، ٹیکنوکریٹ یا مصنوعی رہنما سیاست کے محاذ کی پیچیدگیوں کا ادراک رکھتے تھے۔

آمریت اور کنٹرولڈ جمہوریت کے باعث پاکستان میں اقتدار کے ایوانوں میں ہمیشہ سے ہی اختیارات اور طاقت کے توازن کی جنگیں خاموشی سے لڑی جاتی رہی ہیں لیکن اب کی بار یہ لڑائی پس پردہ نہیں رہی ہے۔ عوام اب ڈوریں ہلانے والے ہاتھوں کو نہ صرف پہچان چکے ہیں بلکہ ان سے خائف بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نواز شریف اور اس کی جماعت کو تن تنہا کرنے کے باوجود اس کی مقبولیت میں کمی نہیں لا جا سکی ہے اور شاید اسی وجہ کے کارن نگران سیٹ اپ لا کر معاملات کو طول دیتے ہوئے عام انتخابات کو تاخیر کا شکار کرنے کی کوشش بھی کی جا رہی ہیں تا کہ پنجاب سے اٹھنے والی ہمدردی کی اس لہر کو جو نواز شریف اور اس کی جماعت کے حق میں ہے غیرموثر کیا جا سکے۔ جس ڈاکٹرائن پر صحافتی و دانشوارانہ قصیدہ گو حلقے واہ واہ کرتے ہوئے اسے نئی پیکنگ میں بیچنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ دراصل نواز شریف اور اس کی ڈاکٹرائن کو مزید جلا بخشنے کا سامان فراہم کر رہے ہیں۔ جس قدر زور صاحبان ذی وقار کی قصیدہ گوئی اور ان کی ڈاکٹرائن کو درست کرنے میں لگایا جا رہا ہے اس سے آدھا بھی اگر اداروں کے اختیارات کا تعین اور سیاست میں دخل اندازی نہ کرنے پر لگایا جاتا تو آج وطن عزیز میں نہ تو ریاست کے ستون ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہوتے اور نہ ہی “صادق” اور “امین” تراشنے خراشنے میں وقت اور وسائل کا زیاں ہوتا۔

نظریات کو نہ تو تھونپا جا سکتا ہے اور نہ ہی مصنوعی طریقے سے تراش خراش کے انہیں عوام پر مسلط کیا جا سکتا ہے۔ بہار میں کھلنے والے پھول خزاں میں مرجھا بھی جائیں تو پھر سے بہار آنے پر نئی کونپلوں کے ساتھ کھل اٹھتے ہیں جبکہ مصنوعی پھولوں کو جتنا مرضی پانی اور مناسب آب و ہوا مہیا کی جائے نہ تو وہ خوشبو دے سکتے ہیں اور نہ ہی چمن میں بہار لانے کا سبب بن سکتے ہیں۔ یہی بات تھیوریز اور نظریات پر بھی لاگو ہوتی ہے۔ جو نظریہ عوام کی تائید اور سیاست کے باغ باغیچوں میں پروان چڑھتا ہے، رونق چمن اور بہار اسی کے دم سے ہوتی ہے۔ جبکہ چند افراد یا گروہوں کے قائم کردہ نظریات یا ڈاکٹرائنز جو بند کمروں میں پروان چڑھتے ہیں وقتی طور پر خوشنما تو دکھائی دیتے ہیں لیکن نمو کی قوت سے محروم ہونے کے باعث نہ تو اگ کر تناور درخت بننے پاتے ہیں جو کڑی دھوپ میں سایے کا باعث بن سکے اور نہ ہی خزاں کی سختیوں اور مصائب کا مقابلہ کرنے پاتے ہیں۔ جرنیلی اور جمہوری ڈاکٹرائن میں بھی فرق قوت نمو کا ہے ۔ اور تاریخ بتاتی ہے کہ قوت نمو وہ واحد قوت ہے جو ہر صورت نشونما کے عمل سے گزر کر پھلتے پھولتے ہوئے اپنا وجود اور اہمیت تسلیم کراتی آئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).